Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین خاموش رہ کر حالات سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور

وطن میں قانون کو تو ڑنا اب فیشن بن چکا ،با اثر افراد جب اپنی شان کا ا ظہار قانون تو ڑ کر کرتے ہیں تو غریب کو کس نے پو چھنا ہے ؟ 
 تسنیم امجد ۔ریا ض
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری خواتین نا قا بلِ تسخیر صلا حیتوں کی ما لک ہیں ۔گھر کے اندر اور با ہریہ سنوار میں مگن رہتی ہیں ۔آج جب انہیں کسی حد تک آ زادی مل چکی ہے ،یہ مردوں کی ذمہ دار یا ں بھی خو شی خو شی سنبھا لتی ہیں۔دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر اس کے اسی جذ بے کی عکاس ہے ۔انہیں قوانین کا کسی نہ کسی حد تک علم ضرور ہو گا لیکن مجبوریاں سب کچھ بھلا دیتی ہیں ۔عورت کو اللہ تعالیٰ نے محبت ،نر می اور عقل و علم کے ا حساسات سے مالا مال کیا ہے اسی لئے وہ خاندان کی ضروریات کی تکمیل کیلئے کمر بستہ رہتی ہے ۔ بساط سے بڑ ھ کر کام کرتی ہے ۔اس کی سوچ دو وقت کی رو ٹی تک محدود ہے ۔اس کی وجہ معا شرے کی بے حسی ہے ۔دینِ اسلام نے اس کے حقوق و وا جبات بحال کئے اور اس کا رتبہ اتنا بلند کر دیا کہ غیر مسلم خواتین رشک کر نے لگیں ۔افسوس ہمارے مردوں نے اس سے غلط فا ئدہ ا ٹھاتے ہوئے اسے اس کی استطاعت سے زیادہ ذمہ داریاں سو نپ دیں ۔اس کو مغر بی معا شرے کی تصویر کا ایک ہی رخ دکھا یا گیا کیونکہ دوسرے رخ میں وہ اپنی آ زادی سے خوش نہیں ۔ وہ اپنی بے وقعتی پر آ نسو بہاتی ہے ۔اسے گھر اور باہر کہیں عزت نہیں ملتی۔وطنِ عزیز میں مسائل کا رونا ہے لیکن منظم انداز میں ان کا حل تلاش نہیں کیا جاتا ۔ہماری خواتین خاموش رہ کر حالات سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں ۔
اک پیار ہے ،ممتا ہے ،محبت ہے فقط بس
ہم نے  تو زندگی سے گز ر کر یہی  سیکھا
اس میں کوئی شک نہیں کہ شہری آ زادی کا تحفظ صرف قوا نین سے ممکن ہے ا ور اس کے صحیح نفاذ کی ذمہ داری حکومت پر ہے ۔ قوانین تو ڑنے والوں کیلئے ادارے مو جود ہیں۔پولیس اور عدالتیں ہوتے ہوئے مسائل گمبھیر کیوں ہیں ؟کہیں نہ کہیں خرابی ضرور ہے ۔انسانی زندگی ار زاں ہو چکی ہے ۔ٹریفک حادثات کی شرح بڑ ھ رہی ہے ۔جرم کی سزا فوری نہ ہونے سے سبھی جا نتے ہیں کہ بچ بچا کا را ستہ نکل ہی آ ئے گا  ٹریفک پولیس بھی اپنی ڈیوٹی سے نظریں چراتی ہے ۔مک مکا بھی خوب چلتا ہے جبکہ ان کی شخصیت بے دا غ ہو نی چا ہئے ۔قانون کی حکمرانی  تمام مسائل کا حل ہے ۔میڈیا کا کردار بھی نظام کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔اس سلسلے میں ٹاک شوز ہو نے چا ہئیں۔عوام کو شعور دلانے کیلئے مسلسل کا وشیں ہو نی چا ہئیں ۔قطرہ قطرہ دریا کی حیثیت رکھتا ہے ۔ورکشاپس کا انعقاد بھی ضروری ہے ۔اس سے نا خواندہ طبقہ بھی سیکھ لے گا ۔ایک جمہوری حکومت کا اولین فرض انصاف اور قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری ہے ۔جہاں معاشرہ طبقوں میں بٹا ہو وہاں ان کا نفاذ بھی بٹا ہوتا ہے ۔آبادی کا بیشتر حصہ تو قانون کو جا نتا بھی نہیں۔محکمہ پولیس اپنی لا تعداد کمزوریوں کی وجہ سے بدنام ہو چکا ہے ۔شاید ان کی تر بیت صحیح بنیادوں پر نہیں ہو پا تی ۔قانون کی ابتری سے یوں لگتا ہے ،بہتی گنگا میں سبھی ہاتھ دھو نا چا ہتے ہیں ۔پولیس والے خود قانون تو ڑتے ہیں۔اکثر دیکھنے میں آ تا ہے کہ پا بندیوں کے باوجود پولیس والے سول لباس لیکن سرکاری با ئیک پر پورے خاندان کے افراد کے ساتھ جا رہے ہوتے ہیں۔انہیں اپنی عزت کا بھرم رکھنا بھی نہیں آ تا ۔ا ختیارات کا نشہ انہیں قا نون کا ا حترام بھلا دیتا ہے ۔یہ خود کو خواص سمجھنے لگتے ہیں ۔ہمارے ہاںسیکیور ٹی  سول انتظامیہ کے تحت ہے جس کی وجہ سے بھی سر کاری اہلکار کئی معاملات میں بے بس ہو جاتے ہیں  ۔نئے بھرتی ہونے والے جس عزم کو لے کر آ تے ہیں۔انہیں بھی ملاوٹ کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔سول انتظامیہ کی کالی بھیڑیں اپنے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ان کو غلط را ستے پر مجبور کرتی ہے ۔وہ مجبوراًان کے حکم پر چلنا شروع کر دیتے ہیں ۔
پولیس اور عوام کے درمیان چوہے بلی کا کھیل کھیلا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قانون شکنی ہماری جڑوں میں بیٹھ چکی ہے ۔کاش یہ حقیقت ہماری سمجھ میں آ جائے کہ کچھ قدریں معا شرتی استحکام اور ملک کے نا موس کیلئے بہت اہم ہو تی ہیں ۔کسی ایک محکمے کی بد عنوانی کا فوری نو ٹس لینا بقیہ کیلئے مفید رہتا ہے ۔بالکل ایسے ہی جیسے عمارت میں کسی ایک کمرے کی چھت ٹپکنے لگے تو اس کی فور ی مرمت کی جاتی ہے ۔پوری عمارت کی چھتوں کے ادھڑنے کا انتظار نہیں کیا جاتا ۔قانون نا فذ کرنے والوں کو یہ سمجھ آ نی چا ہئے کہ مملکتِ پا کستان کا ان سے رو حانی تعلق ہے اور اسی سوچ پر ان کی کار کردگی ہونی چا ہئے ورنہ عوام لا پرواہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔احتساب کا فقدان نا اہلوں کو پروان چڑ ھاتا ہے جو جمہوریت پر ضرب ہے ۔وطنِ عزیز کو اجتماعی قر بانیوں کی ضرورت ہے ۔نظام کو بہتر کرنے کیلئے کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہوتی جو جھٹ پٹ سب کچھ درس کر دے ۔اس کیلئے طویل جدو جہد درکار ہے ۔70 سالہ بگاڑ اب درست ہو جا نا چا ہئے ۔’’ فر عون بے سامان بننا انسا نیت کی تو ہین ہے ‘‘۔ وطن ایک نظر یاتی مملکت ہے جس میں ا ختیارات و فرا ئض اللہ کے دیئے ہوئے قوانین کے مطابق ہی ہونے چا ہئیں۔ ان مسائل کا ایک حل غربت کی دوری ہے ۔بے روزگاری اور پیٹ کی آگ ہی جرائم کی جڑ ہے ۔سو چو ں میں تشدد بھی اسی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔معا شرتی انتشار کی بہتری کیلئے پھر کوئی را ستہ نہیں رہتا ۔تیسری دنیا میں سب کو ایک ہی لا ٹھی سے ہا نکنے کی ریت عام ہو چکی ہے ۔ہمارا معاشرہ جس تیزی سے انحطاط پزیر ہو رہا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ خاکم بد ہن ہم اپنے گرد جنگل کا قانون دیکھنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔وطن میں قانون کو تو ڑنا اب فیشن بن چکا ہے ۔با اثر افراد جب اپنی شان کا ا ظہار قانون تو ڑ کر کرتے ہیں تو غریب کو کس نے پو چھنا ہے ؟شاید ان کی یہی بہادری ہے ۔جو جتنا بڑا ہو گا اُتنی ہی قا نون شکنی کرے گا ۔کیا خوب کہا گیا ہے کہ:
  ’’قا نون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات ہی پھنستے ہیں۔بڑے جا نور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں ‘‘
مختصر اًیہی کہیں گے کہ سرِ عام قانون شکنی کرنیوالوں کو بلا امتیاز سزا ملنے لگے گی تو یقینا حالات سنبھل جا ئیں گے ۔سبھی ہزار بار سوچیں گے ورنہ قانون اشرا فیہ کے گھر کی با ندی بن جا ئے گی ۔حکومت کو اس سلسلے میں تحریک کی صورت میں اقدام کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: