Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ابٹن ملائی، مہندی لگائی،جوتا چھپائی،ڈولا رکائی، قلاش کر دینے والی رسومات

ابو غانیہ۔جدہ

پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں شادی کرنا جوئے شیر لانے سے کسی طور کم نہیں۔انجام کار ایک نیا گھر تو آباد ہو جاتا ہے مگرایک جانب دلہن کے غریب والدین اور دوسری طرف بے چارہ دولہا،قلاش ہو جاتا ہے۔ شادی شدہ زندگی کے روز اول سے ہی مقروض دولہا کے کانوں میں قرض خواہوں کے تقاضوں کی آواز گونجنے لگتی ہے۔یوں شادی کی خوشیوں کو ایک طرح کا گہن لگنا شروع ہوجاتا ہے اور دولہا، اپنی دلہن کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ یہی وہ ہستی ہے جس کو گھر لانے کے باعث اسے ذہنی تناؤ اور کرب سے گزرنا پڑ رہا ہے۔اگر دولہا اِدھر اُدھرکی کمائی کا عادی ہو تو جلد ہی قرض سے نجات پالیتا ہے لیکن اگروہ ’’ایماندار‘‘ہو توصورتحال مختلف ہوتی ہے اور گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس دولہا کے بیٹے برسرروزگار ہونے کے بعد اپنے ابا کی شادی کا قرضہ چکاتے ہیں۔
درحقیقت ہمارے معاشروں میں شادی کی بے جا اور بے بنیاد رسمیں رائج ہیں جن میں ابٹن ملائی، مہندی لگائی، دلہن بنائی،جوڑا پہنائی، جوتا چھپائی،ڈولا رکائی اور منہ دکھائی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کچھ خودساختہ اور بے مقصد اطوار ہیں جنہیں ’’لوازمات‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے مثلاًدلہن کے ہمراہ ’’ساتھ والی‘‘کو بھیجا جاتا ہے۔دولہا کے ساتھ شہ بالاموجود ہوتا ہے۔شادی کے اگلے روز چوتھی،لڑکی والوں کی جانب سے دلہن کا ناشتہ وغیرہ بھی اخراجات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔جہاں تک ملبوسات کا تعلق ہے تو ان کی بھی کئی اقسام ہیں جن میں ابٹن،مہندی، شادی،شاہانے اور چوتھی کے جوڑے شامل ہیں۔جوڑوں کی فہرست میں بعض ایسی رسوم بھی ہیں جن کے تحت دولہا اور دلہن کے والدین، بہن بھائیوں اور بھابیوں وغیرہ کو بھی جوڑے دیئے جاتے ہیں۔
ان تمام فضول اور لا یعنی رسموں کی تکمیل کے بعد دونوں خاندانوں کے ناقدین،جن میں غالب اکثریت خواتین کی ہوتی ہے، تبصرے شروع کر دیتے ہیں۔کوئی بری میں عیب نکالتا ہے تو کوئی جہیز میں دی جانیوالی چیزوں کو ناقص اور غیر معیاری قرار دیتا ہے۔ساتھ والی جب دلہن کا پیچھا چھوڑ کر گھر پہنچتی ہے تو وہ دولہا کے اہل خانہ اور ان کے رہن سہن کے انداز و اطورا میں کیڑے نکالنا شروع کرتی ہے اور لڑکی کے والدین سے کہتی ہے کہ تم نے اپنی ’’پھول سی معصوم‘‘بچی کی قسمت پھوڑ ڈالی۔اسے کن ’’جنگلیوں‘‘میں جھونک دیا۔ہماری بچی اتنی پیاری ہے،اس کے لئے رشتوں کی کونسی کمی تھی جو آپ لوگوں نے چھان پھٹک کئے بغیر ہی کسی بوجھ کی مانند بیٹی کو گھر سے رخصت کر کے جان چھڑائی؟لڑکی کے گھر والے اور خصوصاًوالدین جو پہلے ہی جہیز اور شادی کے اخراجات تلے دب چکے ہوتے ہیں ان کیلئے جہیز پر کی جانیوالی تنقید اور’’ساتھ والی‘‘کی باتیں احساس ندامت اورذہنی تناؤ کا باعث بنتی ہیں۔
اکثر لوگوں نے ان رسموں کو ذاتی اور خاندانی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔اگر کوئی دولہا، دلہن یا ان کے گھر والے ان رسموں سے جان چھڑانا چاہیں تو انہیں غربت اور نامعقولیت کے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ان کے قریبی اعزہ کہتے ہیں کہ آپ نے تو ہماری ناک ہی کٹوا دی۔اگر مہندی مایوں جیسی رسموں پر خرچ کرنے کی سکت نہیں تھی تو ہم سے کہہ دیا ہوتا۔ہم سب مل ملا کر آپ کی کچھ مدد کر دیتے کم از کم ناک تو سلامت رہتی۔دوسری جانب لڑکی کو سسرال والوں سے بھی ایسی ہی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ساس اور نندیں کہتی ہیں کہ ’’ماں باوا نے بیٹی کو گھر سے خالی ہاتھ اور ننگے پاؤں ہی نکال دیا۔ہمارے رشتے دار کہہ رہے تھے کہ تم کس گھر سے لڑکی لے کر آئے جن کو اتنا بھی علم نہیں کہ معاشرے کے ساتھ کس طرح چلا جاتا ہے‘‘۔
ہمارے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دوست نے ان رسوم کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے نکاح کے دن بھی دفتر میں موجود تھے۔انہوں نے اپنے اعزہ اور دفتر کے ساتھیوں کو محلے کی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کرنے کی دعوت دی او ر نکاح کے بعد والد اور والدہ کوٹیکسی میں بٹھا کر لڑکی کے گھر لے گئے۔دروازہ کھٹکھٹایا ۔خادمہ نے دروازہ کھولا اور دریافت کیا کہ آپ کا نام؟ہمارے دوست نے جواب دیا کہ گھر والوں کو بتا دو کہ باراتی ،دلہن لے جانے کے لئے آئے ہیں۔لڑکی کے گھروالوں نے انہیں بیٹھک میں بٹھایا۔شربت پلایا اور واپسی پر اپنی بیٹی کو ساتھ بھیج دیا۔دولہا میاں دفتر سے 2گھنٹے کی چھٹی لے کرآئے تھے اس لئے والدین اور دلہن کو گھر پہنچا کر اسی ٹیکسی میں دفتر واپس پہنچ گئے۔سب لوگ ان کی شادی کے اس انداز پر انگشت بدنداں تھے۔
ان موصوف نے کہا کہ ہمارے ہاں لڑکے کو شادی پر جتنا خرچہ کرنا پڑتا ہے اس میں سادگی سے چار شادیاں بیک وقت کی جا سکتی ہیں مگر وہ چار کا حق رکھتے ہوئے بھی ایک ہی شادی کے بوجھ تلے ساری زندگی دبا رہتا ہے۔ شادی کی بے جا اور فضول رسموں کے باعث ہمارے معاشرے کے کتنے ہی نوجوان نکاح جیسے پاکیزہ بندھن میں بندھنے کے لئے مال و اسباب جمع کرتے کرتے ادھیڑ عمری کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔میں نے کئی ایسے لوگ دیکھے ہیں۔ہمارے ایک رشتہ دار ہیں جو اپنی شادی کے لئے پیسے جمع کرنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ بالآخر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ جہاں بھی رشتہ لے کر جاتے،لڑکی والے استفسار کرتے کہ کیا آپ کی پہلی بیوی مر گئی ہے؟انجام کار انہوں نے اپنی شادی ملتوی کر کے تمام جمع پونجی سے چھوٹے بھائی کی شادی کر دی۔اس ’’سانحے‘‘کو 12سال بیت چکے ہیں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آج وہ کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی کے لئے اخبارات میں اشتہار دیتے رہتے ہیں۔
اکثر یہ سوچ کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہونگی جن کے والدین انہی جاہلانہ رسوم کے بوجھ تلے دب کراپنی لخت جگر کے لئے اخبارات میں اشتہار دینے پر مجبور ہونگے کہ’’ہماری بیٹی کے لئے شریف لڑکے کا رشتہ درکار ہے،بیوی سے علیحدہ ہونیوالے اور عقد ثانی کے خواہشمند بھی فلاں پوسٹ بکس کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔

شیئر: