Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان سی پیک سے فائدہ اٹھا سکے گا؟

کراچی (صلاح الدین حیدر) بلوچستان سی پیک کا حصہ ہے کہ نہیں؟ سوال سے حیرت تو ہوگی لیکن کیا یہ عجیب اتفاق نہیں کہ بلوچستان کے جو حصے چین پاکستان راہداری کا مرکز و محور تھے وہ آج تک شک و شبہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ پہلے تو لوگوں کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اس 67 بلین ڈالر منصوبے کے خالق تھے۔ بعد میں یہ بات بھی سامنے آئی دراصل اسے آصف زرداری نے اپنے دور صدارت میں تجویز کیا لیکن حکومتی ریکارڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس منصوبے کا خیال سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف نے تخلیق کیا تھا۔ جب موضوع زیر بحث اس قدر متنازع ہو تو پھر سرکاری ریکارڈ کو چھاننا ہی پڑتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ راہداری ایک لمبی چوڑی سڑک یا پٹی اور بہت ساری دوسری سڑکوں پر محیط ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ایک بنیادی رکن سعید احمد ہاشمی نے سارے نقشے اور منصوبے کی تفصیلات کی تحقیق کرنے کے بعد دعویٰ کیا کہ دراصل سی پیک کے4 مختلف حصے ہیں۔ مشرقی، مرکزی اور مغربی علاقوں پر محیط حصے جنہیں کئی طریقوں میں بنایا گیا ہے۔ جنوبی کمانڈ گوادر کی بندرگاہ سے شروع ہوکر بسیما پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس کے آگے یہ منصوبہ 3 حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ یہ سارے مراکز دوبارہ شمالی علاقہ جات میں برہان پر ملتے ہیں جہاں سے ایک شمالی حصہ شروع ہوتا ہے جو تھاکوٹ اور خنجراب یعنی پاک چین سرحد پر ختم ہوتا ہے۔ شو مئی قسمت دیکھئے کہ مرکزی حکومت گودار، ہوش، سراب روڈ کو نقشوں اور پلان میں مغربی حصے کا نام دیتی ہے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ سڑک واحد اہم شاہراہ ہے جو کہ گوادر میں 5 سال پہلے بنی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایک سڑک نہ تو مغربی علاقے کا حصہ ہے نہ اسے کہیں بھی راہداری کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ موجودہ حکومت اسے مغربی حصے دکھانے پر اس لئے مصر ہے کہ اس کے سیاسی اثرات بہت دور رس نتائج کے حامل ہوں گے۔ بسیما اور برہان کے درمیان یہ مغربی حصہ خضدار، سکھر، ملتان، لاہور سے گزرتا ہے لیکن اب اسے 500 کلومیٹر مختصر کردیا گیا ۔ 2015ءکے ایک اجلاس میں اس وقت کے وزیراعظم کی صدارت میں فیصلہ کیا گیا کہ مغربی حصہ سب سے پہلے بنے گا۔ 2030-2014ءکی مدت میں پورا ہونے والا یہ حصہ 2015ءمیں تجویز کیا گیا ہے۔ اسے مختصر، درمیانی اور طویل مدت کے دوران مکمل کیا جانا تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایک ایکسپریس وے برہان سے ڈیرہ اسماعیل خان پھر سراب براستہ ژوب اور کوئٹہ سے ہوتی ہوئی 4 لین کی طویل سڑک 2020ءتک بنانا مقصود تھا۔ بعد میں اس منصوبے میں کچھ تبدیلیاں ہوتی گئیں اور کبھی طویل مدتی منصوبے سے نکال کر دوسرے منصوبے میں شامل کیا گیا تو کبھی کسی اور منصوبے میں۔ مقصد سارا یہ تھا کہ ملک کے چاروں صوبوں کو ان کی خواہشات کے مطابق برابری کے لحاظ سے راہداری میں شامل کر کے ہر ایک علاقہ کو جائز حقوق مل سکے۔ 2013ءسے اب تک 5 سال گزر گئے جب اس منصوبے پر دستخط ہوئے تھے اور آج تک یہ بحث مباحثہ سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔ چینی حکومت میں تو درمیان میں عاجز آکر اس کی فنڈنگ روک دی تھی۔ ژوب، کوئٹہ اور سراب کو جو سب بلوچستان کا حصہ ہیں اب تک سی پیک میں شامل نہیں کیا گیا ۔ یہ ناقدری نہیں تو اور کیا ہے؟ پچھلے ایک سال سے اس کےلئے مختص رقم چین سے موصول نہیں ہوئی۔ قصہ مختصر یہ کہ جو کچھ شروع میں عوام کو بتایا گیا تھا اس میں خیانت کی بو آتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کہیں ایک اچھا خاصا منصوبہ جس کی تکمیل سے پاکستان کو بیش بہا فائدہ ہوگا، بدنصیبی کی نظر نہ ہوجائے۔ 
 

شیئر: