Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حقیقی سیل یا دھوکہ دہی؟

ڈاکٹر رشید بن حویل البیضانی ۔ عکاظ
ان دنوں دنیا بھر میں وہ مشرقی ممالک ہوں یا مغربی، ایک تجارتی رواج چل پڑا ہے۔ میری مراد مختلف اشیاءو مصنوعات سستے داموں پر فروخت کرنے سے ہے۔ مغربی دنیا 2018ءکے اختتام پر جشن منا رہی ہے۔ اس تناظر میں سیل کا رواج ہر سو دیکھا جارہا ہے۔ مشرقی دنیا میں بہت سارے عرب ممالک بھی مغرب کی دیکھا دیکھی یہی کچھ کررہے ہیں۔ آپ کسی بھی مغربی یا عرب ملک جائیے ، وہاں آپ کو سیٹلائٹ چینلز یا اخبارات میں ”سیل “ کے اشتہارات ہر سو نظر آئیںگے۔ عوام اپنی ضرورت کی اشیاءاور تحائف خریدنے کیلئے تجارتی مراکز میں بھیڑ لگائے ہوئے ہے۔ بعض لوگ بلا ضرورت بھی صرف اسلئے سامان خرید رہے ہیں کہ سستا ہے۔ انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں کہ رعایتی سامان معیاری بھی ہے یا نہیں۔
”بلیک فرائیڈے“ کے نام سے 80فیصد تک رعایت کا اشتہار دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ بہت سارے ممالک اسے” وائٹ فرائیڈے“ کانام دینے لگے ہیں تاکہ مبارک دن کسی برے نام سے منسوب نہ ہو۔
میں نے کافی غوروخوض کے بعد خود سے سوال کیا کہ رعایت کا تعلق سامان کی لاگت سے ہے یا منافع کی شرح میں کمی سے؟ یقینا لاگت میں کمی سے اس کا تعلق نہیں ہوسکتاکیونکہ کوئی بھی تاجر ایسا نہیں کرسکتا۔ جو بھی لاگت سے کم پر سامان فروخت کریگا وہ دیوالیہ ہوجائیگا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر رعایت منافع پر ہے تو اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تاجر 80یا 50فیصدرعایت دیکر بھی 20یا 50فیصد منافع وصول کررہا ہے اور وہ رعایت سے قبل خریدے جانے والے سامان پر صارفین سے 100فیصد منافع وصول کررہا تھا۔
ایک امکان یہ بھی ہے کہ تاجر حضرات رعایتی موسم سے قبل اشیاءکے نرخ کچھ رکھتے ہیں اور رعایتی موسم کے لئے انکے یہاں نرخ کچھ اور ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی چیز رعایت سے قبل 100ریال میں بیچی جارہی ہوتی ہے ۔ رعایت کے بعد اسکی قیمت 50ریال کردی جاتی ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں بھی تاجر حضرات صارفین کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ رعایت پر بیچا جانے والاسامان غیر معیاری ہوگا۔ مجھے مغربی دنیا کے ایک چینل کو سننے کا اتفاق ہوا جس میں بتایا جارہا تھا کہ ایک فیکٹری پکڑی گئی ہے جہاں غیر معیاری سامان ، معیاری کے نام سے ہی متعلقہ کمپنی رعایتی موسم کیلئے تیار کررہی تھی۔حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا بھر میں ضمیر فروشی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کا دائرہ مشرقی اور عرب معاشروں تک محدود نہیں۔ 
آخری سوال یہ ہے کہ کیا الصادق الامین تاجر عصرحاضر میں نادر سکہ بن چکا ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: