Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رشتہ بنانابڑی بات نہیں، اصل بات رشتوں کو نبھانا ہے، رمشا خان

عنبرین فیض  احمد۔ ینبع
انسان نت نئے تجربات سے گزرتا ہے اسی کا نام زندگی ہے۔ یہ اس کے گزرے ہوئے ماضی اور اس کی یادوں کا نچوڑ ہوتا ہے۔  زندگی ایک ایسے ناول کی مانند ہے جس کا قاری اور مصنف بھی خود انسان ہی ہوتا ہے جس نے اپنی زندگی کی کتاب پڑھی اور لکھی ہوتی ہے۔ زندگی  میں کوئی شاٹ کٹ نہیں ہوتا اسلئے کامیابی حاصل کرنے کیلئے اس چیز کی خواہش کرنا بھی  انتہائی ضروری ہے۔ اس سے مقصد پانے میں آسانی  ہوتی ہے۔
رواں ہفتے ہوا کے دوش پر اردو نیوز کی مہمان ایک ایسی ہستی ہیں جو محنت اور لگن پر یقین رکھتی ہیں جو پروقار ، خوش گفتار اور خوش لباس سب سے بڑھ کر ہر لمحہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے۔ آپ کی ملاقات رمشا خان سے کراتے ہیں۔ وہ ہمہ جہت اور ہمت صفت شخصیت کی مالک ہیں۔ رمشا خان نے کہا کہ انہوں نے کراچی میں آنکھ کھولی۔ ابتداء سے ایم بی اے تک تعلیم اسی شہر سے حاصل کی ۔ پرورش مشترکہ خاندانی نظام میں ہوئی ، ہر کسی سے پیار ملا۔ بڑے ہونے کے ناتے بابا کے بہت قریب ہوں، ہمیشہ والدین کی تربیت اور توجہ کا مرکز بنی رہی۔ کامیابی کا سہرا  والدین کے سر ہے۔ آجکل معروف کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیریئر میری زندگی کا اہم حصہ ہے جیسا کہ ہر کسی کی زندگی میں کوئی نہ کوئی مثالی شخصیت ہوتی لہٰذا میری زندگی میںبھی میری ماں کی شخصیت مثالی ہے۔ ان کے نقش قدم پر میں چلنا چاہتی ہوں۔ ماں کو دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ، والدین کا سر ہمیشہ فخر سے بلند رکھنا چاہتا ہوں۔
والد اور والدہ دونوں سول ایوی ایشن اتھارٹی میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔ ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ بھرا پرا گھر ہے،   سب مل جل کر زندگی کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کوئی خواہش کی ہو اور والدین نے اسے پورا نہیں کیا ہو۔ خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے گھرانے میں پیدا کیا جہاں میری اتنی قدرومنزلت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کو ایک ایسے حادثہ سے دوچار ہونا پڑا جسے وہ اب تک نہیں بھلا سکی ہیں۔ میرے بہن بھائی اسکول سے گھر واپس آرہے تھے کہ گاڑی کا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ گاڑی تقریباً تباہ ہوگئی لیکن الحمدللہ بہن اور بھائی کو خراش تک نہیں آئی۔ وہ لمحات آج بھی یاد کرتی ہوں تو کانپ اٹھتی ہوں۔ 
رمشا کہتی ہیں کہ معاشرہ رشتوں سے گندھا ہوتا ہے ہر رشتہ خاص و صف اور پہچان رکھتا ہے۔ رشتوں کی دوڑ کو مضبوطی سے تھامنا چاہیئے  تاکہ کوئی بھی رشتہ ٹوٹ کر بکھر نہ جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی شادی ایک سال قبل کراچی میں ہی ہوئی۔ میں اور عبدالاحد شمس ایک کمپنی میں ملازم تھے۔ وہیں ملاقات ہوئی اور اگست 2017ء میں ہم شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ شادی کے 4 ماہ بعد شوہر بیرون ملک چلے گئے وہاں انہیں ایم بی اے کرنے کا موقع ملا گیا۔ ویسے تو ہم کم وقت  ایک ساتھ رہے لیکن جتنے بھی لمحات گزرے ہیں وہ الحمدللہ بہت ہی خوشگوار ہیں۔
رمشا کے مطابق ان کے سسرال سے تعلقات انتہائی مثالی اور خوشگوار ہیں۔ ساس اور سسر اپنی بیٹی کی طرح پیار و محبت سے پیش آتے ہیں۔  ہر ضرورت ، خواہش، آرام کا بہت زیادہ خیا ل رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے سال ہوگیا ہے لیکن انہوں نے اب تک میرے والدین کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ والدہ نے ورکنگ ویمن ہونے کے باوجود بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہیں ہونے دی۔ ہماری تربیت میں بابا کے ساتھ ماما نے بھی ہر اونچ نیچ سے آگاہ کیا۔ امور خانہ داری سے بھی بڑی حد تک روشناس کرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچیوں کو گھر کے کاموں کا عادی ہونا چاہیئے۔ 
رمشا کے مطابق زندگی آرٹ کی مانند ہے۔ زندگی کے کینوس پر ہر کوئی اپنی سوچ، صلاحیت او ربساط کے مطابق رنگ بھرتا ہے لہٰذا یہی کوشش کرتی ہوں کہ میری زندگی بھی بہت حسین اور خوبصورت ہو جو یقینا ہر انسان کا خواب ہوتا ہے۔ اپنی زندگی کو حسین بنانے کیلئے ہر انسان جدوجہد کرتا ہے مگر کوئی اسے کامیاب بناتا ہے اور کوئی ناکام ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں و قت کا بھرپور استعمال کرتی ہوں۔  میٹرک تک اسکول کی ہر سرگرمی میں حصہ لیا۔ آرٹ کرافٹس کے علاوہ مباحثوں، ڈراموں ان سب میں حصہ لیتی۔ کلاس پریفکیٹ بھی رہی والدین کے دیئے ہوئے اعتماد پر آج بھی فخر ہے۔ وقت کتنی تیزی سے گزرجاتا ہے کہ انسان کو اندازہ نہیں ہوتا۔ رمشا نے کہا کہ  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ابھی ایم بی اے مکمل کیا ہے ۔ 4 سال کا عرصہ کیسے بیت گیا  پتہ ہی نہیں چل سکا۔ بچپن سے لڑکپن کا سفر کہنے کو تو طویل ہوتا ہے لیکن پلک جھپکتے میں سب گزر جاتا ہے۔
مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہیئے۔ اردگرد جو بھی رشتے ہیں ان کی قدر کرنا چاہیئے، یہ بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ اس بات کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کوئی رشتہ ہم سے بچھڑ جاتا ہے۔ آپس میں مل جل کر رہنا چاہیئے، عفودرگزر سے کام لے کر رشتوں کو جوڑنا چاہیئے، توڑنا نہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ رشتہ بنانا کوئی بڑی بات نہیں، اصل بات ان رشتوں کو نبھانا ہے۔ ذرا سی غفلت  یا لاپروائی سے رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ 
رمشا نے اردو نیوز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ انتہائی خوشی ہوئی کہ آج ہم بھی اردو نیوز کے مہمان ٹھہرے۔ زندگی کی گاڑی  اکیلے  چل تو سکتی ہے مگر میاں بیوی  اس گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں میں ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔ اسی میں زندگی کا لطف ہے۔  رمشا سے جب ادب پر بات ہوئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کالج اور اسکول میں تو خوب شعرو شاعری اور مطالعہ کا شوق  تھا۔ اب بھی اردو سے زیادہ انگریزی  ادب کا  مطالعہ کرتی ہوں۔ شاعروں میں پروین شاکر اور فیض احمد فیض کا کلام زیادہ پسند ہے۔  فیض احمد فیض کی ایک غزل اردو نیوز کے قارئین کی نذر:
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
بڑا ہے دل کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
جو ہم پے گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کاتار تار چلے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
**********

شیئر: