Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیدنا عیسی علیہ السلام کا رفع و نزول ، امید کی کرن

***ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ***
زمینی طاقتوروں اور ظالم قوتوں کو توڑنے والے اللہ کے حکم سے آسمان پر زندہ ہیں اور ان شاء اللہ نازل ہوں گے۔میں نے روزنامہ مکہ میں ایک مضمون عربی زبان جاننے والے قارئین کیلئے لکھا تھا ۔ اردو زبان سے واقفیت رکھنے والے احباب کیلئے اس کے مندرجات یہاں استفادہ عام کیلئے بیان کررہا ہوں۔امید ہے کہ اس مقالے میں مسلمان امت کی تسلی، تشفی اور ان کی ایمان کے قوت اور ان کی اس یاس اور اس محرومی کی شکار کا علاج  اور مداوا ہے جو عالمی کفر نے پھیلا رکھاہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ اس دور میں طاقت ور قوتیں کس طرح اپنا سکہ منوارہی ہیں اور خصوصاً ان کیلئے شر دوانیاں اور ان کا مکر ودجل اور ان کا دھوکہ دہی بلاد اسلامیہ میں پورے زور سے اس کا مظاہرہ کیا جارہاہے اور مسلمان ملکوں میں  سے کوئی  ایسا ملک نہیں جہاں ان کے  اور ان  کے مکرو دجل کے جال نہ بچھے ہوں  بلکہ انہوں نے انہی ملکوں میں اپنے کچھ نمائندے خرید رکھے ہیں  جو امت مسلمہ میں یاس اور مایوسی کو پھیلائیں اور ان کو یہ باور کریں کہ کفر بہت طاقتور چیز ہے اور مسلمان امت اس کا مقابلہ کسی طور نہیں کرسکتی ۔
ایسے حالات کا بھی اللہ تعالیٰ نے امت کیلئے مداوا کررکھا ہے۔انہی حالات میں حیات عیسیٰ ، ان کا رفع اور ان کے نزول کا  عقیدہ  اسی طرح امت مسلمہ کو اطمینان خاطر بخشتاہے  جیسے مسلمان امت  کے دیگر مسلمات  اور عقائد میں  ان کے اندرونی اور بیرونی ہر دو طرح کے مخاطر اورپریشانیوں کا حل ہیں ۔
مسلمان امت کے عقائد اس کیلئے بہترین سرمائے ہیں  جو اندر سے اسے قوت فراہم کرتے ہیں  اور اطمینان اور تسلی بخشتے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کا رفع ونزول ان اسلامی مسلمات میں سے ہے جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہوچکا ہے اور حق تعالی شانہ نے قرآن حکیم میں حضرت عیسیٰ کو پورے طورپر لینا اور ان کا اٹھانا اور ان کو کافروں کی دسترس سے  محفوظ کرکے اوپر لے جانا ۔ان تمام تفاصیل کا قرآن کریم میں  ذکر موجود ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔اذ قال اللہ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الی ۔اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی کے سباق پر غور فرمائیں ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔ومکروا ومکر اللہ۔اعدائے عیسیٰ نے مکر کیا  اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تدبیر فرمائی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
ان کا مکر کیا تھا؟ ان کے اس مکر کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ بیان فرمایا ۔انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو سولی کے ذریعے قتل کریں گے ۔اور ان  پر اس  دور کے اعدائے پیغمبر نے جو الزامات لگائے  وہ ان کے قتل اور ان کے صلب کے مبررات  تھے ،جو ان کو وجہ جواز فراہم کرتے تھے۔اب جب یہ حالات تھے اور ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گھیرے میں لے لیا۔اب اس حالت میں دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کیا ہوتی ہے؟
جب مخلوق کی تمام تدابیر ایسی  ہوجائیں کہ ان سے بچنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے  تو اللہ کی قدرت اپنی تدبیر کا مظاہرہ فرماتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ۔وما قتلوہ وما صلبوہ۔وہ نہ  انہیں قتل کرسکے اور نہ سولی دے سکے۔بل رفعہ اللہ الیہ۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کے رفع کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے۔مفسرین نے آیت قرآنی  (اذ قال اللہ یا عیسیٰ انی متوفیک  ورافعک الی  ومطہرک)  کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت  میں اللہ تعالیٰ نے ان 3 امور کا ذکر فرمایا ہے  جو اللہ تعالیٰ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کرنے والے تھے اور ان میں سب سے پہلا  ان کی توفی۔ ان کو پورے طور اپنے قبضہ میں لینا ۔ دوسرا ان کا رفع اور تیسرا ا ن کی ان کے دشمنوں سے تطہیر  ۔ اس طور پر کہ انہیںایسے جگہ منتقل کرنا جہاں  ان کے دشمنوں  کے ناپاک ہاتھ ان  تک نہ پہنچ سکیں ۔
جملہ اسلامی مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب دیکھاکہ  حضرت عیسیٰ کے دشمنوں نے انہیں گھیرلیا اور یہ ان کی تدبیر تھی کہ انہیں پکڑ کر قتل کریں ۔
تو اللہ کی تدبیر کیا تھی؟فرمایا : ولکن شبہ لہم۔ اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مشابہت  ایک شخص پر اللہ تعالیٰ نے ڈال دی ۔ انہوں نے اس شخص کو  حضرت عیسیٰ سمجھ کر سولی پر چڑھادیا کہ اب عیسیٰ کو انہوں نے قتل کردیا۔
یہ تو ان کا قول تھا۔ وہ حضرت عیسیٰ کے دشمن تھے مگر حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کی طرف قتل کی نسبت کرنے پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعدائے عیسیٰ پر غضب نازل کیا اور فرمایا :فبما نقضہم میثاقہم  وکفرہم بآیت اللہ وقتلہم الأنبیاء بغیر حق وقولہم انا قتلنا المسیح۔
اللہ تعالیٰ کا غضب یہود پر اس لئے ہوا کہ وہ عہد توڑتے تھے  اور اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کوناحق  قتل کرتے تھے۔ اور ان کا یہ کہنا کہ  ہم نے مسیح کو قتل کیا ۔
یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ  جو حضرت عیسیٰ کی حیات چاہتے تھے ۔جو انہیں بچانا چاہتے تھے اور انہوں نے انہیں بچا بھی لیا ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے قتل کا قول،ان کی موت کا عقیدہ اس قدر برا ہے  کہ  وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور لعنت کا سبب  ہوتاہے۔
یہ چیز ہر اس قوم  اور فرد کیلئے  قابل تأمل ہے   جو حضرت عیسیٰ کی حیات کا منکر ہو اور انہیں  زندہ نہ مانے اور ان کے رفع ونزول  کا منکر ہو۔چاہے وہ  مسلمانوں میں سے ہوں یا اس گروہ میں سے جو اپنے آپ کو اہل تحقیق سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے اس اجتماعی عقیدے کے خلاف رائے رکھتے ہیں ۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ہے کہ آپ نے قسم اٹھاکر فرمایا کہ :  واللہ لیوشکن أن ینزل فیکم ابن مریم۔اللہ کی قسم  قریب ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم تم میں اتریں گے۔اب دنیا میں چاہے کتنے ہی سال ہوں مگر اللہ کے نزدیک یہ وقت قریب ہے۔اللہ کی نظر میں قریب ہے کیونکہ یہ دنیا ایک ناپائدا رمدت ہے ۔ چاہے یہ کتنی ہی لمبی اور سینکڑوں برس پر محیط ہو  ۔یہ اللہ کے نزدیک آخر ت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔
بہر حال جب  اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت تامہ سے اور قاہرہ سے ان کے فریب اور مکر کو ناکام کردیا اور وہ خائب وخاسر ہوئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :بل  رفعہ اللہ الیہ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا ۔اور ساتھ ہی یہ فرمایا :  وکان اللہ عزیزاً حکیما۔اللہ تعالیٰ  غالب اور حکمت والے ہیں ۔
اپنی2 صفات جو اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ذکر فرمائیں ہیں:(1)اللہ کا اپنے فیصلوں میں غالب ہونا(2)اور اللہ کا حکیم ہونا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ چاہے اس معجزے کو نہ مانیں ۔ اور اسے عقل سے بعید  سمجھیں ۔ تو یقین جانئے کہ یہاں عقل کا کوئی کام نہیں ۔یہاں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار اور اس کے معجزے کا عمل ہے ۔جس نے  انہیں اٹھایا ؟
اورپھر انہی کو کیوں اٹھایا ۔دیگر  انبیاء کو کیوں نہیں اٹھایا؟ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی کئی حکمتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع میں اور ان کی حیات میں پنہاں ہیں ۔یہ ایک مستقل موضوع ہے جس کو ہم ان شاء اللہ کسی دوسری فرصت میں بیان کریں گے۔
اور ان حکمتوں کی طرف  جنہیں علماء نے ترتیب دیا ہے اشارہ کریں گے ۔کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کے رفع میں کیا حکمتیں ہیں؟ 
بہر حال اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع فرمایا اور قرآن حکیم نے اس کو نص صریح سے بیان فرمایا ہے(بل رفعہ اللہ الیہ) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحیح حدیث میں قسم کے صیغے کے ساتھ بیان فرمایا کہ وہ اتریں گے ۔ اور قرآن حکیم کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا واتبوعون۔عیسیٰ قیامت کی علامت ہیں ۔ اس میں شک نہ کریں اور میری پیروی کریں ۔
رہا قرآن کریم  تو اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بارے میں  صرف ایک  بار یوں ذکر کیا ہے ۔ اور وہ سورہ  مائدہ کی آیت مبارکہ  ہے :وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ۔کہ تمام اہل کتاب ان کی موت سے پہلے پہلے دائرہ ایمان میں آجائیں گے اور ضرور بضرور مؤمن ہوجائیں گے۔
چونکہ نص قطعی اس امر کی دلیل ہے کہ جب تک دنیا میں جملہ اہل کتاب دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوتے تب تک حضرت عیسیٰ  کی موت نہ واقع ہوئی ہے نہ ہوگی۔ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان پر گواہ ہوںگے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندگی کے تین مرحلے ہیں:
پہلا مرحلہ: ان کے رفع سے پہلے کا۔ وہ اپنی قوم میں گواہ تھے ۔ وکنت علیہم شہیدا ما دمتُ فیہم۔  جب تک میں ان کے اندر رہا میں ان پر شاہد رہا۔
دوسرا مرحلہ: ان کا یہ  توفی ہے۔
پھر ایک تیسرا مرحلہ :  ان کے نزول کے بعد جب اس دنیا میں آئیں گے ۔ تب اس وقت کے لوگوں کے وہ گواہ بنیں گے۔یہ تین  مرحلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کی خصوصیات ہیں۔ 
اس وقت یہ دوسرا مرحلہ چل رہا ہے جس میں وہ حالت رفع میں آسمان کے اوپر ہیں ۔ اور ان کا تیسرا مرحلہ ابھی نزول کے بعد باقی ہے ۔اس کے واقع ہونے کا  وقت اور نشانی یہ ہے کہ اس مرحلے میں تمام اہل کتاب دائرہ اسلام میں داخل ہوں گے۔ 
جب وہ نازل ہوں گے تو وہ خاتم الشرائع کی خدمت کریں گے ۔ حضور علیہ السلام کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کریں گے اور اسی  کی دعوت وتبلیغ بھی دیں گے اور پھر دنیا میں ملت اسلام کے علاوہ باقی کوئی ملت باقی نہ رہے گی۔تو یہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا مقصد۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا واتبعونی۔وہ قیامت کی علامات میں سے ہیں ۔تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کا رفع اور ان کے نزول سے روشن مستقل  وابستہ ہے ۔اس لئے  اس مسئلے  کو اہل ِ علم  اور عام مسلمانوں کو اہتمام سے سمجھنا چاہئے ، بیان کرنا چاہئے اور باقاعدہ اس کی تبلیغ کرنی چاہئے۔
قرآن حکیم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کے ان تمام مراحل کو بڑے اہتمام سے بیان فرمایا ہے۔اور یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت ہے۔پوری امت مسلمہ کا یہ عقیدہ، قرآنی خبر ،قرآن کریم کی اخبار اور احادیث نبویہ صحیحہ ان کے خبر کے مطابق ہے کہ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور ان کی ماں طاہرہ تھیں ۔عفیفہ تھیں ۔تقیہ تھیں۔اور وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے۔ اور وہ اللہ کے بابرکت ہیں جہاں بھی ہیں۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو یہودیوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ہم  نے اسے سولی پر چڑھاکر قتل کردیا ہے ۔قرآن کریم نے اس کی بھی تردید کی  کہ  وما قتلوہ وما صلبوہ  ۔ اور جملہ مفسرین مسلمین یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان  کی طرف اٹھالیا ہے ۔اور بغیر شبک وشبہ وہ دوبارہ اتریں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھاکر ان کے نزول کا بتایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں مختلف گروہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فاختلف الاحزاب من بینہم  ۔ انسانی گروہ ان کے متعلق آپس میں مختلف ہیں ۔ایک گروہ یہود کا ہے جو  معاذ اللہ  ان کی ولادت پر شک کرتاہے اور ان کی والدہ پر تہمت لگاتاہے ۔ اور پھر یہ سمجھتاہے کہ انہوں نے اسے قتل کردیا ہے
اور دوسرا گروہ جو ہے وہ  نصاری کا ہے ۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں  بہت سارے عقیدے رکھتے ہیں ۔ جن میں سے بعض بالکل درست ہیں اور بعض بالکل غلط ہیں ۔ مثلا : حضرت عیسیٰ کے بارے میں ان کی بغیر باپ کے پیدا ہونا ۔اس میں اسلام اور عیسائیت کا اتفاق ہے ۔پھر یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ  السلام  آسمان سے اتریں گے ۔ اس میں بھی اتفاق ہے ۔مگر یہ کہ وہ ابن اللہ ہیں۔ اور وہ تین میں سے تیسرے ہیں ۔ یہ غلط ہیں۔
جب عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے تو ایک منصف اور عادل حکمران کی صورت میں اتریں گے اور دنیا کو خوش حالی اور امن سے بھردیں گے ۔جبکہ یہ دنیا فتنے اور فساد اور ظلم اور طغیانی سے بھری ہوگی۔
آج میں یہ سمجھتاہوں کہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر اہل فکر ونظر وہ یہودی ہوں یا لبرل لوگ ہوں ، یا مغربی تہذیب کے دلدادہ۔ وہ اس مسئلے کو اس لئے قبول نہیں کرتے کہ وہ مسلمان امت کے خیر نہیں چاہتے ۔یہی اصل فلسفہ ہے۔ اس مسئلے پر اس لئے زور دیتے ہیں کہ اس کے مسلمانوں میں عام ہونے سے  مایوسی اور بشریت  سے یہ جو ایک ناامیدی ہے اس دنیا میں کیونکہ ظالم اور اہل  طاقت اور قوت انہوں نے کمزروں کو بالکل یرغمال بنارکھا ہے اور دنیا ان کی فتنوں کی آماجگاہ بن چکی ہے ۔
میں سمجھتاہوں کہ مسلم امت کی سیاسی خدمت اور ان کے اندر کا سکون ان عقائد کے اندر اللہ نے رکھا ہے جو اسلام کے ہیں اور جو حق ہیں اور ان میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع ونزول کا عقیدہ ہے ۔ 
 

شیئر: