Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قدرتی وسائل کا اِسراف کب تک

   عزیز بلگامی ۔بنگلور
ہمارا دورایک طرف، Productivityکے سارے رکارڈ توڑ چکا ہے ،وہیں دوسری طرف اِسراف و فضول خرچی کی بلندیاں سر کرتا جا رہا ہے۔فضول خرچی اور اسراف کے معاملے میں اِنسانوں کاکوئی طبقہ ایسا نہیں بچا   جو اسراف کے اِس’’کار ِخیر ‘‘ میں ملوث نہ ہو۔کیا دیندار کیا دُنیا دار، سب کے سب اِس منحوس فیشن کے دلدادہ بنے ہوئے ہیں۔ پلیٹ پونچھ کر کھانے کی تلقین کرنیوالے تک پانی کے اسراف کی عظیم مثالیں قائم کرتے ہیں۔کن کن مدوں میں اسرا ف کا عمل جاری ہے، یہ ایک ایسا پینڈوراز  باکس ہے کہ اگر اسے کھول دیا جائے تو اسراف کی داستانو ں کا کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے  اس لئے ہم اِس گفتگو کو محدور رکھنا چاہتے ہیں اور صرف ایک یا 2 مثالوں کے ذریعہ بتانا چاہتے ہیں کہ اِس وقت انسانوں نے اسراف کی کیسی خطرناک روش اختیار کر رکھی ہے۔ 
مثلاًپانی اور بجلی کے سلسلے میں اسراف کی کیا صورتحال ہے اِس کا اندازہ کرکٹ کے کھیل میں استعمال ہونیوالے پانی اور بجلی کی اُن تفصیلات سے لگایا جاسکتا ہے جو اِس وقت اخبارات اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہمارے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں۔ اِن تفصیلات کو آٹے میں نمک کے برابر تصور کیا جانا چاہیے ورنہ کن کن میدانوں میں کس کس قسم کی فضول خرچیا ں جاری ہیں، اِس کا علم تو اللہ ہی کو ہے    جس نے اِنسانوں کو یہ نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اِمسال  ہند میںجو آئی پی یل میچز کھیلے گئے یا ہر سال کھیلے جارہے ہیں اور جن کھیل کے میدانوں میں کھیلے گئے اُن کو کھیل کے قابل رکھنے کیلئے تقریباً8 کروڑ لیٹر پانی استعمال کیا گیا جبکہ ابھی بارش شروع بھی نہیں ہوئی تھی  اوریہ سلسلہ تب سے جاری ہے جب سے یہ میچز شروع ہوئے ہیں چنانچہ ہر سال اِسی مقدار میں کرکٹ کے میدانوں کے مینٹی ننس  کیلئے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اِسی طرح بجلی کے اسراف کا یہ عالم ہے کہ آج دن اور رات کا تصور ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ کھیل کے میدانوں پرکھیلوں سے لطف اندوز ہونیوالے ناظرین گواہی دیںگے کہ پورے ماحول کو کس طرح روشنی سے نہلا دیا جاتا ہے جیسے رات نہیں دن کا منظر ہو۔اِن میدانوں میں رات پر دن کا گمان ہونے لگتا ہے۔یہاں تک کہ صبح7 بجے جب سورج کی حقیقی روشنی پھیل جاتی ہے تودُنیا کا بیشتر حصہ نیند کی آغوش میں رہتا ہے اور جب رات آتی ہے تو ہمارے مال(Mall )، سنیما، شاپنگ پلازاز رات11 بارہ  بجے تک کھلے رہتے ہیں۔رمضان میں تو مسلم محلوں کا گویا د ن نکل آتا ہے ۔ شاید یہ مہینہ عبادت کا نہ  ہوکر رات بھی گھومنے پھرنے ،کھانے پینے اور شاپنگ کیلئے ہی مخصوص ہو۔یہ عیاشیاں صرف امیر ملکوں تک محدود نہیں رہ گئیں بلکہ غریب ممالک کی عیاشیاں بھی امیر ملکوں کو مات دینے پر تلی ہوئی ہیں۔
کسی کھیل کے میدان کو چاق و چوبند رکھنے کیلئے پانی کے مناسب و معتدل استعمال کے نام پرکس طرح اللہ تعالیٰ کی اِس نعمت کا اسراف کیا جاتا ہے، یہ دیکھنے کی چیز ہے۔مثلاًمیدان کی سطح پر گھانس کی پرت کی آبیاری پر کس قدر پانی خرچ ہوتا ہے؟ یہ دراصل انحصار کرتا ہے اِس بات پر کہ گھانس کی کونسی قسم میدان پر اُگائی جاتی ہے  اور کون سے موسم میں اِسے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ؟جس نوع کے پانی کے ٹینکس اس مقصد کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں اُن میں عموماً 50 ہزار لیٹر  پانی سماتا ہے  اور یہ اِس طرح کے میدانوں کی آبیاری کیلئے کافی نہیں ہوتا۔ ایک معیاری کرکٹ یا فٹ بال گراؤنڈ پرفی Application ، کم سے کم80 ہزار تا ایک لاکھ لیٹر پانی درکار ہوتا ہے اور اندازاً 2 تا 3 اپلیکیشن کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی  ایک لاکھ60 ہزار لیٹر تا 3 لاکھ لیٹر فی ہفتہ پانی خرچ کیا جاتا ہے  تاکہ میدان کے تخریب شدہ حصوں کی مرمت ہو سکے۔ پھر پانی کی مقدار کا دارومدار موسم پر بھی ہوتا ہے۔اگر گرم ہوائوں کا موسم ہو تو زیادہ پانی درکار ہوتا ہے اور سرد ہوائیں چل رہی ہوں تو کم پانی خرچ ہوتا ہے۔معیاری فٹ بال گراؤنڈ کم از کم 50 ہزار لیٹر فی اپلیکیشن کا تقاضا کرتا ہے  اور اِسے اندازاً  فی ہفتہ3 اپلیکیشن کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ایک پچ کو صحت مند اور اچھی حالت میں رکھنے کیلئے ایک لاکھ50 ہزار لیٹر فی ہفتہ پانی کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ ایک مناسب سائز کی ٹینک ضروری Pumpingکے ساز و سامان کے ساتھ50 ہزار ڈالر تا 70 ہزار ڈالر قیمت والی ہوتی ہے  یعنی خرچ صرف پانی پر نہیں ہوتا بلکہ اُن Equipmentsپرخاصا خرچ آتا ہے  جنہیںآبیاری کے مراحل میں استعمال کیا جاتا ہے۔
باضمیر لوگ اب خود اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ کھیل کاراتوں میں کھیلا جانا کسی بھی پہلو سے انسانیت کے مفاد میں ہے؟ جہاںFlood Lights کے استعمال کے بغیر رات کا یہ کھیل ممکن نہیں ہوتا ؟خصوصیت کیساتھ آئی پی یل کرکٹ مقابلوں کے پس منظر میں یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ زیادہ تر رات میں ہی کھیلے جاتے ہیں اور ظاہر ہے اِس کیلئے لائٹ کا جو انتظام کیا جاتا ہے اُس پر سینکڑوں کلو واٹ بجلی صرف کی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا رات کو کھیلنا اس قدر ضروری ہوگیا ہے کہ اس پر خرچ ہونیوالی بجلی کی انرجی کا کوئی لحاظ ہی نہ کیا جائے جبکہ نہ صرف دیہی بلکہ کئی شہری علاقے آج بھی ایسے ہیں جہاں لوگ روشنی کو ترستے رہتے ہیںاورلوڈ شیڈنگ کے نام پر پورے شہر کو اندھیروں کے حوالے کر دیا جاتاہے۔!!۔ایک اخلاقی سوال یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ ایسے وقت میں جبکہ شہری لوگ، انرجی اور بجلی کے مآخذوں کو بچانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔کیا ، وقت نہیں آیا کہ کھیل کے ارباب ِاقتدار بھی رات کے اِن بے مصرف کھیلوں کے انعقاد سے انکار کر دیں؟آخر اِن لوگوں کے بجلی کا منبع اپنے اسٹیڈیم کیلئے کہاں سے دستیاب ہوتا ہے؟کیایہ عوامی گرڈ (Grid  )یا کارپوریشن سے مہیا نہیںکیا جاتا ؟ اگر جواب ہاں!ہے تو پھر اس کی قیمت کا حساب کتاب کیا ہے؟ اگر نہیں ! اور یہ خود اسٹیڈیم کے جنریٹرز سے فراہم کیا جارہا ہے تو اس کے ایندھن کا  منبع کیا ہے اور اس کی قیمت کس طرح متعین کی جاتی ہے؟ یہ سوالات منہ پھاڑے اربابِ اِقتدار سے جواب طلب کرتے ہیں۔
رہی اُن ممالک کی بات جنہیںمسلم ممالک کہا جاتا ہے ، وہ بھی اسراف کی اِس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔ وہ بھی اب اِن سب سے آگے نکل جانے کے درپے نظرآتے ہیں۔یہ اُسی مسلم اُمت کے لوگ ہیںجن کے مالک  نے اپنے پاک کلام میں اِنہیں تاکید فرما دی تھی کہ:
’’پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔‘‘(التکاثر8)۔ 
یہاں تک کہ فضول خرچی کو ’’شیطانی عمل‘‘ قرار دیا گیاجیسا کہ  بنی اسرائیل،آیت27,26 میں یہ الفاظ ملتے ہیں: 
’’رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو ، اورفضول خرچی نہ کرو،فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے۔‘‘ 
سورۃالاعراف،آیت31  میں کہا گیا ہے:
’’اے بنی آدم !ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو،جائو اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘  
آیت مبارکہ میں’’ حد سے تجاوز کرنا‘‘آخر کیا ہے ؟ فضول خرچی ہی تو ہے جو ہماری عبادگا ہوںمیں دن اور رات جاری ہے پانی کے اسراف کی شکل میں یا بجلی کے اسراف کی شکل میں۔مساجد کی زینت کے نام پر اِس کی تعمیر اور آرائش و زیبائش میں بغرضِ ثوابِ جاریہ دولت مندوں کی جو دولت لگتی ہے اِس پر اگر ’’حد سے تجاوز کرنے‘‘ کی بات کا انطباق نہیں ہوتا   تو پھرہمیں کوئی اللہ کا بندہ اِس آیت کی تشریح کر کے ہمیں مطمئن کر دے ، ہم اس کے شکر گزار ہوں گے۔
جہاں تک پانی کے اسراف کی بات ہے توپانی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، اِس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔عجیب بات ہے کہ جو شئے انسانی زندگی کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ، ہم انسان اْسی نعمت کا اسراف بہت زیادہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں  جیسا کہ پانی جو وافر مقدار میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ایک نعمت ہے،اور اِسی پانی کو بے دریغ خرچ کیا جانا اِنسانوں کا عام طرز عمل رہا ہے بلکہ اِن کی فطرت سی بن گئی ہے ۔
مگر افسوس کہ ہم آج اس عظیم نعمت کی بے قدری کرتے کبھی نہیں جھجکتے  اور اس کو بڑے پیمانے پر ضائع کرتے رہتے ہیں۔ اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے، جیسا کہ آج کل یہ بات عام ہوتی جارہی کہ ہم بوتل میں منرل پانی کو خرید کر پینے لگے ہیں  تو ایسا پانی ہم کس قدر سنبھال کر استعمال کرتے ہیں اور اس کا بے جا اسراف برداشت نہیں کرتے۔پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم بلاقیمت ملنے والے پانی کی اسقدر بے حرمتی کرتے ہیں؟ اصل میں ہم لوگ مزاجاً مفت کی نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ اگر یہی نعمت ہمیں روپے پیسے خرچ کرکے حاصل کرنی پڑے تو ہم کسی قیمت اس کو ضائع کرنا پسند نہیں کریں گے جس کو حشر کے دن پر یقین ہے ،وہ کبھی اِس عظیم نعمت کا اسراف ہرگز برداشت نہیں کرے گا ۔ سورۂ تکاثرآیت 8میںاللہ کا ارشاد ہے :
’’ پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اُس دن اِن نعمتوں کے بارے میں۔‘‘ 
چاہے پھر وہ چھوٹی سے چھوٹی یا بڑی سے بڑی نعمت ہی کیوں نہ ہو۔
قدرتی نعمتوںکو ہی دیکھئے۔اِن میں سے ہمیں کسی نعمت پر بھی کیش ادا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی  بلکہ ہمارا ربِّ کریم تو اپنے فضل وکرم کو انسانوں پر نچھاور کر تا رہتا ہے اور اپنے فیض ِ بے پایاں کے تحت اِن نعمتوں کی سپلائی جاری رکھتا ہے ۔یہ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ ہم ان نعمتوں کو کبھی اہمیت دیتے ہی نہیں اور انہیں بہت معمولی سی ، عام سی شئے سمجھتے رہتے ہیں بلکہ کبھی تو اِن کی طرف دھیان تک نہیں جاتا،مثلاً ہم میں سے ہر فرد روزانہ جس قدر آکسیجن استعمال کرتا ہے،اُس کی مقدار 3 سلینڈر کے برابر ہوتی ہے اور اِس کی قیمت 3 ہزار 500 روپے سے زائد بنتی ہے،یعنی سالانہ ہر فرد پر تقریباً16لاکھ روپے کی آکسیجن اپنی بقاکیلئے استعمال کرتا ہے۔ سوچئے  اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا نہ ہوتی اورقیمت کے عوض فروخت ہوتی تویہ دنیا دولت مند ترین لوگوں کے بھی کسی کام کی نہ ہوتی۔تفصیل کی ضرورت نہیں، عقل  مند لوگ اِس کے مزید عواقب پر خود غور کرکے متوقع صورتحال کا ادراک کر سکتے ہیں جس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اُس نے نہ صرف انسانوں کو بلکہ ہر ذی روح کی آکسیجن کا انتظام کر دیا ہے۔ہم میں سے کتنوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم تر احسان یاد آتا ہے کہ بے ساختہ سر اُس کی بارگاہ میں بار ِتشکر سے جھک جائیں…!! ۔
پانی کے اسراف کی ممانعت میں احادیث بھی موجود ہیں، مثلاًسیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہواجبکہ وہ وضو فرمارہے تھے۔آپ نے (پانی کے اسراف کو دیکھ کر )عرض کیا:
’’ اے سعدؓ! یہ کیا اسراف ہے (یہ کیسی زیادتی ہے)؟ ۔‘‘
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف (کا اندیشہ )ہے؟  اِس پرآپنے فرمایا:
’’ ہاں! اگرچہ تم بہنے والی نہر پرہی (کیوں نہ بیٹھے وضو کر رہے) ہو۔‘‘(مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)۔
اِسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہنے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا :
’’اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔‘‘(سنن ابن ماجہ ، باب: وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت)۔
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے ، چاہے وضو دریا کے کنارے پر ہی کیوں نہ بیٹھ کرکیا جائے مگر افسوس کہ ہم اللہ کی عبادت کی ابتداء پانی کے اسراف سے کرتے ہیں اور اِس کا مظہر ہے وضوکے دوران پانی کا بے تحاشا استعمال۔ہماری مساجد سے وضو کے نام پر جو پانی بہتا ہے ، اُس سے ہماری قوم کے ذوقِ اسراف کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ۔کیا ہم وضو کے دوران اپنے ہاتھ ، چہرہ ، پائوں کو دھوتے وقت پانی کی ٹوٹی کو حسب ضرورت بند و جاری نہیں رکھ سکتے؟غسل کے وقت بھی جب جسم پر صابن لگایا جاتا ہے، تب بھی نل کو کھُلا رکھنے کی عادت عالمگیر ہے۔پھر یہ’’ شاوَر‘‘ کیا ہے، جو آج کل ہر باتھ رُوم کی تعمیر کا لازمی حصہ ہے۔ یہ پانی کی اسراف کا موثر ہتھیار ہی تو ہے اوریہ بیت الخلائوں میں پانی سے فلش کرنے کا جوجدید سسٹم ہے وہ نہ جانے کتنا پانی ہماری Over Tankسے بہا لے جاتا ہے ۔!گھروں میں خواتین بھی پانی کو ضائع کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔برتن دھوتے وقت پانی کا اسراف عام ہے۔ہماری جدید واشنگ مشینیں بھی پانی کے اسراف کی زبردست معاون ثابت ہوئی ہیں۔2عددکپڑے بھی دھونے ہوںتواِن مشینوں کو کئی بکیٹ پانی کی ضرورت پڑ تی ہے ورنہ مشینیں کام کرنا بند کردیتی ہیں۔گھر کی صفائی کے وقت بھی پانی بے تحاشہ بہادیا جاتا ہے۔پانی کا یہ اجتماعی زیاں آج ہر قوم کا خاصّہ ہے۔یہ تواسراف کی صرف 2 ایک مثالیں ہیں ، پتہ نہیں حضرتِ اِنسان کہاں کہاں اپنی خر مستیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اِن موضوعات پر ہمارے قلمکار قلم اُٹھائیں اور بتائیں کہ کیسے ، کہاں اور کس شئے کااسراف ہو رہا ہے اور اس کا تدارک کیسے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نعمتوں کی ناقدری کرنے اور اسکو ضائع کرنے سے ہمیں بچائے۔آمین۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ یومِ آخرت پر سے ہمارا ایمان ہی اُٹھ گیا ہے؟ خدا نہ کرے۔!
کوئی ہے ہمارے در د کو محسوس کرنے والا ؟ ۔
کوئی ہے جسے فی الواقع آخرت کی فکر دامن گیر رہتی ہے؟۔
کوئی ہے جسے کبھی پانی پربھی رحم آتا ہو؟ ۔
 

شیئر: