Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا جی سی سی کی بساط لپیٹنے کا وقت آگیا؟

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
بغیر پاسپورٹ کے میں نے گزشتہ 2ماہ کے دوران بحرین ، کویت اور متحدہ عرب امارات کا سفر کیا۔ قومی شناختی کارڈ نے پاسپورٹ کا کام کیا۔ ایسا لگا جیسا کہ میں 3ممالک نہیں بلکہ ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں کا سفر کررہا ہوں۔ یہ سہولت اپنی جگہ۔ جی سی سی ممالک کے بیشتر باشندے جی سی سی سے راضی کم اور نالاں زیادہ ہیں۔ خلیجی ممالک کے قائدین کی آرزو ہے کہ کاش وہ سب ہوچکا ہوتا جس کے خواب ہمیں ہمارے قائدین نے دکھائے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جی سی سی میں شامل ممالک ایک ریاست کی شکل اختیار کرلیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوجاتا تو قومی پیداو ار کے لحاظ سے یہ دنیا کی ساتویں بڑی ریاست بن جاتی۔اب دنیا میں قومی پیداوار کے حوالے سے سلطنت عمان 66ویں نمبر پر ہے۔ اگر جی سی سی ممالک ایک ریاست میں ضم ہوجاتے تو انکی آبادی 55ملین نفوس پر مشتمل ہوتی اور آبادی کے حوالے سے دنیا میں 27ویں نمبر پر ہوتی۔
فی الوقت قطر کی آبادی 25لاکھ اور بحرین کی آبادی 15لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ممالک چھوٹے اور کمزورلگ رہے ہیں۔جی سی سی کا تصور خمینی کے انقلاب کے بعد ایرانی خطرات سے نمٹنے کیلئے دفاعی محاذ کی تشکیل میں مضمر تھا۔ آہستہ آہستہ اقتصادی تعاون اور سیاسی اتحاد میں تبدیل ہوا ۔عجیب بات ہے کہ سب کے سب جی سی سی کے تصور کو تسلیم کرتے ہیں تاہم 30سالہ تجربے نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ باہمی تعاون اپنی جگہ بجا و درست ، صرف ایک ملک تمام ممالک کی آرزوﺅں کو زندہ درگور کرنے کیلئے کافی ہے۔
نویں عشرے کے اوائل سے قطر جی سی سی کے کاررواں کے پہیوں میں رکاوٹیں ڈالے ہوئے ہے۔ قطر نے اس حوالے سے وہ کارنامہ انجام دیا جو نہ صدام حسین دے سکے تھے اور ایران بھی اس حوالے سے ناکام ہوگیا تھا۔ قطر نے جی سی سی کے پرخچے اڑا دیئے۔ اس نے بحرین میں خانہ جنگی کرائی۔ اس نے باغی اپوزیشن کی سرپرستی کی۔ قطر نے سعودی عرب کے ساتھ سرحدی معرکے لڑے ۔قطر بیرون مملکت مقیم سعودی اپوزیشن کو فنڈ فراہم کررہا ہے۔ قطر نے ہر خلیجی ملک کی اپوزیشن کی مالی اعانت کی۔ کویت میں سیاسی نظام کے خلاف نام نہاد تحریک بیداری کی ،سرپرستی کا اعزاز بھی قطر کو ہی حاصل ہے۔قطر ہی نے متحدہ عرب امارات کے اندر اور باہر اپوزیشن رہنماﺅں کو منظم کرنے کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ یہی اب جمال خاشقجی کے قتل کے واقعہ کو سیاسی رنگ دینے اورسعودی عرب کے خلاف طوفانی پروپیگنڈے کو مالی اعانت دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ خلیجی ممالک کے درمیان اختلافات فطری شکل میں تھے۔ بعض تنازعات سرحدوں اور سیاسی امور میں آج بھی ہیں لیکن قطر کے سوا کسی بھی خلیجی ملک نے اپنے برادر ملک کے امن و امان کو خطرات لاحق کرنے والے سرخ نشان سے تجاوز نہیں کیا۔
حقیقت یہی ہے کہ قطر کے حکام کی اذیت رسانیوں اور مخالفانہ اقدامات کا کوئی معقول عذر سمجھ سے باہر ہے۔ قطر کے حکمراں 28 برس سے یہ کام پابندی سے انجام دے رہے ہیں۔آج اتوار کو جی سی سی کے 6ممالک کا اجلاس ہورہا ہے۔ تلخ ماحول میں ہورہا ہے۔ قطر کی اذیت رسانی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ عوام کی مایوسی گہری ہوچکی ہے۔
مذکورہ تمام تر منفی حالات کے باوجود ریاض میں جی سی سی جنرل سیکریٹریٹ کے دروازے قطر سمیت رکن ممالک کے تمام شہریوں کےلئے کھلے ہوئے ہیں۔ بائیکاٹ پر ڈیڑھ برس گزر جانے کے باوجود سعودی عرب قطر کے ملازمین اور انکے نمائندوں کو ہر طرح کی پابندیوں سے استثنیٰ دیئے ہوئے ہے۔
ریاض میں ہونے والی سربراہ کانفرنس کے ایجنڈے پر جی سی سی کے مستقبل کی بابت سوال پوری قوت سے اٹھایا جائیگا۔جی سی سی کے ارکان2گروپوں میں منقسم ہوگئے ہیں۔ اگر بحرانی صورتحال اسی انداز میں چلتی رہی تو جی سی سی جلد ہی ختم ہوجائیگی۔ خلیجی ممالک کے درمیان دو طرفہ معاہدے برقرار رہیں گے۔ اجتماعی معاہدے کالعدم ہوجائیں گے۔ قطر واحد ریاست ہے جو درپیش کشیدگی کو ختم کرسکتی ہے۔ قدیم و جدید ریکارڈ کے تناظر میں یہ بعید از امکان ہے کہ قطر جی سی سی کو تباہی سے بچانے کیلئے کچھ کرے۔کوئی معجزہ ہی مصالحت کا باعث بن سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: