Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یمن کیلئے سعودی عرب کی ترجیحات

سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”عکاظ“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
برادر ملک یمن دہشتگردانہ اسکیموں کا شکار ہوا۔ یمنی عوام کے مفادات اور کامیابیوں کو زیر و زبر کیا گیا تو سعودی قائدین نے مبصر یا تماش بین بننا پسند نہیں کیا۔ سعودی قائدین کیلئے یہ ممکن بھی نہ تھا کیونکہ وہ کئی عشروں سے یمن اور خطے کے استحکام کیلئے مطلوب ہر طرح کا تعاون کررہے تھے بلکہ تعاون کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ سعودی عرب نے یمن کا سیاسی بحران ختم کرانے کیلئے” خلیجی فارمولہ“ کا اہتمام کیا۔ یمن کے متحارب فریقوں کے درمیان خلیج پاٹنے کا بندوبست کیا۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے 2014ءکے اختتام پر ریاض میں یمنی مصالحت کانفرنس بلائی۔ حوثی باغیوں کی ہٹ دھرمی، تشدد اور انارکی کی روش برقرار رکھنے کی ضد نے بند گلی تک پہنچا دیا ۔ یمنی صدر عبدربہ منصور ھادی نے مجبور ہوکر اہل یمن کو حوثیوں کی دہشتگردی سے بچانے کیلئے عربوں سے مدد کی اپیل کردی۔ اس پر سعودی عرب کی زیر قیادت عرب اتحاد برائے یمن قائم ہوا۔ ”فیصلہ کن طوفان“ شروع ہوا۔ اس کے بعد بھی یمن میں جاری کشمکش ختم کرانے کیلئے سیاسی ، اقتصادی اور انسانی سطح پر پے درپے متعدد کوششیں کی گئیں۔ عرب اتحاد کا اولیں ہدف اپنے قیام کے روز اول سے ایک ہی تھا اور وہ تھا حوثیوں کو امن عمل قبول کرنے پر آمادہ کرنا،بین الاقوامی قراردادوں کے نفاذ پر مجبور کرنا،یمنی عوام کو بحرانوں کے بھنور سے نکالنا اور ان کے ریاستی اداروںکو بحال کرنا۔ اب جبکہ عرب اتحاد اور یمن کی آئینی حکومت کی عسکری فتوحات کے بعد حوثی بین الاقوامی امن مطالبات قبول کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں، سعودی عرب نے اقوام متحدہ کے ایلچی برائے یمن کو دائمی امن و استحکام کیلئے مطلوب وہ تمام سہولتیں مہیا کردیں جن کی ان کو ضرور ت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: