Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی اپنا دور کیوں بھول جاتی ہے؟

***صلاح الدین حیدر***
 ذاتی طور پر کچھ دن گزرنے کے بعد میں ورلڈ کپ کے ہیرو اور آج کے وزیر اعظم کے بارے میں یہ بات تو بلا خوف و خطر کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان انتہائی سادہ، نیک نیت اور سچے انسان ہیں اور قوم کی بھلائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن آپ کی خواہشات یا ارادے اسی وقت پورے ہوتے ہیں جب طریقہ کار صحیح ہو۔ یو ٹرن کا الزام لگا۔ انہوں نے پروا نہیں کی بلکہ مسلم دنیا کے قابل ترین قائد ملائیشیا کے صدر مہاتیر تک نے یہ کہہ دیا کہ یو ٹرن کبھی کبھی لینا ضروری ہوجاتا ہے۔ عمران نے بھی الزامات کو سرے سے رد کردیا۔ انسان کو اپنے اوپر اعتماد ہونا چاہیے، نہیں تو کوئی بھی کام صحیح نہیں ہو پائے گا۔ کسی بھی اونچ نیچ پر بیٹھے ہوئے انسان کو خواہ منصب کسی بڑی کمپنی کو کا ہو یا حکومت کے اعلی ترین عہدے کا، فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ دیر سے فیصلے کرنے والے کو پُراعتماد نہیں کہا جاسکتا۔ فیصلہ غلط ہو یا صحیح یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن بہتری کے معاملات پر فیصلہ فوری کردیا جائے۔ عمران نے بھی یہی انداز اپنایا ہے۔ ان پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ بغیر مشورے کے فیصلے صادر کر دیتے ہیں۔ جہاں تک میری اطلاع ہے، عمران ہمیشہ ہی ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں۔ فیصلہ انہی کا ہوتا ہے لیکن مشورہ شامل ہوتا ہے۔
بحث ملک میں اس وقت یہی چل رہی ہے کہ عمران نے 100 دن کا ہدف اپنے اور ساتھیوں کے لئے خود ہی مقرر کیا تھا کہ ان کی حکومت اس وقت تک کچھ نہ کچھ اچھے نتائج قوم کے سامنے رکھ پائے گی۔ دراصل 100 دن امریکی تصور ہے جہاں ہر نیا صدر مملکت کی کارکردگی پہلے 100 دن کے پیمانے سے ناپی جاتی ہے لیکن پاکستان میں جہاں حکمران لیاقت علی خان کے زمانے سے ہی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے میں ماہر تھے تو ظاہر ہے کہ انتظامی حکومت بھی کسی اور ہی انداز سے چلے گی۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد پاکستان میں انتظامی امور کو عوامی خواہشات کے مطابق نہیں چلایا جاسکا۔ خواجہ ناظم الدین اور چوہدری محمد علی شریف النفس انسان تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے قومی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور چوہدری محمد علی باوجود نوکر شاہی سے تعلق رکھنے کے جمہوریت پسند شخص تھے۔ انہوں نے ملک کو پہلا آئین دیا، جس کے 2 سال بعد ہی اسکندر مرزا اور ایوب خان نے مل کر صرف اس وجہ سے کہ ملک میں انتخابات نہ ہوں۔ آئین کا گلا گھونٹ دیا۔ نواز شریف، بینظیر کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔ سب کو ہی اقتدار ملا تھا۔ اگر بے نظیر نے جنرل اسلم بیگ سے مل کر 1988 میں حکومت بنائی تو زرداری کی وجہ سے بدنامی اٹھائی۔ نواز شریف جمہوریت کا راگ تو الاپتے ہیں لیکن اپنے آگے کسی کی نہیں سنتے۔  ان کے نزدیک وزیراعظم ملک کا چیف ایگزیکٹیو ہوتا ہے۔ اسے ہی فیصلوں کا اختیار ہے لیکن عمران میں ایسی کوئی بات نہیں۔ عمران نے پچھلے ہفتے اپنے وزراء کی کارکردگی پر کانفرنس بلا کر 9 گھنٹے کا سیشن کر کے انتہائی اچھا قدم اٹھایا۔ اگرچہ پہلے کبھی روایت نہیں تھی تو نئی روایت لانے میں کوئی حرج نہیں۔ بالکل صحیح فیصلہ تھا۔ لیکن ایسے دن جب اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے جارہا ہو انہیں اتنا لمبا سیشن کسی اور دن بلانا چاہیے، ایسی کانفرنس ہوتی رہنی چاہیے۔ یہ ایک مستحسن قدم تھا جس کی تعریف کرنی پڑے گی۔ لیکن جو وعدہ کیا گیا تھا کہ جو وزراء اپنی کارکردگی نہیں دکھا سکے انہیں فارغ کردیا جائے گا۔ یہاں تو سب ہی پاس ہوگئے اگر ایسا ہی ہوتا رہے تو پھر خوشامدیوں کی چاندی ہوجائے گی۔ 
عمران کی اپنی ٹیم میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرے اور عوام کے لئے صحیح کام کرے۔ عمران کو قومی اسمبلی چلانے کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانا پڑے گی۔ اگر پبلک اکائونٹس کمیٹی پر اپوزیشن مصر ہے تو رہنے دیں۔ کیا اپوزیشن بھول گئی کہ بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین خود ان کے شوہر آصف زرداری تھے، آج پیپلز پارٹی یہ سب کیوں بھول جاتی ہے۔ اپوزیشن اگر کہتی ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے تو پھر واویلا کیسا؟ آپ مل جل کر افہام و تفہیم سے کام لیں اور سب مل کر چلیں۔ آصف زرداری نے تو اس لیے شور مچا رکھا ہے کہ ان کے اور ہمشیرہ فریال تالپور کے خلاف نیب اور احتساب عدالت میں پیشیاں بھگتناپڑ رہی ہیں۔ صرف یہ کہہ دینا کہ زرداری نے 11 سال جیل میں کاٹے کافی نہیں ۔ جس طرح کے فیصلے انہوں نے اس وقت کے جج حضرات سے کروائے وہ زبان زد عام ہیں۔ ان کے پاس دولت آخر اتنی کیسے جمع ہوگئی۔ نہ صرف کراچی، لاہور، اسلام آباد بلکہ فرانس، لندن، دبئی اور نہ جانے کون کون سے ممالک میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ وہ سب قوم کے پیسے لوٹ کر بنائی گئی ہیں۔ انہیں قومی خزانے میں لانے کی سخت ضرورت ہے۔
 

شیئر: