Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تدریس کے میدان کی منجھی ہوئی کھلاڑی ہوں ،یاسمین اسلم

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
 
اس کائنات کا ہر فرد اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں خوب سے خوب تر کی طرف گامزن رہتا ہے۔وہ اپنی زندگی کو حسین بنانے کے لئے اپنی سوچ، صلاحیت اور تعلیم میں اضافہ کرتا ہے تا کہ وہ اپنی بساط سے بڑھ کر بہتر انداز میں اپنی زندگی بسر کر سکے۔ اس لئے انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرے۔ وہ دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تعلیم ہی وہ زیور ہے جو انسان کے کردار کو سنوارتی ہے۔ تعلیم کا مطب یہ نہیں کہ محض کالج یا یونیورسٹی سے ڈگری لے لی جائے بلکہ اس کا مطلب علم کے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا ہے تا کہ انسان اپنی معاشرتی روایات او رساتھ اپنی اقدار کا بھی خیال رکھ سکے۔ تعلیم وہ نعمت ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہونے کے قابل بناتی ہے ۔ تعلیم وہ سنگھار ہے جو زندگی میں اللہ کریم کی عبادت کرنا سکھاتی ہے ۔ اس کے علاوہ محبت ، خلوص ، ایثار ، خدمت خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات بھی انسان میں بیدار ہوتے ہیں۔ علم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھتی ہے۔
حصول تعلیم کے لئے قابل اساتذہ بھی نہایت ضروری ہیں جو اپنے طلبہ و طالبات میں موجود صلاحیتو ں کو بیدار کرتے ہیں اور انہیں شعور و ادراک ، علم وآگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے بھی مالا مال کرتے ہیں۔ جو اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کرتے ہیں، ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند دکھائی دیتے ہیں۔ 
رواں ہفتے ہوا کے دوش پر اردونیوز کی مہمان ایک ایسی ہستی ہیں جو بے شمار خصوصیات کی مالک ہیں۔ وہ درس و تدریس کے شعبے سے تقریباً 30سال سے وابستہ ہیں ۔ وہ نہ صرف اپنے پیشے کے ذمہ داروں کے ساتھ انصاف کرتی ہیں بلکہ انہیں احسن انداز میں نبھا بھی رہی ہیں اور امور خانہ داری میں بھی ان کا کوئی جواب نہیں ۔ وہ اپنے گھریلو کاموں میں بھی یکتا ہیں ۔ وہ اپنی گھر کی ذمہ داریوں کو بھی نہایت ہی خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جس کی لفظی تشریح کی ضرورت نہیں۔ پروقار، خوش گفتار ، خوش لباس اور سب سے بڑھ کر ہر لمحہ چہرے پر دھیمی دھیمی مسکان ، جو ان کی شخصیت کی سحر انگیزی میں اضافہ کر دیتی ہے ۔آج ہم آپ کی ملاقات یاسمین اسلم سے کراتے ہیں جو ہماری مہمان ہیں۔ ان کے گفتگو کرنے کے انداز اور ان کے لب ولہجے نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ 
یاسمین اسلم کہتی ہیں کہ میں نے عروس البلاد کراچی میں آنکھ کھولی۔ وہیں میری پرورش ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم میں نے سینٹ زیویئرز اسکول سے حاصل کی اس کے بعد میں عائشہ باوانی اسکول چلی گئی۔ میرے اندر علم حاصل کرنے کا جو جذبہ تھا اس کو میرے والد صاحب نے بخوبی بھانپ لیا تھا۔ اس لئے انہوں نے مجھے برطانیہ بھیج دیا جہاں سے میں نے مزید تعلیم حاصل کی۔ میں نے انگریزی زبان برائے بالغاں پر عبور حاصل کیا۔ جب میں نے اپنی تعلیم مکمل کی تو وطن واپس آکر درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئی۔ مجھے درس وتدریس کے شعبے سے منسلک ہوئے تقریباً 30سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اب تو میں طالب علم کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیتی ہوں کہ اس میں کیا کیا جوہر چھپے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ میں تدریس کے میدان کی منجھی ہوئی کھلاڑی ہوں ۔
محترمہ یاسمین کہتی ہیں جب میں نے دیکھا کہ ریاض میں خاص طور غیر ملکی بچوں کے لئے اسکول کی ضرورت ہے اور والدین بھی چاہتے ہیں کہ یہاں اسکول موجود ہو،میں نے ایسے میں سوچا کہ کیوں نہ ایک ایسا اسکول کھولا جائے کہ جوبچو ں کی ضرورت اور والدین کی مرضی کے مطابق ہو ا س لئے میں نے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنایا اور شہر ریاض میں اسکول بھی کھولا ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب مملکت میں نجی اسکولز بہت کم ہوا کرتے تھے۔ میں نے اس اسکول کے لئے کافی محنت اور جدوجہد کی اور اسے کافی عرصے تک چلایا۔ میں جب بھی اپنے اسکول کے طلبہ وطالبات کو کامیابیاں حاصل کرتے دیکھتی ہوں تو یقین جانئے مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے کہ میرے ہی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے بچے آج کس کس مقام پر فائز ہیں۔ پھر جب قواعد و ضوابط میں تبدیلی آئی تو میں نے شعبہ تدریس کا انتخاب کر لیا اور میں اکیڈیمل ڈائریکٹریس کے طور پر خدمات انجام دینے لگی۔ ڈائریکٹر کا کام دوسرے اداروں کوسہولتیں بہم پہنچانا، اس لئے میں دوسرے اسکولوں کو سہولتیں فراہم کرنے کا کام کرتی تھی ۔
اسے بھی پڑھئے:سادگی میں خوشیاں زیادہ تھیں، تصنع نے بہت کچھ چھین لیا، میمونہ شاہد
محترمہ یاسمین اسلم نے بتایا کہ میرے والد کا تعلق سیالکوٹ سے اور والدہ کا امرتسر سے تھا۔ میرے والد کا شمار پاکستان کی کاروباری ، نامی گرامی شخصیات میں ہوتا تھا۔ یہ میری والد کی ہی محنت اور تربیت کا ثمر ہے کہ آج میں اس مقام پر کھڑی ہوں۔ انہوں نے مجھے بیٹوں کی طرح پالا، پڑھایا، لکھایا، میری پرورش کی۔ میرے والد بااصول انسان تھے۔ ہم ان کے اصولوں کے خلاف چلنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔میری تمام کامیابیوں کا سہرامیرے والدین کے سر ہے ۔ والدین نے میری ہر فرمائش اور شوق کو پورا کیا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کسی شے کی فرمائش کی ہو اور میرے والد نے اسے پورا نہ کیا ہو۔ 
ہم ماشاءاللہ ، تین بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ گھر بھرا پرا ہے ۔ روپے پیسے کی بھی ، الحمدللہ، کوئی کمی نہیں ۔ ہر شے کی گھر میں فراوانی رہی ۔ والدین بھی زندگی سے بھرپور تھے، ہر وقت گھر میں قہقہے تھے۔ میرے والدین نے ہم سب کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی اور اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھایا۔ یہی میرے والدین کی دلی خواہش تھی کہ ان کے سارے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوجائیں۔ الحمد للہ، ہم سب نے ان کے خوابوں کو عملی جامہ پہنایا۔
اب سب بھائی بہنوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور سب ما شاءاللہ، اپنے اپنے گھروں میں خوش اور آباد ہیں۔ محترمہ یاسمین اسلم کی شخصیت میں ایک سحر او رباتوں میں مٹھاس ہے جو ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہونے دے رہا تھا۔ اپنے خاندان کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ ماضی میں کھو گئیں۔ یاسمین اسلم نے بتایا کہ ان کی ایک بہن ریا ض میں مقیم ہے، دوسری امریکہ میں، تیسری اسلام آباد میں اور چوتھی بہن کراچی میں مقیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح میں ہر جگہ گھومتی پھرتی رہتی ہوں۔ ما شا اللہ، ہم ساری ہی بہنوں میں بہت پیار و محبت ہے اور سب ہی ایک دوسرے کا خیال رکھتی ہیں۔ ویسے بھی بہنیںتو ہوتی ہیں ایک دوسرے کی غمخوار۔ ہمارے والدین سوشل بھی بہت تھے اس لئے ہمارے گھر میں ہر وقت لوگوں کاآنا جانا لگا رہتا تھا او ریہی عادت ہم سب بہن بھائیوں میں بھی منتقل ہوئی۔ لوگوں سے ملنا جلنا مجھے پسند ہے اس طرح گھر میں لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے ، رونق رہتی ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ گھر میں خوب مہمان نوازیاں ہوں۔
میرے شوہر عابد وسیم اسلم بنیادی طور پر ایک سول انجینیئر ہیں۔ انہوں نے اپنی انجینیئرنگ کی ڈگری کراچی کی مشہور این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے حاصل کی۔ میری شادی کراچی میں ہوئی ۔یہاں میں یہ بتاتی چلوں کہ سسرال سے کوئی رشتہ نہیںتھا مگر دونوں خاندانوں میں پرانی دوستی ضرور تھی۔ عابد وسیم اسلم میرے لئے نہایت ہی معاون شریک سفر کی حیثیت سے میری زندگی میں داخل ہوئے۔ ان میں بے شمار خصوصیات ہیں۔ کیا کیا بتاﺅں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بڑے ہی ٹھنڈے مزاج کے ہیں۔ اللہ کریم نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ الحمد للہ وہ بہت خیال رکھنے والے شریک سفر ہیں اور ہمیشہ مجھے تحفے دے کر حیران کر تے رہتے ہیں۔ انہیں صاف ستھرا گھر پسند ہے اس لئے میں اپنے شوہر کے گھر آنے سے پہلے گھر کی صفائی وغیرہ کر لیتی ہوں۔ تمام تر سچائیوں میں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ عورت کے فرائض اور اس کی ذمہ داریوں کی تکمیل ہی اس کی منزل ہے جس کو پانے کے لئے وہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتی ہے۔ اسی میں اس کا سکون پنہاں ہے۔
ہمارے رشتے کی مضبوطی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہمیںایک دوسرے پر اعتماد ہے۔ یہی ہماری زندگی کی خوشیوں کا راز ہے۔ میں اللہ کریم کا شکر ادا کرتی ہوں کہ زندگی میں ہر قدم پر شوہر کا تعاون رہا۔میں اپنے شوہر کی بھی بہت مشکور ہوں۔ مجھے لمبے سفر پر جانا بہت پسند ہے اس لئے میں اکثر ابھاءجاتی ہوں۔ ویسے بھی جب ہمیں وقت ملتا ہے ہم وہاں کے موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔
یاسمین اسلم کہتی ہیں کہ علم دنیا کی وہ واحد دولت ہے جس کو کوئی چرا نہیں سکتا ۔یہ وہ دولت ہے کہ اس کو جتنا بھی خرچ کیا جائے ،یہ اتنی ہی بڑھتی ہے اور پھر علم کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ۔ زیادہ علم حاصل کرنے والی قومیں آج ترقی کے میدان میں ہم سے بہت آگے نکل گئی ہیںلہٰذا ہمارے وطن عزیز کے بچے جو ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انہیں چاہئے کہ خوب دل لگا کر او رمحنت سے تعلیم حاصل کریں اور ملک کی خوشحالی اور ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ علم کے ذریعے ہی ہم اپنے وطن کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو کھیل کود میں بھی حصہ لینا چاہئے کیونکہ کھیل کود سے جسمانی و ذہنی نشوونما ہوتی ہے لیکن آج کے دور میں یہ ہماری بدنصیبی کہئے کہ اکثر اسکولو ں میں کھیل کا میدان ضروری نہیں سمجھا جاتا اس لئے اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا اور بچے کلاس رومز میں بیٹھے بیٹھے ہی گھر چلے آتے ہیں۔ اس لئے بیرونی سرگرمیوں میں بچے کی دلچسپی کم ہی ہوتی ہے۔ ماضی میں بچے کھیلوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ اس لئے ان کا آئی کیو لیول بھی کافی ہوتا تھا۔ انسان کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ جسمانی نشو و نما بھی بے حد ضروری ہے تا کہ انسان ہر لحاظ سے چاق و چوبند او رصحت مند رہے۔ 
محترمہ یاسمین کہتی ہیں کہ میں شادی کے فوراً بعد سعودی عرب آگئی۔ آج میں اللہ کریم کا بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے سب چیزیں بہترین عطا فرمائیں۔ ایک وقت تھا جب مجھے نہ صرف خیال رکھنے والی سہیلیاں میسر تھیں بلکہ صبح و شام دعوتیں، پارٹیاں ، پکنک اور دیگر محافل منعقد ہوتی تھیں جن میں شرکت لازمی ہوتی تھی ۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب بہت ساری تقریبات میں شرکت کے باعث وقت ہی کم پڑ جاتا تھا۔ ایک دن میں دو ، دو جگہ سے دعوت نامے آتے تو دونوں جگہ جانا ہمارے لئے ممکن نہ ہوتا۔ ان سب باتوں کے باوجود ہمارے بچوں کے خواب او ران کا مستقبل ہمارے سامنے سب سے اہم تھا۔ اس لئے میں نے اپنے بچو ں کے مستقبل اورکریئر کو ترجیحی دی ان دعوتوں میں آنا جانا کم کر دیا کہ کہیں میرے بچوں کی پڑھائی متاثر نہ ہو ۔
میری سب سے بڑی بیٹی ربیعہ ہے جس نے برطانیہ سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی۔ دوسری بیٹی سعدیہ نے اکاﺅنٹس میں ”اے سی سی اے“ کیا ہے او راب وہ بطور تعلیمی کوآرڈینیٹر اپنے فرائض انجام دے رہی ہے او رمیرا سب سے چھوٹا بیٹا معاذ ہے جس نے کینیڈا کے شہر ہملٹن کی مشہور یونیورسٹی ”میک ماسٹر“سے الیکٹرانک انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کہ میرے بچوں نے میرے خوابوں او رخواہشوں کو پورا کیا۔ میرے سسر عطا اللہ خان اسلم نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی اور مختلف بین الاقوامی کمپنیوں میں ملازمتیں کیں۔ ان کااکثر بیرون ملک آنا جانا لگا رہتاتھا۔ اس لئے میری ساس نسرین بہت سلجھی ہوئی، سمجھدار گرہستن تھیں۔ انہوں نے خود کو گھر او ربچوں کے لئے وقف کررکھا تھا۔ انہوں نے اپنے 5بیٹوں کی پرورش میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ انہوں نے اپنی اولاد کی پرورش نہایت ہی شاندار انداز میں کی ہر کسی کو دین و دنیا دونوں کی تعلیم دلوائی۔ ان کی کوئی بیٹی نہیں تھی مگر وہ بہوﺅں کو ہی اپنی بیٹیاں سمجھتی تھیں اس لئے بہوﺅں پر جان چھڑکتی تھیںاوربہوئیں بھی اپنی ساس اور سسر کے پیار و محبت کا جواب عزت و احترام سے دیتی تھیں۔
محترمہ یاسمین کہتی ہیں کہ میرے اندر اتنی جرات ، ہمت او رحوصلہ تھا کہ میں ہر کام کو کر گزرتی تھی۔ مجھے ماڈلنگ کا شوق تھا ، مجھے موسیقی سے بھی لگاﺅتھا۔ میں نے موسیقی کی تربیت بھی حاصل کی، میں نے ماڈلنگ بھی کی۔ یہ سب میں نے شادی سے پہلے کیا۔ میری بہادری او رہمت کو دیکھتے ہوئے میرے پاپا مجھے فوجی جوان کا خطاب دیا کرتے تھے۔ جس طرح فوجیوں میں ہمت ، حوصلہ اور بہادری کا جذبہ ہوتا ہے، انہیں کسی چیز کا ڈر او رخوف نہیں ہوتا اسی طرح میرے اندر بھی کسی کا خوف نہیں تھا۔ میں بہت نڈر اور بے باک لڑکی تھی۔
میرے شوہرعابد کے ایک بھائی امریکہ میں ہیں۔ دوسرے برطانیہ ، تیسرے دبئی اور سب سے چھوٹے فوج میں ہیں۔اسی لئے جب میری شادی ہوئی تو میرے ساس اور سسر دونوں بالکل تنہا رہتے تھے۔ اس لئے مجھے کچھ قیمتی وقت مل گیا ان کے ساتھ گزارنے کا۔ میں ان کے ساتھ بہت سارے کھیل کھیلا کرتی تھی۔ مثال کے طور پر کارڈز ، اسکریبل اورلوڈو ۔ اسی طرح کے دوسرے کھیل بھی میں ان دونوں کے ساتھ کھیلتی تھی اور مجھے بہت خوشی ہوتی تھی کیونکہ میں ان کے لئے مختلف قسم کے کھانے بناتی تھی اوروہ دونو ں بہت خوش ہوتے تھے ۔ مجھے بہت دعائیں دیتے تھے پھر میرے ساس اور سسر کا انتقال ہوگیا۔
اب ہم سب یقینا سال میں ایک بار تو ملتے ہیں کبھی عید کے موقع پر یا پھر دبئی اگر جانا ہو جاتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ساس سسر سے سسرال اور ماں باپ سے میکا، جب ان کا سایہ اٹھ جائے تو وہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ باقی اللہ تعالیٰ رشتوں میں محبتیں قائم رکھے۔ ملنا ملانا تو رہتا ہی ہے۔ جب یاسمین سے ادب پر بات ہوئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ مجھے مطالعے کا بے حد شوق ہے او رمیں نے لا تعدادکتابوں کا مطالعہ کیا ہے مگر اتفاق سے وہ ساری کی ساری انگریزی کی کتابیں ہیں اردو کی شعر و شاعری سے بھی مجھے بہت لگاﺅ ہے۔ بہزاد لکھنوی کی یہ غزل مجھے بہت پسند ہے ۔ اسے میں اردونیوز کے قارئین کی نذر کرنا چاہوں گی: 
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لئے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے
اے دل کی خلش چل یونہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں 
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آجائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آجائے
 
 

شیئر: