Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لکھنئو:’’مجلس علم و ادب‘‘ میں عالم نقوی کے ’’عذابِ دانش‘‘ پر مذاکرہ

عفیف سراج ۔لکھنئو
مجلس علم و ادب کے زیر اہتمام نامور صحافی عالم نقوی کے مضامین پر مشتمل کتاب "عذاب دانش" پر ادارے کے صدر دفتر ملت نگر کالونی، مہدی گنج لکھنئو میں ایک مذاکرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت اردو کے مشہور ناقد، ادیب اور دانشور پروفیسر شارب ردولوی نے کی۔ ماہر تعلیم اور شہرہ آفاق ناول نگار پروفیسر مجاور حسین المعروف بہ ابن سعید بطور مہمان خصوصی جلسے میں رونق افروز رہے۔ مشہور دانشور، سیاسی لیڈر اور سابق گورنر صوبہ جھارکھنڈ اور آسام، سید سبط رضی کے علاوہ معروف سماجی شخصیت اور ریاست اترپردیش میں اردو زبان کی ترقی و ترویج میں سرگرم وقار رضوی بطور مہمانان اعزاز موجود تھے۔
جلسے کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت سید محمد تاشفین کو حاصل ہوئی ۔ سید محمد حسین ارشد اور معروف شاعر احسن اعظمی نے نعت پاک پیش کی ۔اس موقع پر شہر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ماہرین نے ’’عذاب دانش‘‘ پر اپنے تاثرات پیش کئے۔ معروف شاعر و ادیب حسین تاج رضوی نے نظامت کے فرائض بہ حسن وخوبی انجام دیئے۔ معروف قلم کار و شاعر انور جمال انور نے اس تقریب کی مناسبت سے عالم نقوی کے لئے ایک تہنیتی نظم روانہ کی۔نمونہ کلام حاضر : 
٭٭ انور جمال انور:
دوسروں کے غم کو سمجھے اپنا غم
 اور خوشی میں بھی ہر اک کے ہو بہم
ایچ ایم یٰسین نے اپنے پر مغز مگر مختصر مقالے میں جامع طور پر عذاب دانش کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ عذاب دانش حقیقت پسندی اور بیباک صحافت کی عمدہ مثال ہے، انہوں نے کہا کہ عذاب دانش اسی کو زیادہ ہوتا ہے جو جتنا دانشور ہوتاہے۔ ملک و قوم کی فکرکے عذاب کو عالم نقوی نے اپنی کتاب میں سمویا ہے۔
مشہور دانشور اور صاحب قلم جمال نصرت نے عالم نقوی کے متعدد مضامین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالم نقوی کی تحریریں روشن پیغام رکھتی ہیں اوریہ تحریریں کئی برس پرانی ہونے کے باوجود نئی معلوم ہوتی ہیں۔
افسانہ نگار، شاعرہ اور محقق ڈاکٹر فرحت نادر رضوی کی گفتگو عالم نقوی کے فکری میلانات پر مرکوز رہی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں قلم اونچی قیمتوں پر فروخت ہو رہے ہیں ،ایسے ماحول میںصحافت کی لاج بچائے رکھنا عالم نقوی جیسے جیالوں کاہی کام ہوسکتا ہے جوصحافت کو بھی انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
ماہر اقتصادیات اور مصنف سید مسعود اظہر رضوی نے اپنی مختصر مگر بلیغ اور دلکش تقریرکرتے ہوئے کہا کہ میرے اور عالم نقوی کے درمیان اتنی ذہنی اور مزاجی ہم آہنگی ہو گئی ہے کہ انکی فکر و احساس کے چشمے تک میری بآسانی رسائی ہو جاتی ہے جس کے سبب میں انکی مستقبل کی تحریروں کی بھی پیش گوئی کر سکتا ہوں۔
مجاہد سید نے اپنی پر تاثر تحریر پیش کرتے ہوئے کہا کہ عالم نقوی کے ہاں شہرہ آفاق صحافی جمیل مہدی کی رستا خیز کے باوجود دوام، قیام اور امید کی چمک ہے۔ انہوں نے گستاخ اوردشمن تہذیب پر جو ضرب کلیمی لگائی ہے، اس کی بازگشت ہمیں زمانہ دراز تک صداقت کی سربلندی کے لئے جہد مسلسل پر آمادہ رکھے گی۔
معروف افسانہ نگار، نقاد اورصحافی شاہ نواز قریشی نے اپنے پر لطف خاکے میں بے تکلفانہ انداز میں عالم نقوی سے نجی اور پیشہ ورانہ دونوں طرح کے تعلقات اور موصوف کی شخصیت پر پر لطف گفتگو کی۔عالم نقوی کو ناظم تقریب نے جب گفتگو کی دعوت دی تو انہوں نے مختصراً اپنے فلسفہ صحافت پر روشنی ڈالتے ہوئے صحافی ، ادیب، شاعر اور عام انسانوں کو صداقت سے ہر قیمت پر چمٹے رہنے کی نصیحت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ زمانے کو بدلنے کی کوشش کرنے کی بجائے اگر ہم اپنی ذات اور اپنے خاندان کو سچائی پر قائم رکھیں تو تمام قسم کے المیوں اور بحرانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ 
ناظم تقریب تاج رضوی نے مقررین کے حسب حال اشعار اور فقروں سے محفل کو ابتدا تا انتہا گرم رکھا۔مجلس علم و ادب کے روح رواں، منفرد لب و لہجے کے شاعر، مفکر ، تقریب کے مہمان اعزازی، مشہور صحافی اور لکھنئو میں اردو کی ترقی کے لئے کوشاں وقار رضوی نے اپنی تقریر میں عالم نقوی کو ایک ایسا با ضمیر صحافی قرار دیا جسے دنیا کا کوئی لالچ یا خوف خرید یا جھکا نہیں سکتا۔
مفکر، مقرر، سیاست داں سابق گورنرآسام اور جھارکھنڈ سید سبط رضی نے اپنی پہلو دار تقریر اور اپنے مخصوص لب و لہجے میں ’’عذاب دانش‘‘ کو نہ صرف مضامین کا مجموعہ گردانا بلکہ اسے نادر تحقیقی دستاویز قرار دیتے ہوئے عالم نقوی کے اس کام کے لئے انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ دیئے جانے کی وکالت کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے عالم نقوی کے عہدطفلی اور اپنے خاندانی مراسم کا گرم جوشی سے اظہار کیا۔ عالم نقوی کی شرافت نفسی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچپن میں کچھ عرصہ کے لئے میں نے انہیں کیا پڑھایا کہ وہ آج بھی اپنے خطوط اور تصنیفات میں مجھے اپنا استاذ لکھتے ہیں اور یہ عالم نقوی کے کردار کی عظمت کا ثبوت ہے۔ 
مہمان خصوصی ، ہزارہا ناولوں کے مصنف، معروف دانشور وماہر تعلیم پروفیسر سید مجاور حسین رضوی نے مختصر لیکن نہایت جامع تقریر میں عالم نقوی کا تقابل صف اول کے ہمہ جہت، مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھنے والے قلم کار کی حیثیت سے کراتے ہوئے کہا کہ عالم نقوی کی تحریر میں بیان کی رنگا رنگی اور موضوعات کا تنوع موجود ہے جوانکی تحریر میں آفاقیت پیدا کرتا ہے جو کہ کسی بھی عظیم صحافی کا طرۂ امتیاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت تخت سے تختہ دار تک کا سفر بھی ثابت ہوتی ہے۔ جسے زندگی پیاری ہو وہ اس خارزار سے دور ہی رہے لیکن عالم نقوی تو اس میدان کے سرخیل و سرگروہ ہیں۔ 
صدر محفل عالمی پائے کے نقاد، دنیائے زبان و ادب کے آفتاب، مفکر پروفیسر شارب ردولوی نے عذاب دانش کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے متعدد مضامین کا حوالہ دیتے ہوئے زبان و بیان و مواد پر تبصرہ کرتے ہوئے مختلف نکات کی نشاندہی کی۔ پروفیسر شارب ردولوی نے کہا کہ عالم نقوی نفسیات میں ایم اے ہیں جس کے سبب ان کے مضامین میں جو وضاحت و صراحت کا پہلو ہے ، وہ غیر معمولی ہے ، اسی سبب پیچیدہ سے پیچیدہ مضامین عالم نقوی کے قلم سے نکل کر ایک دل نشین تحریر کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ 
ادارے کے بانی مجاہد سید نے اختتامیہ میں حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھنئو کو اس ادبی انحطاط کے زمانے میں بھی ادبی راجدھانی قرار دیا۔ انہوں نے اس دعوے کی دلیل کے طور پر مجلس میں موجود شعرا، ادبا، محققین، صحافی، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، سیاسی و سماجی شخصیات کی محفل میں موجودگی کو پیش کیا۔ مجاہد سید نے کہا کہ اس علاقے میں اس نوعیت کا یہ پہلا جلسہ ہے۔ مشہور سیاسی اور سماجی شخصیت حاجی محمد فہیم صدیقی نے مجاہد سید کے اس دعوے کی توثیق کی کہ جدہ سے ہندوستان میں مجلس علم و ادب کی پہلی تقریب تک اس ادبی تنظیم نے تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ لکھنئو میں اس کی آمد علمی اور ادبی حلقوں کے لئے نہایت خوش آئند ہوگی۔ مجاہد سید نے اظہار تشکر کرتے ہوئے شہر کے ادبا، شعرا، محققین اور فنکاروں کو مجلس علم و ادب کو اپنی محبتوں اور علمی تعاون سے نوازنے کی درخواست کی۔
جلسے میں نمایاں سماجی اور ادبی شخصیات ڈاکٹر منصور حسن خاں، شاہد کمال، احسن رضوی، ڈاکٹر ثروت طقی، فیضان مثنی ، سید محمد مہدی، عون نقوی ، عادل فراز، حسین ایڈوکیٹ اور مہدی گنج اور اطراف کی سربرآورہ ہستیاں بھی موجود تھیں۔
 

شیئر: