Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حقیقی نیکی…مکمل تابعداری

 اصل نیکی اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھنا اور اللہ  تعالیٰ کے راستے میں جدوجہد کرنا ہے
***سراج الحق***
قرآن عظیم الشان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے برابر سمجھ لیا ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہے اور جو اللہ کے راستہ میں جدوجہد کرتا ہے، اللہ کے نزدیک یہ لوگ اس شخص کے برابر نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ ظالموں کی راہ نمائی نہیں کرتا۔‘‘
آج سے 14سو سال قبل مکہ میں بھی یہی بات ہوتی تھی کہ ہم جو نیکی کے کام کرتے ہیں یہ بھی کوئی معمولی کام نہیں، ہم اللہ کے مہما نو ں اور انکے اونٹوں اور گھوڑوں کو پانی پلاتے ہیں، انکی خدمت کرتے ہیں، یہ بھی بہت بڑی نیکی ہے لیکن اللہ ربّ ذوالجلال نے فرمایا ہے کہ اصل نیکی یہ نہیں بلکہ اصل نیکی اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھنا ہے اور اللہ  تعالیٰ کے راستے میں جدوجہد کرنا ہے۔ اگر آپ لوگ اپنی نیکیوں کو ان نیکیوں کے برابر ٹھہراتے ہیں تو یہ ہرگز برابر نہیں  بلکہ اللہ  نے ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ اللہ ظالموں کو راستہ نہیں دکھاتا! ۔
اس لئے کہ بندگی کسی جز وکا نہیں بلکہ پوری زندگی میں اللہ رب العالمین کے احکام کو تسلیم کرنے کا نام ہے۔ جس طرح اللہ کافی ہے اسی طرح اس کا دیا ہوا نظام’’ اسلام‘‘ بھی کافی و شافی ہے۔ اللہ ایک اور وحدہ لاشریک ہے  تو اللہ کا دیا ہوا نظام بھی ایک ہے اور اس کے ساتھ بھی کوئی شریک نہیں۔ جس طرح اللہ کیساتھ لات، منات، عزیٰ اور حبل کو شریک ٹھہرانا شرک ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے نظامِ زندگی کے ساتھ دوسرے نظاموں کو شریک کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے نظام پر عدم اعتماد ہے۔ سوشلزم، نیشنل ازم، لبرل ازم ، سیکولر ازم کی طرف دیکھنا اس رویے کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نظام ہمارے لئے پسند کیا ہے اور دیا ہے ہمیں وہ پسند نہیں اور ہمارے مسائل کا اس میں حل نہیں۔ اللہ رب العالمین نے حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو! اسلام کے اندر پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ 
اسلام میں مکمل داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی کام ہو یا اجتماعی اور چھوٹاکام ہویا بڑا، ہر چیز میں آپ شریعت سے اور دین سے رہنمائی لیں۔ یہ اختیار نہ کسی پارلیمنٹ کا ہے نہ کسی پارٹی کا ، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیے ہیں انکو تو وقت کا نبی بھی تبدیل نہیں کرسکتا ۔ اللہ  تعالیٰ نے اگر5نمازوں کا حکم دیا ہے تو کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ 5 نمازیں ادا کرنا تو بہت مشکل ہے چلو آپ گرمی میں2اور سردی میں3 یا 4 پڑھ لو، یہ اختیار کسی نبی کا بھی نہیں ! اللہ تعالیٰ کا کام رہنمائی کرنا ہے اور اس نے زندگی کے ہر معاملے میں انسانوں کی بہترین رہنمائی کی ہے۔ بندوں کا کام بندگی کرنا ہے، انہیں بندگی میں آگے بڑھنا چاہیئے۔ اسی میں بندے کی دنیاوی اور اخروی کامیابی ہے ۔ بندگی کا نظام قرآن حکیم ہے۔ جب ہم دعا کرتے ہیں کہ{ اھدنا الصراط المستقیم}’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے‘‘ تو اللہ رب ذوالجلال کی طرف سے یہی جواب ہے کہ{ ذالک الکتاب لاریب فیہ}’’یہی تو وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے‘‘ {ھدی للمتقین}’’یہ رہنمائی ہے ان لوگوں کیلئے جو اللہ سے ڈرتے ہیں}۔
متقی کون ہیں؟ یومنون بااللہ، یومنون باالغیب، جو غیب پر ایما ن لاتے ہیں، جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ جس طرح غیب پر ایمان لانا لازم ہے اسی طرح نماز کا نظام قائم کرنا ضروری ہے۔نماز کوئی جزوی چیز نہیں ۔خود اللہ رب ذوالجلال نے فرمایا ہے کہ میں جس کو اختیار کا مالک بنائوں، اس کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ نماز کا انتظام کرے گا، نماز صرف پڑھے گا نہیں بلکہ اسے قائم کرے گا اور اس کا ایک نظام بنائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز سب سے بنیادی کام ہے۔ تو ہم کیسے مسلمان ہیں، گھر میں اس بات پر تو مشاورت ہوتی ہے کہ آج کیا پکایا جائے؟ دال، سبزی، گوشت۔ کون سے کپڑے خریدیں اور پہنے جائیں، کہا ں جایا جائے، کس سے ملا جائے اور کہاں جانا اور کس سے ملنا مناسب نہیں مگر کبھی یہ بات نہیں ہوتی کہ اپنی نمازوں کو کس طرح بہتر اور اللہ کی پسندیدہ نمازیں بنائی جائیں۔
ہم یہ تو کرتے ہیں کہ اس عید پر کون سی قربانی کرنی ہے؟ بکرا، گائے، مینڈھا …کیا قربان کرنا ہے۔ سب مشورہ ہوتا ہے مگر گھر جو چھوٹی سی پارلیمنٹ ہے اور جس کے ہم بادشاہ ہیں،{کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ}’’تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کسی سے اس کی رعایا کے  بارے میں سوال ہوگا‘‘۔ اس گھر کے ایجنڈے میں بھی کہیں یہ بات نہیں ہوتی کہ نمازوں کی بہتری کیلئے کیا کیا جائے  اسی لئے صبح کی نماز میں بزرگ تو ہوتے ہیں نوجوان نہیں ہوتے۔ بزرگ اٹھ کر مسجد آجاتے ہیں لیکن نوجوانوں کو لوگ نہیں اٹھا تے  اور ہمارے ہاں یہ بات بھی مشہور ہے کہ نوجوان ہے سویا ہے تو چلو اُسے سونے دیں!۔
لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے بیٹے نماز پڑھو۔ قرآن کوئی کہانی نہیں، یہ تو اس لئے ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے بیٹے اور بیٹی کو نماز پڑھنے کا پابند بنائے۔ سیدنا عیسیٰ ابن مریم       علیہاالسلام اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نماز کا نظام قائم کروں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے نماز کا حکم دیا اور اس کا ایک نظام بنانے کا حکم دیا، اسی لئے ہر مسلمان کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے گھر اور معاشرے میں نماز کا انتظام کرے۔ 
کسی باپ کو یہ خیال نہیں آتا کہ اپنے بچوں کو اکٹھا بٹھا کر پوچھے کہ آج کس نے پانچوں نمازیں پڑھی ہیں؟ اور جماعت کے ساتھ کتنی نمازیں ہوئیں؟ حکمران کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ نمازوں کا نظام بنائے۔میں نے تو اپنی زندگی میں اس طرح کا کوئی حکمران نہیں دیکھا جو لوگوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلائے۔راقم  جب 2002 میں خیبر پختونخوا کا پہلی مرتبہ وزیر خزانہ بنا،  دیکھا کہ جمعہ کے روز بھی سول سیکریٹریٹ جہاں ہزاروں ملازمین ہیں کی مسجد میں سوائے چوکیداروں اور چھوٹے ملازمین کے کوئی نہیں آتا۔ میں نے مسجد میں خطبہ جمعہ دینا شروع کردیا۔میںنے  دیکھا کہ اسی مسجد میں 20,19,18 ویں گریڈکے آفیسرز پہلی صف میں کھڑے نظر آتے۔ وہی مسجد نمازیوں کیلئے تنگ پڑ گئی۔ہم نے دو بار اس میں توسیع کی مگر نمازی اتنی بڑی تعداد میں آنا شروع ہوگئے کہ ہمیں دوسری مسجد تعمیر کرنا پڑی اور پھر اس میں بھی توسیع کی گئی۔ پہلے وہی افسر جن کی نظر میں نماز کی کوئی اہمیت نہ تھی، آج پہلی صفوں میں جگہ پانے کیلئے دوسروں سے پہلے آتے ہیں۔ اسلامی حکومت کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ نماز کا انتظام کرے۔ حضورنے اپنی زندگی میں سیدنا ابو بکر صدیق       ؓ  کو اپنے مصلیٰ پر کھڑا کرکے یہ اشارہ دیدیا تھا کہ میرے بعد امورِ حکومت کون سنبھالے گا؟ آپ نے کوئی اعلان نہیں کیا تھا کہ میرے بعد حکومت ابو بکر صدیقؓ   کے ہاتھ میں ہوگی مگر امامت کیلئے آگے کرنا اس بات کا واضح اظہار تھا کہ جو امام ہوگا وہی حکمران ہوگا۔ سیدنا عمر فاروق ؓ کو نماز پڑھاتے ہوئے شدید زخمی کیا گیا،انہی زخموں کی وجہ سے وہ شہادت پاگئے۔ اسی طرح سیدنا علیؓ  کو بھی اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ مسجد کی طرف نماز پڑھانے کیلئے جارہے تھے، یعنی مسلم حکمران کا بنیادی تعلق ہی مسجد اور منبر و محراب سے ہوتا ہے۔
یہ تو کل کی بات ہے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ کا انتقا ل ہوگیا۔ انہوں نے اپنے انتقال سے قبل وصیت لکھی تھی۔جب وہ وصیت پڑھی گئی تو ان بزرگ نے لکھا تھا کہ میری نماز جنازہ ایسا شخص پڑھائے جس کی کبھی تہجد کی نماز قضا نہ ہوئی ہو! اس پر حاضرین پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ کچھ دیر بعد سلطان الہند شمس الدین التمش آگے بڑھے اور نماز جنازہ پڑھائی اور کہا کہ یہ میرے اور میرے اللہ کے درمیان راز تھا مگر آج ان بزرگوار نے یہ راز فاش کردیا۔ یہ تو تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان بھی ہو اور نماز نہ پڑھے اور مسلمانوں کا حکمران ہوکر نماز نہیں پڑھے گا…لیکن افسوس کہ آج ہمارے پروگرام میں نماز شامل نہیں ، وہی نماز جسے شریعت نے حالت جنگ میں ساقط نہیں کیا اور حکم دیا گیا کہ جنگ کے دوران تم میں سے ایک جماعت دشمن کو روکے اور دوسری جنگ کی صفوں سے باہر نکل کر نماز کی صفیں باندھے اور نماز پڑھے اور پھر اپنے دوسرے ساتھیوں کو اسی طرح نماز پڑھنے کا موقع دے لیکن اب یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے۔
جب راقم نے اسلام آباد کے ایک پروگرام میں کہا کہ میں وہ دن دیکھنا چاہتا ہوں جب پاکستان کے چیف جسٹس کی میز پر قرآن کریم عظیم الشان فیصلوں کی کتاب کے طور پر رکھا ہو، جب ملک کا وزیر اعظم اذان کہے اور صدر مملکت امامت کیلئے آگے بڑھے، سب لوگوں نے میری طرف حیرانی سے دیکھا! یوں لگا کہ جیسے میں نے مریخ پر جانے کی بات کردی ہو!! نماز کے بغیر مسلمان کا کوئی تصور نہیں ۔نماز اجتماعیت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، اس میں احتساب اور مساوات کا درس ہے، اسی میں سیاست کا سبق ہے کہ کس کو امام بنایا جائے، وہ جو متقی اور پرہیز گار ہواور نماز قائم کرنے والا ہو۔ اس میں یہ بھی سبق ہے کہ اگر آپ نے امامت صغریٰ کیلئے عالم دین کو امام بنایا ہے تو امامت کبریٰ میں بھی ہر صورت عالم ِدین ہی کو امام بنایا جائے گاجبکہ یہاں تو ایسے لوگوں کو وزیر بنا دیا جاتا ہے جنہیں سورۂ اخلاص تک نہیں آتی۔
ہمارے رہنما مسلمان کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ ایک قانونی مسلمان ہوتا ہے اور ایک حقیقی۔ قانونی اور نسلی مسلمان وہ ہے جس کے شناختی کارڈ پر مسلمانوں جیسا نام ہو، ایسے ہی جیسے، جٹ کا بیٹا جٹ، گجر کا بیٹا گجر، بلو چ کا بیٹا بلوچ اور پٹھان کا بیٹا پٹھا ن ہوتا ہے، اسی طرح مسلمان کے بیٹے کو مسلمان سمجھ لیا جاتا ہے۔ اسے وہ تمام شرعی، قانونی، اخلاقی اور معاشرتی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں۔میراث تقسیم ہواور تمدنی روابط وجود میں آئیں لیکن اسلام ایک عقیدے اور عمل کا نام ہے اور آخرت میں انسان کی نجات،اس کا مسلم و مومن قرار دیا جانا اور اللہ کے مقبول بندوں میں شمار ہونا اس قانونی اقرار پر مبنی نہیں ہے بلکہ وہاں اصل چیز آدمی کا قلبی اقرار، اس کے دل کا جھکائو اور اس کا برضا و رغبت اپنے آپ کو کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے حوالے کردینا ہے۔ یعنی ’’اے محمد    کہو !میری نماز اور میرے تمام مراسمِ عبودیت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ کیلئے ہے جو ساری کائنات کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیںاور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں اس کی اطاعت میں سر تسلیم خم کرتا ہوں ‘‘ ( الانعام  163,162)۔
حضور  اکرم کے اس ارشاد گرامی سے اس آیت کی تشریح ہوتی ہے:
’’جس نے کسی سے دوستی و محبت کی تو اللہ تعالیٰ کیلئے اور دشمنی کی تو   اللہ تعالیٰ کیلئے کی اور کسی کو دیا تو   اللہ تعالیٰ کیلئے دیا اور کسی سے روکا تو  اللہ تعالیٰ کیلئے روکا، اس نے اپنے ایمان کوکامل کرلیا یعنی وہ پورا مومن ہوگیا  ۔‘‘

شیئر: