Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاک امریکی صورت حال نئی نہج پر

کراچی (صلاح الدین حیدر) پاک امریکی تعلقات گو کہ اتنے ہی پرانے ہیں جتنی کہ پاکستان کی عمر، لیکن وقتاً فوقتاً ان میں اتار چڑھاﺅ آتے رہے ہیں، یکسانیت کے فقدان کی بڑی وجہ امریکہ کی دنیاوی ترجیحات ہیں جو ایک سپرپاور ہونے کے ناطے اس میں تبدیلیاں وقت کی لامحالہ ضروریات بن جاتی ہیں۔ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہم چشم پوشی کر ہی نہیں سکتے۔ بے وقوفی ہوگی اگر ہماری سوچ بھی وقت کاساتھ نہ دے سکی۔ مگر یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ امریکہ یا کوئی بھی سپرپاور اپنے مفادات کی حفاظت کو مدنظر ضرور رکھتی ہیں لیکن کسی آزاد، خود مختار ملک کی عزت کا بھی خیال پیش نظر رہے۔ ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر بین الاقوامی امن و سکون کا خیال کا خواب شرمندہ تعبیر کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاک امریکی تعلقات پارک میں لگے ہوئے بچوں کے جھولے کی طرح رہے ہیں۔ جنہیں،”سوئنگ“ کا نام دیا جاتا ہے۔ کبھی ایک طرف جھکاﺅ، کبھی دوسری طرف۔ مگر قومی مفادات کا تحفظ اسلام آباد کے حکمرانوں کے لئے فرائض اولین بن جاتا ہے جس سے مفر ہی نہیں۔
دفاعی معاہدہ سیٹو، بغداد پیکٹ، جسے بعد میں سینٹو کا نام دیا گیا، جس کا پاکستان کو فائدہ تو ضرور پہنچا، ہماری دفائی ضروریات ایف 16 ، ٹینک اور دوسری اہم ضروریات جدید سانچے میں ڈھل تو گئیں لیکن پاک چین دوستی کی طرح کبھی بھی ہموار نہیں رہ سکیں۔ افغانستان میں پاکستان نے دوسروں کی جنگ میں اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی ۔صلے میں برے بھی بنے۔ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو کیا کچھ نہیں کہا۔ دھمکیاں دی گئیں، الزامات کی بوچھار ہوئی لیکن بالاخر واشنگٹن کو ہمارے اقدامات کے آگے سر جھکانا پڑا اور اب امریکی صدر خود ہی ہماری مدد کے خواہشمند ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کی شروعات کی جاسکے۔ امر یکہ 17 سال کی جنگ کے بعد افغانستان سے نکلنے پر مجبور نظر آتا ہے۔ اس کی معاشی مشکلات حل ہونے کو ہی نہیں آتی تو پھر جنگ سے چھٹکارا تو پانا ہی پڑے گا۔ 
وزیراعظم عمران خان نے اس بات کی تصحیح کردی کہ انہوں نے کبھی امریکہ کو سخت سست نہیں سنائیں بلکہ پاکستانی نکتہ نظر کی وضاحت کی تھی تاکہ ریکارڈ کی درستگی کی جاسکے۔ اب امریکہ اگر اپنی مدد کا خواہاں ہے تو ہم تیار ہیں۔ بھرپور کردار ادا کریں گے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ طالبان کہاں تک پاکستان کی بات سنتے ہیں لیکن اگر امریکہ اس بات پر راضی ہے کہ وہ اپنی افواج افغانستان سے نکال لے گا تو طالبان ضرور اپنے ملک کی قسمت کو سنوارنے میں کسی مزاحمت کی تکلیف اٹھانے سے گریز کریں گے انہیں عزت کی نظر سے دیکھا جانا ضروری ہے ورنہ ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ موجودہ صورت حال میں پاک امریکی تعلقات نئی جہت پر نظر آتے ہیں جو یقینا خوش آئند ہے۔

شیئر: