Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زرداری گرم ہوائوں کی زد میں

***سجاد وریاہ***
 دسمبر کی سردیوں میں جہاں ماحولیاتی درجہ حرارت نیچے گرا ہوا ہے وہاں سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔جناب زرداری اِن ایکشن ہیں اور سندھ میں جلسے منعقد کر رہے ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہیں سیاست کا ’’گُرو‘‘ مانا جاتا ہے۔جاوید ہاشمی تو انہیں سیا ست کا ’’پی ایچ ڈی‘‘ کہا کرتے ہیں بلکہ جیالوں کے ساتھ ساتھ کئی دانشور بھی ’’اک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کی کلغی ان کے ماتھے پر سجاتے رہے ہیں۔زرداری صاحب نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ لگایا اور پھر ہوش میں آنے کے بعد ملک سے باہر جانا ہی مناسب سمجھا۔ ایک بات قابلِ غور ہے ،ان کو جمہوریت اور میثاقِ جمہوریت اس وقت یاد آتا ہے جب ان سے کرپشن کا حساب مانگا جاتا ہے،اسی طرح ن لیگ کو بھی جمہوریت کی افادیت اس وقت سمجھ آتی ہے جب وہ حکومت سے باہر ہو تے ہیں۔نواز شریف کو بھی جے آئی ٹی پر اعتراضات تھے ۔یہ بھی کہا کہ کروڑوں ووٹ لینے والے کو 5 لوگ گھر کیسے بھیج سکتے ہیں۔اسی طرح کا نعرہ زرداری صاحب نے بلند کیا ہے کہ 3 سال کی نوکری کرنے والوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ ہماری قسمت کا فیصلہ کریں۔اس دلچسپ معاملات اور بیانات کا سیاق و سباق سمجھنا ہو تو صر ف ان بیانات کی ٹائمنگ پر ہی غور کریں تو پوری ’’الف لیلیٰ‘‘ کی کہانی سمجھ آجاتی ہے۔ ان لیڈروں کے کردار،حکومتوں کے ادوار ،ان کے قول و فعل کے تضادات اور ان کی شخصیات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان پر کیسے حکمران مسلط تھے،ان کے حامی صحافی ،دانشور اور کالم نگاروں کو بھی دیکھ لیں۔ ان کی نفسیاتی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ الفاظ کی ایسی جگالی کرنی ہے کہ کسی کو سمجھ ہی نہ آئے کہ ٹھیک کیا ہے؟اور غلط کیا ہے؟ان مفاد پرستوں نے ایسے قصید ے لکھے ہیں کہ عوام ان نو سربازوں کو نجات دہندہ سمجھ بیٹھے۔اب یہ بات سمجھ آئی ہے کہ صحافیوں نے پٹرول پمپ ٹھیکے پر لیے ہوئے تھے،ریلوے میں نوکریاں اور اداروں کے ترجمان بنے ہوئے نمک حلالی کا حق ادا کرتے رہے ہیں ،دانش فروشی کا دھندہ خوب چلتا رہا ،اب ایسے ایسے نام ایکسپوز ہوئے ہیں کہ جن کی عظمت کے میناروں کو دیکھنے کی کوشش کریں تو ’’پگ ‘‘ نیچے گر جائے۔
میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ میثاقِ جمہوریت سے جمہوریت کا کوئی تعلق نہیں ہے ،میرا ’’گمان‘‘ ہے کہ اس میثاق جمہوریت کے پیچھے ایک پورا فارمولا طے تھا ۔اس فارمولے کا بنیادی اور مرکزی نقطہ فوج کی مخالفت پر مبنی تھا۔ ایسے لگتا ہے کہ اس فارمولے کو عملی شکل دینے کا آئیڈیا جناب زرداری کا ہے ،کیونکہ میاں صاحب کی اپنی بصیرت اتنی نہیں کہ وہ کوئی سیاسی حکمت ِ عملی ترتیب دے سکیں۔دونوں نے یہ فارمولا بہت سفاک دانشمندی سے ترتیب دیا کہ اس طرح یہ دونوں خاندان مسلسل حکومت میں رہیں گے اور فوج کے خلاف کسی بھی معاملے پر ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔فوج کو خارجہ معاملات میں اُلجھا کر کمزور کرتے رہیں گے ،خارجہ محاذ پر فوج کو بدنام کیا جائے گا، اس طرح فوج پر بیرونی دبائو رہے گا اور وہ ملکی سیاست میں دخل اندازی نہیں کرے گی۔امریکہ اور ہند کے معاملات میں خود کو بے بس پیش کیا جائے گا اور یہ تاثر قائم کیا جائے گا کہ ہم تو کرنا چاہتے ہیں لیکن فوج ہمیں نہیں کرنے دیتی۔اس فارمولے کو اگر مثبت نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جمہوریت کے فروغ کی ایک کوشش سمجھا جا سکتا ہے لیکن مسلسل 10 سالہ جمہوری حکومتوں کے نتائج پر غور کیا جائے تو ان کے ارادے اور اعمال پوری طرح عیاں ہو چکے ہیں۔ان دونوں پارٹیوں نے میثاقِ جمہوریت کو مذاقِ جمہوریت ہی ثابت کیا جس کا مقصد کرپشن کے کاروبار کی ترویج تھی۔
جناب زرداری اب گرم ہوائوں کی زد میں ہیں۔ا ن کو اب 18ویں ترمیم یاد آگئی ہے۔ان کو 3 سالہ نوکریوں والے یاد آگئے ہیں،حالانکہ انہوں نے اسی 3 سالہ نوکری کے غم میں جنرل کیانی کو 3 سال اور نوکری دے دی اسطرح ان کی نوکری 6 سال ہو گئی۔اس پر کوئی اعتراض بھی نہ کیا کیونکہ ان کا بھائی بھی میثاق جمہوریت سے فیضیاب ہو رہا تھا۔شنید ہے کہ زرداری صاحب ان کو باقاعدہ پوچھا کرتے تھے کہ بھائی کا کاروبار کیسا جا رہا ہے؟ یعنی ان کو بتانا مقصد ہوتا تھا کہ مجھے پتہ ہے کہ آپ کا بھائی بھی پراپرٹی کا کاروبار کررہا ہے۔لیکن جب جنرل راحیل شریف نے فوج کی کمان سنبھالی تو سیاسی قیادت کے ساتھ فوج کے ساتھ اختلافات کی کہانیاں میڈیا کی زینت بننے لگیں۔میں اس وقت اس نقطے پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اسوقت اپوزیشن کوئی اتحاد قائم کر سکتی ہے؟کیا یہ اتحاد حکومت کے لیے کوئی دردِسر بن سکتا ہے؟حکومت کو گرایا جا سکتا ہے؟اس وقت کئی بزر جمہرے تو باقاعدہ ممبران کی گنتی کر رہے ہیں، کئی دانش فروش تو کہہ رہے ہیں کہ ضرور ہو سکتا ہے ، حکومت کو آڑے ہا تھوں لینا چاہئے۔میری نظر میں اپوزیشن اتحاد کی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی،ایک تو یہ کہ سیاسی قیادتیں پوری طرح ایکسپوز ہو چکی ہیں اور شکنجے میں ہیں ،اس وقت ان کی اس طرح کی کسی بھی جمہوری ڈرامے بازی کو شہید ہونے کی ایک کوشش ہی کہا جائے گا۔تحریکِ انصاف کی حکومت کا گراف عوام میں اوپر جا رہا ہے۔اس وقت حکومت اخلاقی عروج کی طرف جا رہی ہے اور اپوزیشن دن بہ دن اخلاقی زوال کی جانب رواں دواں ہے۔ زرداری صاحب کا نعرہ کہ حکومت گرائیں گے اور اپنی حکومت بنائیں گے ،ایک دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے،یا پھر کمزور الفا ظ میں اس نعرے کو بے وقت کی راگنی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔نواز شریف بھی اس وقت زرداری کے بچاوٗ کی کسی مہم کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ زرداری صاحب ان پر مشکل وقت کے دوران لا تعلقی کے نعرے لگا کر خود کو لکیر کے دوسری طرف دکھانے کی کوشش کرتے رہے۔اب زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہو ا تو ایک بار پھر ’میثاقِ جمہوریت‘ کو انِ ایکشن کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔اب چند مفاد پرستوں کے علاوہ کوئی بھی ان کی طوطا مینا قسم کی کہانیوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔میثاقِ جمہوریت کی اصل روح کو اب پکارا جائے گا کہ دیکھو ۔آئو جمہوریت بچائیں ،ابھی نہیں تو کبھی نہیں،قسم کے نعرے مارکیٹ میں آنے والے ہیں۔میثاقِ جمہوریت کے مُردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کی جائیگی۔لیکن سوال پھر بھی وہی ہے کہ کیا ایسا ہو سکے گا ؟میں نہیں سمجھتا کیونکہ عوام ان ڈرامہ بازیوں کو سمجھ گئے ہیں ،میثاق ِجمہوریت اِن ایکشن کرنے میں دیر ہو چکی ہے۔پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے۔
 

شیئر: