Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ندامت کے بجائے جھگڑے

ٹریفک قوانین پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف خود کی حفاظت کی جاسکتی ہے بلکہ دوسروں کے جان و مال کو بھی محفوظ بنایا جاسکتا ہے
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
ٹریفک قوانین کی پاسداری ہر شہری کا اخلاقی فریضہ ہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد۔ ٹریفک قوانین پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف خود کی حفاظت کی جاسکتی ہے بلکہ دوسروں کے جان و مال کو بھی محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ لوگ لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی جانیں خطرات سے دوچار کردیتے ہیں۔ غلط سمت سے آنا، ٹریفک سگنلز توڑنا، اوور ٹیکنگ وغیرہ عام رجحان ہے۔ یوں تو ٹریفک کی روانی میں مختلف رکاوٹیں نظر آتی ہیں لیکن رکشہ ڈرائیور کسی بھی بات کی پروا نہیں کرتے جہاں منہ اٹھتا ہے جاگھستے ہیں۔ جب دل چاہتا ہے فوری بریک لگا دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ پیچھے آنے والی گاڑیاں کتنی رفتار سے آرہی ہیں۔ دوسری جانب موٹر سائیکل چلانے والوں کو اگر فسادی مخلوق کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان کیلئے ہر کام جائز ہے جہاں چاہئیں ، جیسے چاہئیں اپنی موٹر سائیکل اچھالتے، اڑاتے چلے جاتے ہیں۔
بڑی اور لگژیاں گاڑیاں چلانے والے بھی کچھ زیادہ مہذب نہیں ہوتے۔ چلتی گاڑی سے کوڑا سڑک پر پھینک دینا ایک عام عادت ہے۔ یا پھر کھڑی کا شیشہ نیچا کرکے پان کی پچکاری کا اسپرے کردینا انہیں کچھ غلط محسوس نہیں ہوتا۔ کسی سڑک یا گلی سے گزرتے ہوئے اگر پانی کھڑا ہو تو اس میں سے بھی اس تیزی سے اپنی گاڑی گزارتے ہیں جیسے کسی ہائی وے سے گزر رہے ہیں۔ نتیجتاً آس پاس موجود افراد ان کی اس حرکت سے گندے پانی میں نہا جاتے ہیں، لیکن گاڑی والا اس بات سے بے پروا وہاں سے نودو گیارہ ہوچکا ہوتا ہے۔ نوجوانوں میں موٹر سائیکل ون ویلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان بھی انتہائی خطرناک ہے۔ آئے روز کئی نوجوان اس بھیانک کھیل کی نذر کردیتے ہیں۔ ان نوجوانوں کے والدین ، سرپرست اور اساتذہ اگر ان کی بہتر رہنمائی کریں تو وہ اس قبیح فعل سے باز رہ سکتے ہیں۔
دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ لاہور کی سب سے اہم شاہراہ مال روڈ کی ہے جہاں پنجاب اسمبلی کی عمارت ہے۔ اس سڑک پر مختلف گاڑیاں ، گدھا گاڑی اور تانگہ وغیرہ لے جانا منع ہے، اس کے باوجود قانون توڑنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ تصویر میں ایک گھوڑا گاڑی کو اس سڑک سے گزرتے دکھایا گیاہے ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ گھوڑے کی لگام خاتون نے تھام رکھی ہے برابر میں دوسری خاتون براجمان ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خاتون کے ایسا کرنے سے قانون شکنی نہیں ہوتی؟ قانون کے رکھوالوں نے انہیں کیوں نہیں پکڑا ؟
مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر نادم ہونے کے بجائے ڈرائیور حضرات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ یا پھر موقع پر ہی کچھ لے دے کر معاملہ ختم کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو بھی گاڑی چلا رہا ہے اسے ٹریفک قوانین سے مکمل آگہی ہو۔ پیدل چلنے والوں کو موقع دیا جائے، ایمبولینس یا دیگر ایسی ہی ایمرجنسی گاڑیوں کا راستہ نہ روکا جائے۔ ٹریفک سگنل جب بند ہوتو وہاں سے نہ گزرا جائے۔ مقررہ رفتار سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اسی طرح کی دیگر باتوں کو ڈرائیور حضرت ہمیشہ مقدم رکھیں۔ 
دوسری طرف بے ہنگم ٹریفک نے لوگ کو ایک طرح سے ذہنی مریض بنا دیا ہے تو دھواں چھوڑتی گاڑیوں نے ماحول تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ احترام ِٹریفک کہیں نظر نہیں آتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قانون توڑنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ قانون پر عمل کرنے کو توہین سمجھا جاتا ہے۔ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن حادثات ہوتے ہیں جن میں نہ صرف قیمتی گاڑیاں اور دیگر املاک تباہ ہوتی ہیں۔ لوگ جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ٹریفک حادثات میں زخمی ہوکر زندگی بھر کیلئے محتاج ہوجانے والوں کی بھی طویل فہرست ہے۔ یہ تمام باتیں ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: