Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ ٹرینی واقعہ ‘‘

روز آتے ہو، جلاتے ہو، چلے جاتے ہو
شہزاد اعظم
ٹرین واقعی انتہائی پُراسرارقسم کا وسیلۂ سفر ہے۔ اس میں مختصر لیکن غیر یقینی مدت کے لئے لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ اپنے طرزِ عمل سے لوگوں کے دلوں میں محبت، رقابت، عزت یا عداوت کا بیج بوتے ہیںاور پھر کبھی نہ ملنے کے لئے ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں۔ ’’دقیقانہ‘‘ نظر سے دیکھا جائے تو ٹرین میں ہونے والے مشاہدات واقعی منفرد ہوتے ہیں۔ ہم نے انہیں ’’ٹرینی واقعات‘‘ کے زیرِ عنوان بیان کرنے کی ٹھان لی ہے۔ چند برس قبل کاایسا ہی ایک سبق آموز ٹرینی واقعہ نذر ہے:
ہم لاہور کے پرشکوہ ریلوے اسٹیشن پر فجر سے قبل ٹھٹھرتے ہوئے ہوئے پہنچے۔ سامان کو قدرے ’’بے ڈھنگے ‘‘اندازمیں ٹھونس ٹھانس کر اپنی  نشستوں کو ذاتی میراث سمجھتے ہوئے ان پر من چاہے انداز میں پسر گئے۔ دیگر مسافر حضرات و خواتین بھی اپنے اپنے استحقاق کے مطابق بیٹھے اور لیٹے ہوئے تھے۔صرف نصف گھنٹے کی تاخیر سے ٹرین کراچی کے لئے روانہ ہوگئی ۔ٹرینی سفر کی روایت ہے کہ ایک ساتھ سفر کرنے والے اغیار فوراً ہی بے تکلف نہیں ہوتے بلکہ بتدریج کھُلتے ہیں مگر ہمارے ساتھ والے حلقے میں ٹرین کی روانگی سے قبل ہی بے تکلف شنید و گفت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھاکیونکہ اس حلقے کی 6کی 6 نشستوں پر خواتین براجمان تھیں۔آپ اسے حسنِ اتفاق کہئے کہ یہ تمام نصف درجن خواتین شاعرات تھیں۔ہمیں یقین تھا کہ شاعرات ہیں تو وہ ’’کہنے سننے اور سننے سنانے‘‘ سے اجتناب کرنے سے گریز ہی کریں گی اس لئے ہم نے کاغذ و قلم تھام لیا اور گھات لگا کر رپورٹنگ شروع کر دی جسے دورِ جدید میں ’’اسنائپر رپورٹنگ‘‘کہا جاتا ہے۔ ہم نے اس زنانہ بزم میں ادبی شوشا چھوڑنے کے لئے ٹرین میں موجود ایک اماں جی سے ’’مدد‘‘ لی جنہوں نے ہماری درخواست پر اُن شاعرات کے حلقے میں ایک جملہ کہہ دیا کہ کوئی بھی شاعر وطن میں رہ کر وہاں کے ماحول کی عکاس شاعری نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تو خود مسائل کے گرداب میں گھِرا ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ شاعر جو وطن سے دور ، پردیس میں رہ کر وطن کے واقعات پر نظر رکھتا ہے اورلوگوں کی تکالیف کو محسوس کرتا ہے، وہ ان احساسات کو زیادہ بہتر انداز میں شعری قالب میں ڈھال سکتا ہے۔ بس یہ کہنا تھا کہ شاعرات نے ’’اماں مخالف ہاہاکار‘‘مچا دی انہوں نے کہا کہ وطن سے دور رہنے والا وطن کے بارے میں کبھی حقیقی شاعری کر ہی نہیں سکتا۔ اس ’’عالمگیرحقیقت‘‘ کو پنجابی میں یوں واضح کیاگیا ہے کہ :
’’راہ پیا جانے، تے وا پیا جانے‘‘
اسی امر کو’’مؤرد ہندی‘‘ میں یوں سمجھایا گیا ہے کہ :
’’جس تن لاگے، سو تن جانے‘‘
اسی دوران ایک شاعرہ نے ارشاد فرمایاکہ ذرا غور فرمائیے ، بیرون ملک رہنے والا پردیسی جب اپنی ممکنہ اہلیہ کی بے وفائی کا بیان کرتا ہے تو کہتا ہے کہ :
یہ تختہ مشقِ جفا کا نہیں، ہے دل میرا
ترے فریب کی دنیا میں پَل نہیں سکتا
اس کے مقابلے میں وطن میں رہنے والی ایک سخن گو کا منظوم خیال دیکھئے جو اپنے ممکنہ شوہر کی حماقتوں پر شکوہ کررہی ہے کہ:
’’کیا مرے دل کو بھی سمجھا ہے کراچی تم نے
روز آتے ہو، جلاتے ہو، چلے جاتے ہو‘‘
اب آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ حالات کی حقیقت اور تلخی پردیسی کے شعر سے عیاں ہے یا وطن میں مقیم شاعرہ کے شکوے سے چھلک رہی ہے؟
اسی دوران ایک اور شاعرہ نے لقمہ دیاکہ ہماری سوکنِ ثانی کے بھائی بیرون ملک مقیم ہیں۔ انہوں نے ہمارے وطن میں امن و امان کے ابتر حالات کے حوالے سے شعر کہے ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے کہ:
’’نہ چین صبح کا ہے اور نہ رات کا ہے سکوں
وطن کو میرے نجانے نظر لگی کس کی‘‘
دوسری جانب میں ہوں،میں ازل سے وطن میں ہی مقیم ہوں۔ بیرون ملک کبھی گئی ہی نہیں اور نہ ہی مستقبل بعید میں ملکی سرحدوں سے باہر کی حدود میں قدم رکھنے کا کوئی امکان ہے۔ آپ ذرا میرا شعر بھی ملاحظہ فرمائیے:
’’ذرا سا فرق ہے ’’ی‘‘ کا مگر کتنا بھیانک ہے
کہیں پرخود کشی ہے اور کہیں حملہ ہے خود کش کا‘‘
ّّ اب ایک اور شاعرہ کی جانب سے ’’لقمی‘‘ آئی۔ کہنے لگیں میں 7دیوروں کی اکلوتی بھابی ہوں۔ میرا سب سے چھوٹا دیور کینیڈا میں ہے۔ شعر وہ بھی کہتا ہے۔ وطن کے معاشی حالات ہر تبصرہ کرتے ہوئے اس نے ایک غزلیہ احتجاج کیا اس میں کہا کہ:
’’ہر فیکٹری پہ دیکھوہیں تالے پڑے ہوئے 
لوگوں کو کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے‘‘
اب میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ شعر برا ہے یا اچھا کیونکہ ’’اووَر آل، ہی از مائی دیور‘‘ لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ وطن میں رہ کر میں نے اسی مہنگائی کے حوالے سے جو شعر کہا وہ ضرور سنیں کہ:
’’ہمیں ہر چور ،ڈاکو نے ، رقیب و یار نے لوٹا
بچا تھا جو وہ مہنگائی کے بَل سرکار نے لوٹا‘‘
یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک اور شاعرہ نے ایک جملہ کہہ کر مشاعرے کا ماحول ہی بدل ڈالا۔ وہ یوں گویا ہوئیں کہ وطن میں رہ کر نہ صرف جان و مال لٹنے کی اذیت کی حقیقی عکاسی ہو سکتی ہے بلکہ ملک کو لٹتے دیکھنے کے احساس کو بھی نظم کیا جا سکتا ہے جو پردیس میں رہ کر ممکن نہیں ہو سکتا۔ہم مشاعرے کو بھول کر اس جملے کی حقیقی اذیت میںایسے کھوئے کہ کراچی آگیا۔ 
 

شیئر: