Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک نئی شق

***جاوید اقبال***
واٹس ایپ پر ویڈیو کلپ تھی۔ ایک چادر پوش چینی خدوخال کی نوجوان عورت چادر کے ایک کونے پر ڈبڈبائی آنکھوں کی نمی کو سنبھالنے کی کوشش کررہی تھی اور امریکہ میں مقیم ایک نوجوان ایغور لڑکی کا چہرہ ایک لمحے کے لئے ظاہر ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اس کا نام اسکرین پر آیا عیدین انور جنوب مغربی چین کے صوبے زنجیانگ میں مسلمان آبادی پر ڈھائے جانے والے بے پناہ مظالم کی کہانی کہہ رہی تھی۔ پھر اسکرین سے اس کا نام اور چہرہ دونوں غائب ہوئے اور زنجیانگ میں مقیم مسلمان ایغور آبادی کی اجتماعی نسل کشی کا المیہ دکھایا جانے لگا۔ میرا ذہن جون 1985ء کے ریاض کی طرف پلٹا۔ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے زیر اہتمام ’’اقلیات مسلمہ‘‘ کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ وامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مانع الجہنی میرے ساتھ ہی جامعہ الملک سعود میں انگریزی کے استاد تھے۔ میں چونکہ سعودی ٹی وی چینل 2 پر پروگرام بھی پیش کرتا تھا اس لئے ڈاکٹر مانع نے مدعو بین الاقوامی شخصیتوں کے انٹرویو کرنے کے لئے مجھے خصوصی دعوت نامہ بھجوادیا۔ کیسی کیسی عظیم شخصیتوں سے گفتگو کے مواقع ملے۔ شیخ احمد دیدات، علامہ محمد اسد، ڈاکٹر جمال بدوی، معروف محقق ڈاکٹر جان اسپوزئیو، کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز کے صدر نہاد عواد، ڈاکٹر بلال فلپس، معروف مُکا باز محمد علی کلے… وہ 3 ایام میری پیشہ ورانہ زندگی کا حاصل تھے اور پھر آخری دن میرے پروڈیوسر نے چینی خدوخال کی ایک ادھیڑ عمر خاتون میرے سامنے لابٹھائی۔  چین کے صوبے زنجیانگ سے تھی۔ ایغور نسل کی مسلمان تھی۔ اس کی داستان آنسوئوں اور ہچکیوں کا قصہ تھا۔ مسلمانوں کی نسل کشی کا مرثیہ تھا۔ وہ انگریزی اٹک اٹک کر بولی لیکن اس کے آنسوئوں کی روانی نے کہانی مکمل کردی۔ اس کانفرنس میں کیے گئے انٹرویو بعد میں  رمضان کے دوران میں نے ٹی وی چینل 2 پر پیش کیے تھے۔ وہ 1985ء تھا اور آج 33 برس بعد 2018ء کے زنجیانگ کی حالت بدتر ہوچکی ہے۔ امریکہ میں مقیم ایغور نوجوان مسلم لڑکی کی عیدین انور واٹس ایپ پر زنجیانگ کے مسلمانوں کی المناک داستان کہہ رہی ہے۔ اس کے الفاظ ہیں ’’چین مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں نظر بند کررہا ہے اور اس صورتحال کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کررہا۔ چین نے 10 لاکھ سے بھی زیادہ ایغور اور دوسری ترک ریاستوں کے مسلمانوں کو مشقتی کیمپوں میں بند کر رکھا ہے۔ انہیں اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کو ترک کریں اور الحاد کی راہ اختیار کریں۔ اگر قیدی ان کی بات نہیں مانتے یا مزاحمت کرتے ہیں تو انہیں بہیمانہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار اسکاٹ بسبی کا کہنا ہے کہ کم از کم 8 لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 20 لاکھ کے قریب مسلمان ان حراستی مراکز میں بند ہیں۔مسلمان آبادی کی افزائش روکنے کے لئے نسل کشی کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ انہیں ایک ایسی کرسی پر بیٹھنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے جسے اس کے اذیت دہ استعمال کی وجہ سے شیر کرسی کہا جاتا ہے۔ لوگوں کو مختلف وجوہ کی بنا پر اس عذاب سے گزارا جاتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ قیدی نے ملک سے باہر کسی سے رابطہ کیا تھا یا اس کے خاندان کا کوئی رکن چین سے باہر قیام پذیر ہے یا وہ مذہبی رسومات میں شریک ہوتا ہے یا اس نے نماز ادا کی تھی یا اس نے اپنی گفتگو میں اللہ کا نام لیا تھا یا اس نے روزہ رکھا تھا۔ کوئی ایسی علامت جو کسی شخص کی اسلام سے وابستگی ظاہر کرے اسے جیل بھجوائے جانے کے لئے کافی ہے۔ ہزاروں لوگوں کو حراستی کیمپوں سے مستقلاً جیلوں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد عیدین انور ایک لحظے کے لئے رکتی ہے اور پھر اداسی سے انکشاف کرتی ہے کہ 2017ء کے اوائل میں اس کے رشتہ داروں میں سے ایک کو اس حراستی کیمپ میں لے جایا گیا تھا اور پھر گزشتہ نومبر میں اس کی لاش گھر پہنچی تھی۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ جب کوئی ایغور حراستی کیمپ یا جیل میں مرجاتا ہے تو اس کی لاش کو خاندان کے حوالے کرنے کے بجائے جلادیا جاتا ہے۔ یہ نذر آتش کرنے کا چلن چینی جرائم کو دنیا سے مخفی رکھ رہا ہے۔ قیدیوں کے بچے حکومتی یتیم خانوں یا اسکولوں میں بھیج دیے جاتے ہیں جہاں انہیں مذہب سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے اور انہیں اپنی مادری ایغور زبان کی بجائے چینی زبان بولنے اور سیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مدارس اور کارخانے حراستی کیمپوں میں تبدیل کیے جاچکے ہیں۔ مشرقی ترکستان اپنے مسلمان شہریوں کے لئے ایک قید خانہ بن چکا ہے۔ وہاں باقی ماندہ رہائشی آبادی کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ ہن نسل کے حکومتی اہلکار خالی گھروں میں مقیم ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ایغور اپنی دینی رسومات انجام نہ دے سکیں۔ ہزاروں ایغور مسلمان خواتین کو لادین ہن نسل کے چینی مردوں سے زبردستی شادی پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ اگلی ایغور مسلمان نسل سے چھٹکارا پانے کا موثر طریقہ ہے  لیکن بات ختم نہیں ہوئی۔ سوال ہے، پس چہ باید کرد؟ تو کیا اس کا جواب ہے؟ بالکل جواب ہے! اور بڑا موثر جواب ہے!
اسلامی جمہوریہ پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کرہ ارض کے اہم ترین منصوبے میں شراکت دار ہیں۔ عمران خان صرف اتنا کریں کہ چینیوں سے اگلی ملاقات میں معاہدے کی شقوں میں ایک اور کا اضافہ کرائیں۔ شق نمبر فلانی فلانی، زنجیانگ میں چین کے قائم حراستی کیمپ بند کردیے جائیں گے، ایغور آبادی کو مکمل مذہبی آزادی دی جائے گی اور کاشغر اور ارمچی کی مساجد سے پانچوں وقت بلند ہوتی اذان مسلسل فضا کو معطر کرتی رہے گی۔ اس کے بدلے میں پاکستان کا گوادر چینی تجارت کے لئے اپنے بازو کھلے رکھے گا۔ 
 

شیئر: