Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکان کو گھر بنانے میں مصروف ہونا ہی پڑتا ہے ، فرح عقیل

 
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
عورت ماں، بہن، بیٹی ، بیوی ہر روپ میں قدرت کا انمول تحفہ اور قابل احترام ہستی ہے یعنی عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے ، بیٹی ہے تو رحمت ، بیوی ہے تو دکھ سکھ کی ساتھی، بہن ہے تو گھر کی رونق۔ غرض عورت کا ہر رنگ خوبصورت اور باعث اطمینان ہے۔ شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ قوموں کی عزت ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں سے ہے۔
قدرت نے عورت کی جبلت میں صبر وتحمل ، محبت اور تسلیم و رضا جیسی انمول صفات وافر مقدار میں رکھی ہیں۔ اس لئے آئندہ نسلوں کی پرورش کا ذمہ اور گھر کا انتظام و انصرام بھی قدرت نے عورت کو ہی تفویض کیا ہے۔صنف نازک کے بغیر خاندان کا تصور ازل تا ابد نامکمل ہے۔ تاریخ انسانی عورت کے لافانی کردار کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتی رہی ہے جہاں عورت ہمیشہ معاشرے کا ایک لازمی جزورہی ہے اور امور خانہ داری سے لے کر مسند اقتدار تک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی رہی ہے ۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ :
” وجود زن سے ہے تصورِ کائنات میں رنگ“
یعنی کائنات میں رنگ و نور عورت کی ہی ذات سے ہے۔ اسی کے دم سے دنیا کی خوبصورتی دکھائی دیتی ہے۔ عورت اپنے رشتے کی زیب و زینت پر بہت توجہ دیتی ہے جس سے اس کے گھر کی چہار دیواری خودبخود چمکنے لگتی ہے۔ اس کا آنگن خوشیوں سے مہکنے لگتا ہے ۔
رواں ہفتے ہوا کے دوش پر اردو نیوز کی مہمان ایک ایسی ہستی ہیں جن کی ہمہ جہت و ہمہ صفت شخصیت نے کافی متاثر کیا۔ جب ان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میری سہیلی کی بیٹی بہت بیمار ہے ۔ میں اس کی عیادت کیلئے جارہی ہوں۔ واپسی پر انٹرویو دوں گی ۔اس جواب سے یہ بات توثابت ہو گئی کہ وہ نہ صرف نرم دل ہیں بلکہ دوسروں کا خیال کرنا بھی ان کی فطرت میں شامل ہے۔ وہ نہ صرف دھیمے مزاج کی خوش گفتار خاتون ہیں بلکہ انہیں مہمان نوازی بھی خوب آتی ہے۔ آپ کی ملاقات فرح عقیل سے کراتے ہیں جو اردو نیوز میں ہماری آج کی مہمان ہیں۔ محترمہ فرح عقیل کا تعلق لاہور سے ہے جو پاکستان کا دل کہلاتا ہے۔فرح عقیل کہتی ہیں کہ:
” میں نے لاہور میں آنکھ کھولی مگر والد محترم کاروبار کے سلسلے میں کراچی منتقل ہوگئے۔ وہیں پرورش پائی۔ کراچی سے اسکولنگ ہوئی، شادی بھی کراچی میں ہی ہوئی پھر سعودی عرب آگئی۔ ویسے بھی بیٹی کیلئے والدین کا آنگن اس کا عارضی مسکن ہوتا ہے۔ اسے ایک نہ ایک دن والدین کے آنگن کو چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔ بحیثیت عورت ،نئے رشتے و ذمہ داریوں کو اپناکر کسی کے پتھر اور اینٹ سے بنے مکان کو گھر بنانے میں خود کو مصروف کرنا پڑتا ہے ۔ دنیا کا دستور ہے اور وہ اپنے بچپن کی تمام یادوں کو سینت سینت کر رکھتی ہے۔ 
اسے بھی پڑھئے:ازدواجی زندگی میں امید و یاس ساتھ چلتے ہیں،ڈاکٹر بلقیس
ہم پانچ بہن بھائی ہیں، میرا نمبر سب سے آخری ہے یعنی میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی ہوں۔ والد محترم کاروباری شخصیت تھے۔ میں اپنے والد کی بھی بہت لاڈلی تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میرے والد محترم کو غریق رحمت فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
یہ حقیقت ہے کہ سبھی والدین اولاد کی پرورش بہت ہی پیار محبت سے کرتے ہیں۔ میرے والدین نے بھی میری پرورش میں کوئی کسر اٹھا نہیںرکھی تھی۔ فرح عقیل نے بتایا کہ ان کی ارینجڈ میرج تھی۔ شوہر عقیل احمد قریشی والدہ کے چچازاد ہیں۔ الحمدللہ، زندگی بہت پرسکون اور خوشگوار گزر رہی ہے۔ کھٹی میٹھی تو سب جگہ چلتی ہے۔
شوہر روزگار کے سلسلے میں 1978ءمیں سعودی عرب آئے تھے پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ گورنمنٹ کے مختلف اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے تعلیمی کریئر کی تکمیل لاہور سے کی۔ 
فرح عقیل کہتی ہیں کہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ وہ تھا جب میں ماں بنی۔ میرے خیال میں ہر عورت کی زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ وہی ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب عورت کو اپنے مکمل ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اللہ کریم نے مجھے اولاد کی شکل میں تین پھول عطا فرمائے۔ بیٹے راحیل عقیل ، سعد عقیل اور بیٹی سبین عقیل۔ تینوں کی پرورش اور تربیت پر ہم دونوں میاں بیوی نے مل کر بھرپور توجہ دی۔ بڑے بیٹے نے لاہور یونیورسٹی سے میکنیکل انجینیئرنگ کی۔ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ دوسرے بیٹے سعد نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ۔ وہ بھی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں فرائض انجام دے رہا ہے۔ بیٹی نے بی ایس سی کیا، وہ اپنے شوہر کے ساتھ دبئی میں رہائش پذیر ہے۔ ہم اور ہمارے دونوں بیٹے ماشاءاللہ اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ ایک ساتھ رہتے ہیں یا یوں کہئے کہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ 
میں اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیںیکے بعد دیگرے تینوں بچوں کے فرض سے سبکدوش فرما دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیارے پیارے پوتے اور پوتیوں سے نوازا اور ایک پیاری سی گڑیا کے نانا، نانی بنایا تو وہ ہماری زندگی کے ایسے خوشی کے لمحات تھے کہ جن کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ویسے بھی کہتے ہیں کہ اولاد کی اولاد زیادہ پیاری ہوتی ہے۔میں شکر ادا کرتی ہوں، الحمدللہ ، ہم تین پیارے پیارے بچوں کے دادا، دادی ہیں۔ بڑے بیٹے راحیل کے دو بچے، ایک بیٹا حذیفہ اور ایک چاند سی بیٹی عروہ ہے جبکہ چھوٹے بیٹے سعد کا ایک بیٹا امین سعد ہے۔ بیٹی سبین کی ایک ہی گڑیا ہے جس کا نام رفحاءرکھا گیاہے۔
ماشاءاللہ، ہماری دونوں بہوئیں اریشہ راحیل اور حنا سعد میرے دل کا سکون ہیں۔ ان کے بغیر زندگی نامکمل ہے۔یوں کہنا چاہئے کہ گھر کی رونق تو یہی بہوئیں ہوتی ہیںکیونکہ وہ بیٹی بن کرہی گھر میں آتی ہیں۔ آپ کی عزت و احترام والدین کی طرح کرتی ہیں اور ایسے بیٹے بھی نصیب والوں کو ہی ملتے ہیں۔ 
اللہ رب العزت نے ایک داماد عطا فرمایا جو بالکل بیٹوں کی طرح ہے ۔ مجھے داماد او ربہو لفظ کہنا کچھ خاص پسند نہیں۔ اس لئے ہمیشہ کہتی ہوں کہ ما شاءاللہ، میرے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اللہ کریم سے ہمیشہ یہی دعا ہے کہ میرے آنگن کو اسی طرح ہنستا بستا رکھے اور زندگی کی بہاریں اسی طرح آنگن میں خوشیوں کے ساتھ برستی رہیں، آمین ۔
فرح عقیل کہتی ہیں کہ رشتے بہت قیمتی ہوتے ہیں، جس قدر ممکن ہوان کی قدر کرنی چاہئے۔ مل جل کر درگزر سے کام لیناچاہئے۔ رشتوں کو نبھانے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ خونی رشتے کبھی نہ تو چھوڑے جاسکتے ہیں نہ ہی یہ کبھی ٹوٹتے ہیں۔ ان رشتوں کی عدم موجودگی سے انسان اندر سے کھوکھلا ہوجاتا ہے لہٰذا غفلت اور لاپروائی سے ہی ان رشتوں میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور خبر تک نہیں ہوتی۔ 
سسرال سے میرے تعلقات عام لوگوں کی نسبت ذرا مختلف تھے،انتہائی خوشگوار، محبت بھرے ۔ اگر رشتے میں ایک دوسرے کیلئے احترام و ادب ، لحاظ ، مروت اور محبت ہو تو پھر تعلقات تو خود بخود خوشگوار ہوہی جاتے ہیں۔ ساس سے میرے بہت ہی اچھے تعلقات تھے، دونوں کے درمیان ساس بہو کا نہیں، ماں بیٹی کا رشتہ احساسات پر حاوی تھا۔ ہم دونوں میں بہت دوستی اور انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ میں ہر معاملے میں ساس سے مشورہ لیتی تھی۔ ان کی رائے کو اہمیت دیتی تھی۔ انہوں نے مجھے کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ میری ساس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کیلئے ساس کا لفظ استعمال کرتے ہوئے مجھے اچھا محسوس نہیں ہوتا۔ وہ میری ماں تھیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ،آمین۔میں نے ان سے زندگی گزارنے کے بہت سے گُر سیکھے، مثلاً باتوں کو درگزر کرنا، ان کی خاص عادت تھی۔ سب سے بڑی خوبی ان کی یہ تھی کہ وہ محبت لٹانے والی اور دوسروں کا خیال رکھنے والی ہستی تھیں۔ 
فرح عقیل کہتی ہیں کہ رخصتی سے دو سال قبل ہمارا نکاح ہوا تھا لہٰذا مملکت آنے کیلئے کاغذات کی تکمیل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ سعودی عرب میرا دوسرا گھر ہے۔ یہ تو انسانی فطرت میں شامل ہے کہ جہاں وہ اتنے عرصے رہتا ہے، اس مقام سے ، وہاں کے ماحول سے ، اس کے درودیوار سے اسے انسیت ہوجاتی ہے۔ اب ہمیں بھی اس ملک سے بہت انسیت ہوچکی ہے۔ اس محبت و عقیدت کی سب سے اولین وجہ حرمین شریفین ہیں ، یہاں رہتے ہوئے جب دل چاہا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حاضر ہوگئے ۔ اس سے بڑھ کر خوش قسمتی اورکیا ہوسکتی ہے؟ 
محترمہ فرح عقیل نے کہا کہ میں نے زندگی کی 34بہاریں دیکھ لی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نشیب و فراز تو زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اچھے لمحات بہت ہی دبے پاﺅں گزر جاتے ہیں مگر مشکل اور کڑا وقت انسان کو بہت کچھ سکھاکر اور سبق دے کر جاتا ہے۔ ہم پر بھی پردیس میں برا وقت آیا مگرمیں اسے اپنے اور اپنی فیملی کیلئے اللہ کریم کی رحمت سمجھتی ہوں کیونکہ جو کچھ حاصل کرنے کیلئے مجھے بہت محنت کرنی پڑتی وہ اس کڑے وقت نے ہی مجھے سکھایا۔اس وقت نے ہم دونوں میاں بیوی کوایک دوسرے کے لئے دلی طور پرمزید قریب کردیا۔ ایک دوسرے کی قدر کرنا سکھا دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شکر کرنے والا انسان بنا دیا۔ نیچے دیکھنا اور صبر کرنا سکھادیا۔ یہ بھی باور کرا دیا کہ ہم بلا شبہ بہت سارے لوگوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بھی اللہ کریم کی مہربانی اور کرم ہے کہ ہم زندگی سے لڑنا سیکھ گئے۔ پھر ہمیں اپنے اورپرائے کی پہچان ہوگئی۔ الحمدللہ، اردگرد بے شمار لوگ تھے جو بہت ہی اچھے تھے، خصوصاً بہن، بھائی اور قریبی رشتہ دار جو ہماری اخلاقی حمایت کرتے تھے۔ اس لئے اس وقت کا میں بہت اچھے اور شکر کے انداز میں ذکر کرتی ہوں۔فرح عقیل مسکراتے ہوئے کہنے لگیں کہ الحمدللہ ، اب تو ہم میاں بیوی اپنے پوتے اور پوتیوں کے ساتھ وقت کو انجوائے کررہے ہیں۔ تعلقات بہت اچھے ہیں۔ بس ایک چھوٹا سا اختلاف رہتا ہے کہ میرے شوہر عقیل صاحب اچھے خاصے سوشل ہیں ، میں اتنی سوشل نہیں ہوں۔ دونوں کا اس بات کے سوا کوئی بڑا ایشو نہیں۔ اللہ کریم کے فضل و کرم سے پرسکون زندگی گزر رہی ہے۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ ذہنی ہم آہنگی نے بدلتے حالات کے مطابق ڈھلنے میں معاونت کی ہے۔ 
عقیل صاحب کو موسیقی سے بہت دلچسپی ہے لہٰذا وہ اکثر اسکا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ دوستوں میں خاصے مقبول بھی ہیں۔ فرح عقیل اور عقیل احمد نے اردو نیوز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم دونوں میاں بیوی اردو نیوز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ عقیل احمد نے کہا کہ میں اردو نیوز کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہمیں بھی اس اخبار کا مہمان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔ جب فرح عقیل سے ادب پر بات ہوئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جب میں کالج میں تھی تو شعرو شاعری سے کافی دلچسپی تھی۔ اب بھی مطالعے کا شوق تو ہے ، کوئی اچھی کتاب ہاتھ لگ جاتی ہے تو اسے ضرور پڑھ لیتی ہوں۔ ویسے مجھے شاعروں میں فیض احمد فیض، پروین شاکر اور علامہ اقبال کے کلام بہت پسند ہیں۔ پروین شاکر کی غزل اردو نیوز کے قارئین کی نذر کرنا چاہوں گی:
عکسِ خوشبوہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاﺅں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب مرے ہوگئے ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ، کوئی آواز ،کوئی چاپ نہیں
دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی
 
 

شیئر: