Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا کو آبادی کے ایٹم بم کا سامنا

***احمد آزاد۔فیصل آباد***
20کروڑ کے لگ بھگ آبادی والے ملک پاکستان میں اس وقت پوری شدومد کے ساتھ وزیراعظم اور چیف جسٹس آبادی کو کنٹرول کرنے میں اپنے قرب وجوار کے لوگوں کی ذہن سازی کررہے ہیں ۔ابھی گزرے بدھ کے روز اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے آڈیٹوریم میں ہوئے لا اینڈ جسٹس کمیشن کے زیر اہتمام بڑھتی ہوئی آبادی کے حوالے سے ہوئے سمپوزیم (ایک طرح کی کانفرنس یا میٹنگ جس میں کسی خاص مضمون کو زیربحث لایا جاتاہے)میں پوری شدت کے ساتھ اس بات پر زور دیا گیا کہ آبادی کو کنٹرول کیا جائے ۔سمپوزیم سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے بخوبی آگاہ ہے اس مسئلے پر موثر انداز میں قابو پانے کیلئے بالخصوص علماء کرام ، ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ سمپوزیم کی خاص بات دینی طبقے میں ایک الگ پہچان رکھنے والی شخصیت معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کی شمولیت تھی۔،مولانا طارق جمیل نے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا آبادی میں اضافے کی وجہ معاشرتی دباؤ اور غربت ہے ۔دیہات میں لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنے زیادہ بچے ہوں گے اتنا ہی اچھا ہوگا کیونکہ ایک باپ سمجھتا ہے کہ اس طرح اس کی مزدوری بڑھے گی ۔ ان ساری چیزوں کے پیچھے سبب جہالت ہے ۔حکمرانوں کی نیتوں کا اثر عوام پر پڑتا ہے ۔
اگر ماضی میں جھانکیں تو آج سے 200سال قبل زمین پر انسانوں کی تعداد ایک بلین تھی یا شاید اس سے بھی کم۔آج دنیا کی آبادی 7.7بلین کے قریب ہوچکی ہے ۔1804ء میں دنیا بھر کی آبادی ایک بلین کے قریب تھی جوکہ1930ء میں بڑھ کر 2بلین ہوگئی اور صرف 30سالوں میں یہ مزید بڑھتے ہوئے3بلین تک پہنچ گئی اور پھر14سالوں یعنی 1974ء میں یہ اندازاََ4بلین سے بڑھ چکی تھی۔1987ء میں 5بلین ہوئی اور 2011ء میں یہ دنیا 7بلین افراد کے وجود سے بھر گئی ۔ 2018ء میں یہ آبادی 7اعشاریہ 7بلین ہوچکی ہے اور2055 ء میںاقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق دنیا کی آبادی 10بلین سے زائد ہوجائے گی ۔183سالوں میں دنیا کی آبادی 1بلین ہوئی اورصرف207سالوں میں آبادی بڑھتے بڑھتے 7بلین سے زائد ہوگئی ۔1955ء میں پاکستان دنیابھر میں آبادی کے لحاظ سے 14ویں نمبر پرتھا اور پھر 1970ء میں 10ویں نمبر پر پہنچ گیا اور پھر 2005ء میں گلوبل رینک میں پاکستان کا نمبر6ہوگیا جو ہنوز قائم ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی 2050ء میں 31کروڑ کے لگ بھگ ہوجائے گی۔1968ء میں بائیولوجسٹ پال آلرککی لکھی کتاب "The Population  Bomb" مارکیٹ میں آئی جس میں مصنف کا کہنا تھا کہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ پوری دنیا میں موجودہ آبادی کو خوراک مہیا کرنے کے وسائل نہیں۔دنیا بھر میں مختلف ممالک نے ایک یا 2 سے زائد بچوں کی پیدائش پر قدغن لگادی ۔
چندایک معیشت دانوں اور ماہرین کی رائے اس دورانیے میں جوبھی رہی ہو لیکن ایک کثیر تعداد وہ رہی ہے جو آبادی کے ایٹم بم کوایک خطرہ قرار دے رہی ہے ۔ان سارے ادوار میں جنگ، قحط،ماحولیاتی تبدیلی اور ناانصافی ودیگر عوامل بھی شدید ہوئے ہیں لیکن اس  کے باوجود آبادی میں کمی لاکھ جتن کرنے کے باوجود نہ ہوسکی بلکہ آج جن ممالک میں آبادی کم ہے وہاں پر کام کرنے والے افراد کی شدید کمی ہے جسے وہ دیگر ممالک سے آنے والے ہنرمندوں سے پوری کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔کئی ایک ممالک میں خوراک ضائع ہوجاتی ہے اورکئی ایک ممالک میں ایک لقمے کے لیے انسانیت ترستی ہے  ۔غریب ممالک میں بھوک کی وجہ آبادی نہیں بلکہ ناانصافی و کرپشن جیسی خوفناک بلائیں ہیں۔مسلمان کا ایمان ہے کہ رزق دینے والی ذات اللہ تبارک وتعالیٰ ہے ۔قرآن مجید میں تواللہ کا فرمان ہے کہ ’’غربت کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تم کوبھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی‘‘نبی کریم کی ایک حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ’’ میں قیامت کے روز تمہاری کثرت پر فخر کروں گا ۔‘‘
وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس اور دیگر سیاسی رہنماء ہمارے لیے معزز ہیں لیکن چونکہ یہ ایک خطرناک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کا آج یورپ و دیگر ممالک خمیازہ بھگت رہے ہیں جہاں دوسرے ممالک سے لوگوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے کہ آئو اور ہماری معیشت کو مضبوط کرو ۔پاکستان کا مسئلہ آبادی کی زیادتی نہیں ہے بلکہ پاکستان کا مسئلہ وہ جاگیردارانہ و ظالمانہ نظام ہے جس میں ایک جاگیردار، سردار، وڈیرے کے پاس پورے گائوں کی زمین ہوتی ہے اور کسان پیاز سے سوکھی روٹی کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔دولت کی غیرمصنفانہ تقسیم ہمارے ملک کا مسئلہ ہے ۔عدلیہ ،حکومت اور دیگر بااختیار ادارے ملک کو انصاف مہیاکردیں بلکہ آج ہی سے حکومت کوشش کرے کہ اسلامی سزائیں ملک میں نافذ کردے۔اللہ کی رحمت برسنا شروع ہوجائے گی۔ سودی کاروبار کرنے والے ملک میں کہاں اللہ کی رحمتیں برسا کرتی ہیں؟ظالم کا ساتھ دینے والے ملک میں کہاں پانی رحمت بنتا ہے اور بیٹیوں کی شرم وحیاء کی چادر کو جدت کے نام پر اتارنے والے ملک میں کہاں برکت نازل ہوگی صاحب!۔
 

شیئر: