Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انشورنس اور پے درپے درد سری

عبداللہ الجمیلی ۔ المدینہ
سعودی عریبین مانیٹری فنڈ (ساما) نے انشورنس کی 22کمپنیوں یا ایجنسیوں کو مختلف خلاف ورزیاں ریکارڈ پر آنے کے بعد کسی بھی قسم کا انشورنس پیکیج جاری کرنے سے روک دیا۔ ساما نے یہ بات واضح کردی کہ جب تک دونوں کمپنیاں اصلاح حال نہیں کرینگی، قانون کے تقاضے پورے نہیں کرینگی اور مطلوبہ معیار کا اہتمام نہیں کرینگی تب تک انہیں سعودی مارکیٹ میں انشورنس کے کاروبار کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
ساما اپنے اس تادیبی اقدام کے لئے ہم سب کے شکریہ کی مستحق ہے۔ یہ اپنی جگہ پر درست ہے۔ دوسری جانب یہ بھی حق اور سچ ہے کہ انشورنس کی مارکیٹ میں انارکی چھائی ہوئی ہے۔ انشورنس کے مسائل حد سے زیادہ ہیں۔ بیشتر انشورنس کمپنیاں انشورنس پیکیج حاصل کرنے والوں کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے مارکیٹنگ کے جملہ حربے استعمال کررہی ہیں۔ یہ کمپنیاں انتہائی فنکارانہ انداز میں انشورنس پیکیج کی دستاویز میں ایسی شرائط تحریر کردیتی ہیں جن سے انشورنس کرانے والوں کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔ انشورنس دستاویز بڑی پیچیدہ ہوتی ہے۔ اسے سمجھنا، اسکی گتھلیوں کو سلجھانا آسان کام نہیں۔ یہ ایک نہیں بلکہ متعدد دستاویزات کا مجموعہ ہوتی ہے۔
گاڑیوں کی انشورنس کو مثال کے طورپر لے لیجئے ۔جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو محکمہ ٹریفک کے اہلکار یا نجم کمپنی کے کارندے حادثے کی رپورٹ تحریر کرتے ہیں۔ اس میںیہ بات واضح ہوتی ہے کہ حادثہ کب، کہاں اور کیسے ہوا اور کون کتنا قصور وار ہے لیکن انشورنس کمپنی کار کے مالک کو اس قدر الجھاتی ہے کہ توبہ بھلی۔ قانون کی رو کے منافی شرائط کو استعمال کرکے کار انشورنس کرانے والے کو اس قدر درد سری دیتی ہے کہ انسان چکرکاٹتے کاٹتے جنون کے دائرے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ مختلف علاقوں میں موجود ورکشاپوں سے نقصان کا تخمینہ پیش کرو ۔ پھر شو رومز کے سربراہ کے دستخط اور اسکی مہر بھی طلب کی جاتی ہے۔ پھر یہ ساری فائل سعودی محکمہ ڈاک کے توسط سے پولیس اسٹیشن روانہ کی جاتی ہے۔ انشورنس کرانے والے کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر آخر میں کمپنی مصالحت پر راضی ہوجائے تو انشورنس کرانے والے کو نقصان کا کچھ حصہ اپنی جیب سے بھی بھرنا پڑتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں موجود انشورنس کمپنیاں بدمعاملگی ،ٹال مٹول اور سروس کی خرابی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ یہاں کمپنیاں جو انشورنس فیس وصول کررہی ہیں وہ دنیا بھر میں رائج فیس سے بہت زیادہ ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بڑی انشورنس کمپنیاں چھوڑی انشورنس کمپنیوں کو در پردہ ٹھیکے بھی جاری کردیتی ہیں۔ 
ساما اور تاجروں کی قیاس آرائیوں کے باوجود انشورنس مارکیٹ میں انارکی اور بحران زوروں پر ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ اگر ہم باہر سے اپنے یہاں انشورنس نظام لائے ہیں تو غیر ملکی بڑی اور معتبر انشورنس کمپنیوں کیلئے سعودی مارکیٹ کے دروازے کیوں نہیں کھول دیئے جاتے؟
٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: