Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مومنین صالحین کا مستقل عمل ، تہجد

***محمد فاروق خٹک۔ ریاض***
تہجد کے معنیٰ ہیں نیند توڑ کر اُٹھنا ۔ رات کے وقت تہجد کا مطلب یہ ہے کہ رات کا ایک حصہ سونے کے بعد پھر اُٹھ کر نماز پڑھی جائے۔ تہجد کی کم سے کم 2 رکعتیں ہیں، اوسطاً 4 ،6اور زیادہ سے زیادہ 8 یا 12 رکعتیں ہیں۔ یہ نماز اللہ کے ہاں بہت مقبول ہے۔ نفل نمازوں میں سب سے زیادہ اس کا ثواب ہے (مسلم ، ترمذی،ابوداؤد) ۔
قرآن کریم میں تہجد کی فضیلت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
’’جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔‘‘( الفرقان64)۔
نیز ارشاد ربانی ہے:
’’ اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔‘‘(آل عمران17)۔
حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا :
’’تم لوگوں کو چاہئیے کہ رات کو قیام کرو اس لئے کہ تم سے پہلے نیک بندوں کی عادت بھی یہی تھی ، یہ تمہارا اپنے رب سے قرب حاصل کرنا ہے، یہ تمہاری برائیوں کو مٹانے والا اور تمہیں گناہوں سے بچانے والا ہے ۔‘‘(ترمذی)۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :
’’ اللہ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو آدھی رات کو اُٹھتا ہے اور تہجد پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے (پیار سے) پھینکتا ہے اور اللہ اُس عورت پر بھی نظر کرم فرماتا ہے جو رات کواُٹھ کر تہجد پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی تہجد کیلئے جگاتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ عورت (پیار سے) اپنے خاوند کے منہ پر پانی کے چھینٹے پھینکتی ہے ۔‘‘ ( ابو داؤد ونسائی)۔
تہجد کی نماز کے اجر و ثواب کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے جو ابو مالک الاشعر ی ؓ  نے روایت کی کہ حضور نے فرمایا :
’’جنت میں ایسے شفاف کمرے ہیں جن کے اندر سے باہر کا سب کچھ نظر آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کیلئے تیار فرمائے ہیں جو نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں ،اکثر روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو اُٹھ کر نماز (تہجد) پڑھتے ہیں جبکہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں ۔‘‘ ( ترمذی ، بیہقی فی شعب الایمان)۔
حضور نے ہمیشہ تہجد کا اہتمام فرمایا۔ آپ کا معمول تھا کہ رات کے پچھلے پہر اُٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے اور بالعموم سورۂ آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت فرمایا کرتے تھے، ترجمہ:
’’زمین اور آسمان کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں جو اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میںغور و فکر کرتے ہیں، ( وہ بے اختیار) بول اُٹھتے ہیں: پروردگار ! یہ سب کچھ تُونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ، پاک ہے تُو اس سے کہ عبث کام کرے، پس اے ہمارے رب ، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ، تو نے جسے دوزخ میں ڈالا اسے درحقیقت بڑی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا،مالک !ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھااور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو، ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی ، پس اے ہمارے آقا ! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما ، جو برائیاں ہم میں ہیں اُنہیں دور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر، اے اللہ! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے کیے ہیں ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال ، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں۔‘‘ 
فتنوں سے بچنے نفس کی سرکشی اور بغاوت اور مجاہدۂ نفس کیلئے ضروری ہے کہ رات کی نماز کا اہتمام کیا جائے۔ حضرت عبد اللہ ابن سلام ؓ  فرماتے ہیں کہ ہجرت کے بعد حضور   مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے جوالفاظ آپ نے فرمائے وہ یہ تھے :
’’ اے لوگو ! سلام کو پھیلاؤ، مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ،رشتوں کو جوڑو اور ات کے پچھلے پہر اُٹھ کر اپنے رب کی عبادت کیا کرو تو نہایت امن و سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے۔‘‘
بخاری و مسلم کی حدیث ہے ،حضرت ابو ہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :
’’ شیطان آدمی کی گدی پر3 گرہیں لگاتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھونک دیتا ہے کہ ابھی رات بہت باقی ہے ، پس اگر وہ شخص جاگے اور اللہ کو یاد کرے توایک گرہ کھل جاتی ہے، اگر وضو کرے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور نماز پڑھتا ہے توتیسری گرہ کھل جاتی ہے اور صبح کو طیب نفس کے ساتھ اُٹھتا ہے ۔‘‘
رسول اللہ   کا ارشاد ہے :
’’2 رکعتیں اگر بندہ پچھلے پہر کے درمیان پڑھے تو اس کیلئے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے اور اگر میں اپنی اُمت پر گراں نہ سمجھتا تو اسے فرض کردیتا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ  ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا :
’’اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ کی رحمت تم پر زندہ رہنے اور مر کر قبر میں اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے کے حال میں رہے تو رات کو اُٹھ کر نماز پڑھا کرو اور نماز سے اپنے رب کی رضا چاہو ۔‘‘
ایک بار اللہ کے رسول نے حضرت ابو ہریرہ ؓ  کو مخاطب کرکے فرمایا :
’’ اے ابو ہریرہؓ !،اپنے گھر کے کونوں میں نماز پڑھو، تمہارے گھر کا نور آسمان میں ایسا ہو گا جیسے چھوٹے اور بڑے ستاروں کی روشنی زمین کے باشندوں کیلئے ہوتی ہے ، رات کی عبادت اپنے اوپر لازم کرلو کہ تم سے بیشتر نیک بختوں کا یہی طریقہ رہا ہے، اس میں یہ خوبیاں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور گناہوں سے دوری نصیب ہوتی ہے ، بدن سے روگ دفع ہوتا ہے اور گناہوں سے دوررہنا نصیب ہوتا ہے۔‘‘
ایک اور حدیث ہے :
’’ اگر کوئی رات کو اُٹھے اور گھر والوں کو بھی جگائے اور رات کی نماز ادا کرے تو ان کا نام ذاکرین اور ذاکرات میںلکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
رات کا اُٹھنا بے شک مشکل کام ہے لیکن جنہیں اللہ توفیق دے ان کیلئے مشکل نہیں۔ حضرت عمر ؓ  فرماتے ہیں :
’’ مجھے نیند سے کیاعلاقہ ، دن کو سوتا ہوں تورعیت کو ضائع کرتاہوں اور ات کو سوتا ہوں تو اپنے نفس کو تباہی میں ڈالتا ہوں۔‘‘
حضرت ربیع ؒ فرماتے ہیں کہ میں امام شافعی ؒکے مکان پر کئی رات رہا تو اُن کا معمول تھا کہ بہت کم سوتے تھے ۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ ؒکے بارے میں ایک بزرگ کا قول ہے کہ میں6 مہینے تک ان کے ہاں رہا اور میں نے دیکھا کہ نصف شب کی عبادت ان کا معمول تھا۔
اللہ کے حضور میں اپنے گناہوں سے مغفرت طلب کرنے کا بہترین وقت تہجد کا ہے۔ حضرت ابوہربرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی  نے فرمایا:
’’ جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب بزرگ وبرتر پہلے آسمان پر اُترتا اور فرماتا ہے:ہے کوئی میرے حضور دعا کرنے والا کہ میں اُس کی دُعا قبول کروں ؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اُس کا سوال پورا کروں ؟ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اُسے بخش دوں۔‘‘(بخاری ، مسلم ، ابوداؤد، ترمذی)۔
تہجد کا وقت اپنی ماضی کی زندگی کا محاسبہ کرنے اور اپنے کیے ہوئے گناہوں پر ندامت کا بہترین وقت ہوتا ہے۔ اُس وقت انسان کی یادداشت کی صلاحیت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ نیند لینے کے بعد انسان کی یادداشت کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے رات کی آخری گھڑیوں میں جب بندہ نیند سے بیدار ہو کر تہجد کی نماز ادا کرتا ہے تو دعا کے دوران اپنی ماضی کی کوتاہیوں کو رات کی خاموشی میں بآسانی یاد کرسکتا ہے۔ اُن پر ندامت کے آنسو بہا کر اللہ کے حضور گڑاگڑا کر معافی مانگ سکتا ہے ۔ آئندہ کیلئے اپنے گناہوں سے صدق دل سے توبہ کرسکتا ہے۔ 
رات کی آخری گھڑیوں میں اُٹھ کر تہجد ادا کرنے سے ویسے تو وہ تمام طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو ہر نماز سے حاصل ہوتے ہیں۔ حدیث شریف ہے کہ میری اُمت کیلئے صبح اُٹھنے میں برکت رکھی گئی ہے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ، رسول اللہ سے حدیث روایت کرتے ہیں کہ تہجد کے وقت اُٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت بنا لو کیونکہ تم سے پہلی قوموں میں صالح لوگوں کی یہ عادت تھی ، یہ تمہیں اللہ سے قریب کرتی ہے ، تمہارے گناہوں کا کفارہ ہے ، تمہارے گناہوں کو گھٹاتی ہے اور جسم سے بیماری دور کرتی ہے(فقہ السنہ)۔
اس حدیث میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جس صحابی نے یہ حدیث روایت کی ہے یعنی حضرت سلمان الفارسی ؓ اُن کا اس حدیث پر خود اتنا عمل تھا کہ انہوں نے بہت لمبی عمر پائی،رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اُٹھنا انسان کو صحتمند، مالدار اور عقلمند بناتا ہے ۔
انسانی جسم پر آج کے دور میں مصنوعی روشنیاں کافی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ رات کو دیر سے سونا، ٹی وی یا کمپیوٹر کی اسکرین سے نکلنے والی مصنوعی روشنیوں کے سامنے بیٹھنا اور صبح دیر سے اُٹھنا انسان کے جسم پر بُرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ جب انسان تیز مصنوعی روشنیوں کے سامنے رات کو بیٹھا رہے اور پھر سورج نکل آنے کے بعد بھی سوتا رہے تو جسم کے اندر ہارمونز کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور جسم میں دباؤ کا مقابلہ کرنے ، وزن کم کرنے اور جسم کے عضلات کی مرمت وغیرہ کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے ۔  انسان کی صحت پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ تہجد کے وقت اُٹھنے سے دماغی قوتوں کو تقویت ملتی ہے۔
عمو ماً یہ سمجھا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر تہجد کی نماز فرض تھی جبکہ عام لوگوں کیلئے یہ نماز نفل ہے لیکن یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کرنے والوں کیلئے تہجد کی نماز نہایت ضروری ہے ، اس کی کئی وجوہ ہیں۔اسلام کی دعوت و تبلیغ کاکام کرنے والے نبوی مشن کو سر انجام دے رہے ہوتے ہیں ۔ رات کی آخری گھڑیوں میں میٹھی نیند کی قربانی دے کر اُٹھنے سے اسلام کاکام کرنے والوں کی قوت ارادی میں مضبوطی آتی ہے۔
نیند انسان کے اندر ایک انتہائی قوی محرک ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت بھی آرام طلب واقع ہوئی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رات کو عبادت کیلئے اُٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اُس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے  اس لئے یہ فعل ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کو دبانے اور اُس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادات کی نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے اس لئے اسکی پابندی کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے اور وہ اللہ کی راہ میں صبر و استقامت سے چل سکتا ہے، وہ دینِ حق کو دنیا میں غالب کرنے کیلئے عزم سے کام کرسکتا ہے۔ تہجد کی نماز دعوت دین کاکام کرنے والوں کے ظاہر وباطن میںمطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگرذریعہ ہے کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص آرام چھوڑ کر اُٹھے گا وہ اخلاص ہی کی بنا پر ہوگا، اس میں ریاکاری کا سرے سے موقع ہی نہیں ۔ رات کی خاموشی میں یہ نماز ادا کرنے سے انسان کو عبادت میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کا موقع مل جاتا ہے کیونکہ اس وقت ذہن کو یکسوئی میسر ہوتی ہے ، پھر اس عمل کے نتیجے میں انسان کے ایمان کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ 
نماز تہجد کی برکت سے دین کے خادموں کو اللہ تعالیٰ شخصیت کا وقار نصیب فرماتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے ۔ حضرت سہل بن سعد ؓ  فرماتے ہیں کہ رسول کریم کے پاس جبرئیل ؑ آئے اور کہا: 
’’اے محمد ()! جان لو کہ مومن کی عزت و قار تہجد کی نماز میں ہے اور اُس کی عظمت لوگوں سے مدد طلب نہ کرنے میں ہے۔‘‘(طبرانی )۔
مولانا ابوالکلام آزاد بچپن ہی سے سحر خیز تھے۔ اپنی کتاب’’ غبارِ خاطر‘‘ میں اس عادت کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ایک بڑا فائدہ اس عادت سے یہ ہوا کہ میری تنہائی میں اب کوئی خلل نہیں ڈال سکتا۔ صبح کی اس مہلت میں تھوڑی سی آگ جو سلگ جاتی ہے ، اُس کی چنگاریاں سلگنے نہیں پاتیں، راکھ کے تلے دبے دبائے کام کرتی رہتی ہیں۔ اس سحر خیزی کی عادت کیلئے والد مرحوم کا
منت گزار ہوں۔ ان کا معمول تھا کہ رات کے پچھلے پہر ہمیشہ بیداری میں بسر کرتے ۔ فرمایا کہ رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اُٹھنا زندگی کی سعادت کی پہلی علامت ہے۔‘‘
 
 
 
 

شیئر: