Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہر رشتے سے مضبوط تر، اخوت اسلامی

***عبد المنان معاویہ۔لیاقت پور***
  جب کسی ملک میں غربت بڑھ جائے تو لاقانونیت عام ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف ممالک میں شرحِ غربت بڑھ رہی ہے۔راقم کے خیال میں ہر شخص اپنے ارد گرد دیکھے، عزیز واقارب یا ہمسایہ ،اُن لوگوں کی کفالت اپنے ذمہ لے لے ۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ ہر شخص اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا تو کم ازکم اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اس کام کیلئے وقف کردے اور اپنے غریب ہمسایہ یا عزیز واقارب کے ہاں بھیج دے۔ہم ماہانہ کتنی ہی رقم فضول میں خرچ کردیتے ہیں ۔اسلام میں جو نظامِ اخوت قائم کیا گیا ہے، وہ اسی لئے تھا کہ ایک صاحب حیثیت شخص کسی غریب کی مدد کرے ،اسی طرح یہاں پر مقیم حضرات اپنے پُرانے کپڑے ضائع کرنے کے بجائے اپنے غریب رشتہ داروں کو دے دیں۔ 
میں ایک واقعہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ پاکستان میں میری ہمسائیگی میں ایک خاندان ایسا ہے جس کا واحد کفیل ایک نوجوان تھا جو گردہ کی بیماری میں ایک عرصہ مبتلا رہ کر اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس نوجوان کی 2بہنوں کو طلاق ہوگئی۔ وہ بے چاری بھی اُسی کے گھر میں مقیم ہیں۔ اب اُس گھر کا کوئی باضابطہ سلسلۂ روز گار نہیں اور نہ ہی وہ ایسا خاندان ہے کہ جو کسی سے بھیک مانگتا ہو۔ اللہ کے بھروسہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ خاکم بدہن ایسا کوئی خاندان اپنی عفت وعصمت کھو بیٹھے تو کیا ہم سے سوال نہیں ہوگا ؟کیا ہمارا فرض بس اتنا ہی ہے کہ ایک مضمون لکھ دیا ،ایک تقریر کردی اور5وقت نماز پڑھ لی اور بس ۔
آج تو ویسے ہی یہ فلسفہ عام کیا جارہا ہے کہ بھائی تمہیں کسی سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیئے بلکہ اپنی نماز وروزہ کی فکر کرنا چاہیئے۔ کہاںگئے وہ مسلمان جو ایک بہن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملتان تک پہنچ گئے؟کہاں گئے وہ مسلمان کہ معتصم عیاش ہونے کے باوجودجب سنتا ہے کہ ایک بہن نے کہا ’’واہ معتصماہ ‘‘تو اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خود زرہ پہن کر تیز رفتار گھوڑوں پر لشکر لے کر اُس کی مدد کو پہنچتا ہے ۔ آج کی حالتِ زار میں کن لفظوں سے بیاں کرو ں اور کیسے کروں کہ بس یہی کہتا ہوں کہ:
جب مسیحا دشمنِ جاں ہو تو کب ہو زندگی 
کون منزل پا سکے جب خضر ہی بہکانے لگے 
اسلام کا نظامِ زکوٰۃ بھی اسی لئے ہے کہ غریب لوگوں کی مدد ہوجائے اور انہیں در در کی ٹھوکریں کھانا نہ پڑیں اور نظامِ اخوت کا مقصود بھی یہی ہے ورنہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے ‘‘۔
نبی رحمت نے فرمایا :
’’آدمی کو اپنے بھائی کی مدد کرنا چاہیئے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ،اگر ظالم ہے تو اس کی مدد یہ ہے کہ اُسے ظلم سے روکے اور اگر مظلوم ہے تو اس کی مدد کرے۔‘‘ (مسلم )۔
اس حدیث نبویہ ؐ سے تو اور بھی اخوت اسلامی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ نبی رحمت   اپنے ماننے والوں سے فرما رہے ہیں کہ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو اور ظالم کی مدد اس طرح ہے کہ اُسے ظلم سے روکو تو جب یہاں تک اپنے بھائی کی مدد کا حکم ہے تو اپنے بھائی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم کہاں تک ہوگا ،وہ اندازہ لگانا اس فرمان نبوی ؐ کے بعد مشکل نہیں ۔
ایک اور حدیث نبوی ؐ ملاحظہ فرمائیے ۔
حضرت انس ؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :
’’ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ بندہ اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے بھی اُسی چیز کو پسند نہ کرے جس کو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے،یعنی دین ودنیا کی بھلائی میں سے جن چیزوں کو اپنے لئے پسند کر تا ہے سارے مسلمانوں کیلئے بھی ان کو پسند کرے ۔‘‘(متفق علیہ)۔
اللہ اکبر! یہ حدیث شریف تو اتنی وضاحت کر رہی ہے کہ مسلمان جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی شے اپنے مسلمان بھائی کیلئے بھی اُسے پسند کرنا چاہیئے یعنی یہ نہ ہو کہ اپنے لئے تو اچھی اشیاء پسند ہوں، جب مسلمان بھائی کی باری آئے تو پھر ہلکی اشیاء اور کم درجہ کی چیزیں دے کر بس فرض پورا کرنے کا کام نہ کریں بلکہ وہی چیز دیں جو آپ اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔ یہ ہے حکم نبی اکرم  کا جو رحمۃ للعالمین ہیں اور دنیا کیلئے فلاح کا پیغام لے کر تشریف لائے ۔
آج کے مسلم معاشرے میں جس تیزی سے مغربی افکار کو قبول کیا جارہا ہے ،یا یوں کہہ لیجئے کہ دجالیت مسلم معاشرے میں فعال ہے جس کی وجہ سے فحاشی وعریانی بڑھ رہی ہے، عوام الناس میں مغربی طور طریقہ اپنانے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے ،بچوں کو مغربی دنیا کے ہیروز کے بارے میں ساری معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اگر ہم نہیں جانتے تو مسلم ہیروز کو نہیں جانتے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلامی کلچر کے فروغ کیلئے کوشاں ہوں تاکہ نئی نسل کو گمراہی سے بچایا جا سکے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ گھروں میں اسلام سے متعلق گفتگو ہو، بھائی چارہ کی باتیں اور پھر اُس پر عمل ہو اور عمل کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کسی غریب کی مدد کرتے ہیں تو یہ سعی کریں کہ غریب کو وہ رقم یا خورد ونوش کی اشیاء اپنے بچوں کے ہاتھوں سے دلوائیں تاکہ ان میں جذبۂ خیر خواہی پیدا ہواور جب یہ بڑے ہوں تو ان کیساتھ ان کا جذبۂ خیر خواہی بھی جوان ہو جائے۔ اس کا دیرینہ اثر ہمارے مسلم معاشرے پر آپ خود محسوس کریں گے ۔
اخوتِ اسلامی کے حکمت وفلسفہ پرمولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ رحمہ اللہ کی تحریر ملاحظہ فرمائیے :
’’ہاں! حقیقی طور وہ پر مسلک دنیا کے سارے انسانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاسکتا ہے جو انہیں ایک جوہر بتلا کر، ایک ماں باپ کی اولادبتلائے اور ان میں رشتۂ یگانگت ہی نہیں رشتہ اخوت ثابت کرکے ان کے باہمی تفرقوں کو مٹا ڈالے اور نسبی فرقوں کو ختم کردے جو انسانی جہالتوں کی ابتدائی فرقہ واریت ہے اور اسلام کے سواہمیں کوئی دوسرا مسلک نظر نہیں آتا ۔غور کیا تو انسانوں میں یہ رشتۂ یگانگت واُخوت قائم کرکے اسلام نے مذہب ہی نہیں انسانیت کا احترام قائم کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ انسانوںکا کوئی طبقہ کسی حالت میں بھی نجس العین نہیں کہ وہ تو اس سے چھوئی ہوئی چیز بھی نجس بن جائے ۔انسان انسان ہے اور انس اس سے کسی حال میں بھی منقطع نہیں ہو سکتا ۔اس کے افعال میں گندگی آسکتی ہے ،اس کے خیالات ناپاک ہوسکتے ہیں مگر خود انسان اور انسانیت کا جوہر مٹ نہیں سکتا ۔ اس انسانیت کی حیثیت سے بہر حال وہ واجب الاحترام ہی رہے گا، اس کی انسانیت کبھی گندی نہ ہوگی اس لئے شریعت اسلام میں کسی انسان کا (خواہ مسلم یا ہوغیر مسلم ) پس خوردہ پا ک ہو گا، یہی نفسِ انسانیت کا احترام ہیـ۔ ‘‘ (مقالات حکیم الاسلام)۔
حکیم الاسلام قاری طیب قاسمی ؒ  کی درج بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ باہمی اخوت قائم کرنا فقط دینِ اسلام کا خاص امتیاز ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جملہ مسلمانوں کو آپس میں محبت قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
 

شیئر: