Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیر ملکی کارکنان پر فیس اور سعودائزیشن کے پروگرام

عبدالمجید العمری ۔ الاقتصادیہ
2ہفتے قبل وزارت محنت و سماجی بہود نے متعدد ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اس اطلاع کی تردید تو کردی جس میں کہا جارہا تھا کہ غیر ملکیوں پر مرافقین فیس اور تارکین فیس ختم کردی گئی ہے۔ وزارت محنت نے اس کی تردید یہ کہہ کر کی کہ یہ ا طلاع درست نہیں اور صحیح اطلاع سرکاری ذرائع سے حاصل کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ وزارت محنت کی اس تردید کے باوجود گزشتہ دنوں بین الاقوامی خبررساں اداروں تک نے اس اطلاع کو بڑے پیمانے پر شائع کیا اوراس اطلاع پر بحث مباحثے کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
ممکن ہے تارکین فیس اور انکے مرافقین اور تابعین پر لگائی جانے والی فیس پر نظر ثانی ہورہی ہو۔ اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اکثر سرکاری ادارے کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد کے ایک عرصے بعد فیصلے کے مثبت ، منفی پہلو جاننے، سمجھنے کیلئے نظر ثانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ضروری ترامیم بھی کی جاتی ہیں۔میرا خیال ہے کہ نظر ثانی کرتے وقت یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ جن مقاصد کے تحت تارکین اورانکے تابعین و مرافقین پر فیس لگائی گئی آیا وہ مقاصدپورے ہوئے یا نہیں۔ فیس سے قومی اقتصاد کو کیا ملا اور اسے کیا نقصان ہوا۔ یہ سارے پہلو مد نظر ضرور رکھے جائیں۔
میرا خیال ہے کہ تارکین او رانکے مرافقین پر فیس کا جائزہ سعودائزیشن کے پروگراموں کے تناظر میں لیا جائے۔ گزشتہ دنوں سعودائزیشن کے پروگراموں پر کافی کچھ کہا ، لکھا اور سنا گیا۔اس سلسلے میں انتہائی اہم بات جو کہی اور دہرائی گئی وہ یہ ہے کہ سعودائزیشن کے پروگراموں میں ملازمتوں اور مختلف سرگرمیوں کے درمیان فرق کیا جانا تھا جو نہیں کیا گیا۔ زیادہ زور اس بات پر رہا کہ نجی اداروں اور کمپنیوں میں زیادہ سے زیادہ سعود ی ملازم تعینات کرادیئے جائیں۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ نجی اداروںکے مالکان نے سعودائزیشن کے پروگرام کے تقاضو ںکو بالائے طاق رکھ کر فرضی سعودائزیشن کا بازا ر گرم کردیا۔
سوشل انشورنس جنرل کارپوریشن نے سال رواں کی تیسری سہ ماہی تک اعدادوشمار جاری کرکے بتایا کہ سال رواں کے شروع سے لیکر اب تک 9.8فیصد غیر ملکی کارکنان کم ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سعودی کارکنان کی تعداد میں 3.4فیصد کمی واقع ہوئی۔ تفصیلات دیکھنے سے پتہ چلا کہ ایسے غیر ملکی ملازم کثیر تعداد میں کم ہوئے ہیں جو انتہائی معمولی تنخواہوں پر کام کررہے تھے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ماہانہ 3ہزا ر ریال او ر اس سے کم تنخواہ پانے والے کارکنان زیادہ تعداد میں بیدخل کئے گئے ہیں۔بیدخل کئے جانے والے تارکین میں انکا تناسب 97فیصد تک کا ہے۔تفصیلات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ 3001 سے 4999ریال ماہانہ اجرت پانے والے غیر ملکی کارکنان جنہیں بیدخل کیا گیا ہے انکا تناسب 3.7فیصد سے زیادہ نہیں جبکہ 5ہزار سے 9999 ریال ماہانہ تنخواہ پانے والے ان تارکین کا تناسب جنہیں روزگار سے نکالا گیا 2.5فیصد کے اندر ہے۔10ہزار ریال اور اس سے زیادہ تنخواہ پر کام کرنے والے ان غیر ملکیوں کا تناسب جن کی چھٹی کی گئی 0.2فیصد ہے۔
مذکورہ نتائج سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ سعودائزیشن کے پروگرام ڈیزائن کرتے وقت ایسی پالیسی اپنانا ہوگی جس کے تحت درمیانے اور اعلیٰ تنخواہ پانے والی اسامیوں کی سعودائزیشن ہو۔ موجودہ فیس پروگراموں میں اس پہلو کو مدنظر نہیں رکھا گیا ۔ آئندہ اسی کو پیش نظررکھنا ہوگا۔ ہماری سوچ یہ ہے کہ تارکین فیس غیرملکیوں کو دی جانے والی ماہانہ تنخواہ کے اعتبار سے مقرر کی جائے۔ مسئلے کا ایک اہم حل یہی ہے۔
تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ 800ریال ماہانہ پانے والے غیر ملکی کارکن ہی زیادہ ہیں اوریہ تارکین مملکت میں جو کام کررہے ہیں ان پر سعودیوں کی تقرری بہت مشکل ہے۔ تارکین فیس اعلیٰ تنخواہ پانے والے غیر ملکی ملازمین پر انکی تنخواہ کے اعتبار سے لگائی جائے۔ فی الوقت ان سے جو فیس لی جارہی ہے وہ انکی تنخواہ کا 1.0فیصد سے بھی زیادہ نہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہی وہ اسامیاں ہیں جن میں سعودائزیشن کی شرح انتہائی معمولی ہے اور یہی وہ ملازمتیں ہیں جن پر سعودی خواتین و حضرات فائز ہونا چاہتے ہیں۔ رائج الوقت تارکین فیس مذکورہ ملازمتوں پر سعودیوں کی تقرری کرانے میں ناکام ثابت ہوچکے ہیں حالانکہ ان عہدوں کیلئے اہل سعودی خواتین و حضرات موجود ہیں۔ ان عہدوں پر غیر ملکی چھائے ہوئے ہیں۔
فیس نظام اسی صورت میں موثر ثابت ہوگا جب تارکین فیس تنخواہوں سے مربوط کردیا جائے۔ مثال کے طور پر معمولی تنخواہوں والے کارکنان کو دی جانے والی اجرت کا 10تا 15فیصد بطور فیس وصول کیا جائے۔ یہ وہ ملازمتیں ہیں جو سعودیوں کیلئے موزوں نہیں۔ اوسط اور اعلیٰ تنخواہ والی اسامیوں پر 25تا 30فیصد فیس وصول کی جائے۔ ایسا کرنے سے نجی اداروں پر دباﺅ بڑھے گا اور وہ اوسط اور اعلیٰ درجے کی اسامیوں پر غیر ملکیوںکے بجائے سعودیوں کی تقرری کی فکر کریں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: