Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اور کون سی آزادی چاہیے ؟

***وسعت اللہ خان ***
اس ملک میں بھلا کون سی آزادی میسر نہیں۔بلکہ بعض آزادیاں تو ایسی خود رو ہیں کہ کوئی بھی حکومت ، فوجی ہو کہ غیر فوجی ، جمہوری ہو یا آمرانہ ۔نہ چھین سکتی ہے نہ عطا کر سکتی ہے۔یہ وہ آزادیاں ہیں جو ہم نے اپنے زورِ بازو سے کمائی ہیں۔باقی دنیا کے لئے جو خواب ہیں ہمارے ہاں روزمرہ کی حقیقت ہے۔شاید اسی لئے ہم انہیں فار گرانٹڈ لیتے ہیں اور اگر ایسے ہی لیتے رہے تو ایک دن ضرور ہم یہ سب آزادیاں گنوا بیٹھیں گے۔
 مثلا دنیا کے کتنے معاشروں کو ہماری طرح یہ عیاشی میسر ہے کہ چاہیں تو ٹیکس دیں چاہیں نہ دیں۔اپنے نورچشم کو کسی خیراتی اسکول میں داخل کروائیں کہ کانونٹ میں یا پھر کہیں داخل نہ کرائیں۔بینک سے قرضہ لیں یا نہ لیں۔واپس کریں نہ کریں۔چاہیں تو بجلی کا بل میٹر کے حساب سے ادا کریں ، نہ چاہیں تو سامنے کے کھمبے میں کنڈہ لگا کے براہ راست بجلی کھینچ لیں جیسے جان کھینچی جاتی ہے ۔چاہیں تو رشوت لیں نہ دل چاہے تو نہ لیں۔آپ کی مرضی کہ زید کو ووٹ دیں یا بکر کو یا پھر کسی کو نہ دیں۔
گوشت ، سبزی ، دال اور ضروریاتِ زندگی کی سب اشیا بھلے کسی دام خرید کر کسی بھی دام بیچیں یا نہ بیچیں۔خالص بیچیں کہ ملاوٹ کرکے۔ جعلی بیچیں کہ اصلی۔ کم تول کے بیچیں کہ پلڑے برابر رکھ کے ۔ دوا اوریجنل خریدیں کہ دو نمبر ۔قسم کھا کے بیچیں کہ بلا قسم ۔اپنی خامیوں پر پہلے نگاہ ڈالیں کہ دوسروں کی خامیاں گننے میں عمر گزاردیں ۔ون وے کو صرف جانے کا راستہ سمجھیں کہ آنے جانے کا۔سگنل توڑیں کہ سبز بتی کا انتظار کریں۔گاڑی کا لائسنس جیب میں رکھیں یا کرنسی نوٹ ہی پولیس کانسٹیبل کو بطور لائسنس دکھلا دیں۔
کسی سے دھوکا کھالیں کہ خود ہی کو دھوکہ دے لیں۔اپنے ایمان کی پہلے فکر کریں یا دوسرے کی بے ایمانی پر مسلسل نگاہ رکھیں۔کسی کی تخلیق کو اپنے نام سے چھاپ دیں کہ اپنی تخلیق کسی دوسرے کے نام سے بیچ دیں۔قانون بنا کے توڑیں یا توڑ کے بنائیں۔ ضابطوں پر کلی عمل کریں کہ جزوی  یا بالکل ہی نہیں۔انصاف کے حصول کے لئے کوئی اچھا سا وکیل کرلیں یا پھر جج یا خود ہی منصف بن جائیں۔
وعدہ کرکے مکر جائیں یا مکرنے کے بعد وعدہ کرلیں۔گالیاں دے لیں کہ کھا لیں۔بھکاری بن کے کما لیں کہ کمائی لٹا کر بھکاری ہو جائیں۔دل چرالیں کہ مال ۔دروازہ کھٹکھٹا لیں کہ دیوار کود کے گھس جائیں۔نہتے رہیں کہ اسلحے کا گودام بنا لیں۔لائسنس لیں کہ نہ لیں ، ایک لائسنس پر ایک ہی کلاشنکوف رکھیں یا ایک لائسنس یافتہ کلاشنکوف کے درجنوں ناجائز بچے پیدا کر لیں۔تجارت کریں کہ اسمگلنگ کو تجارت سمجھ لیں۔جمہوریت کا جمہورا ہوجائیں کہ آمریت کے گن گائیں ۔آدھے آمر اور آدھے ڈیموکریٹ بن جائیں یا پھر ڈیمو کریٹک آمر ۔اصول پسندی کی سولی پر لٹکتے رہیں کہ بے اصولی کی گنگا میں نہاتے ہوئے بھی خشک رہیں۔
اپنے عقیدے کو افضل جانیں کہ دوسرے کے عقائد کا بھی احترام کریں۔نفرت کا نشانہ بنیں یا بنا لیں۔مظلوم کے ساتھ کھڑے رہیں یا ظالم اور مظلوم دونوں کا ساتھ دیں۔جہالت کو علم سمجھیں یا علم کو جہالت سے پردہ کروا کے رکھیں۔کم علموں کی لا علمی کو منافع بنائیں یا انہیں اپنے علم کے منافع میں شریک کریں ۔شرافت کے کمبل میں دبکے رہیں یا شریفانہ وضع قطع سے اپنی کمینگی چھپائیں۔۔زبانی جمع خرچ میں زندگی گزار دیں کہ اپنے حصے کا حقِ خدمت خاموشی سے ادا کر جائیں۔خرد کا نام جنوں رکھ چھوڑیں کہ جنوں کا خرد۔میں کو ہم سمجھیں یا ہم  بطور میں استعمال کرلیں۔ دولت کے نشے میں دوسروں کو نہ بھول جائیں کہ دوسروں کے خواب سستے داموں خرید کر دولت مند ہوجائیں۔لڑیں کہ لڑوائیں ۔باہر خوشی تلاش کریں کہ اپنے اندر ہی خوشیوں کا باغ لگا لیں۔ ناک سے آگے کچھ نہ دیکھیں کہ دوسروں کی ناک نیچی نہ کروائیں۔دین پھیلائیں کہ دین فروش بن جائیں۔خود بھی جہاد کریں کہ دوسروں کو ہی جہاد پر روانہ کرتے رہیں۔قتل کریں اور اور پھر عدالت کے باہر مقتول کے خاندان کو ترغیب ، دھونس یا رقم کی چمک دکھا کر معافی تلافی خرید لیں اور عدالت کو ماموں بناتے ہوئے سیٹی بجاتے ہوئے نکل لیں یا کھلے دل سے اقبالِ جرم کرکے ضمیر کی دائمی تپش سے بچیں ۔بے بسی کے ہاتھوں طاقت کی تابع ایف آئی آر کا رزق بن جائیں یا پھر اپنے حق کے لیے گریبان کے آخری وقت تک لڑیں ۔
یا کسی اور کے جرم کا پھندہ اپنے گلے میں فٹ کروا کے عدالتی حکمِ امتناعی کے باوجود جیلر کے ہاتھوں پھانسی پر جھول جائیں۔آپ کے ورثا کو احتجاج کرنے ، آپ کی لاش ایک آدھ گھنٹہ سڑک یا ریلوے لائن پر رکھ کے ٹریفک معطل کرنے ، ٹائر جلانے اورپریس کلب کے باہر انصاف کی دہائی میں دو تین روز تادمِ مرگ بھوک ہڑتال اور میڈیائی کیمروں کی آنکھیں سینکنے کی مکمل آزادی ہے اور ریاست کو بھی مکمل حق ہے کہ وہ آپ کے ورثا کے غم میں برابر کی شریک ہو کر تحقیقات اور پانچ دس لاکھ روپے ہرجانے کا اعلان کر کے آگے بڑھ جائے۔ تعجب ہے کہ ایسے ملک میں جہاں آپ کچھ بھی پوری آزادی اور اطمینان کے ساتھ کر سکتے ہیں وہاں مزید حقوق  کے لئے دھرنے ، عدالت کے اندر اور باہر بھاشن بازی اور 21 انچ کی اسکرین پر روزانہ ناٹک رچانے سے کیا حاصل؟ آپ کو ریاست کے وعدے پر قطعا اعتبار نہیں کہ قانون ہاتھ میں لینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی ؟ یعنی اے کوڑھ مغز لوگو !ریاست کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب سب کو سب کچھ پیروں تلے روندنے کی چھوٹ ہے تو پھر قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت مانگنا بنتا نہیں ہے۔
 

شیئر: