Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرغیوں کے انڈے

***جاوید اقبال ***
اسٹاف روم کے نوٹس بورڈ پر 2 لفظوں کی انتہائی مسرت انگیز تحریر ہوتی۔EGGS - RICE۔ ہم سب اساتذہ سمجھ جاتے چنانچہ تدریس کا وقت اختتام پذیر ہوتے ہی ہم کمپائونڈ میں ہی واقع آئر لینڈ کے استاد جان رائس کے گھر کی طرف بھاگتے جہاں ڈرائنگ روم میں میز پر درجنوں انڈوں کے ڈھیر ہوتے اور فرسٹ کم فرسٹ سرو کی بنیاد پر رائس ہر آنے والے گاہک کو اس کی حسبِ منشا ء انڈے مہیا کرتا اور اس سے رقم لے کر جیب میں ڈالتا رہتا۔ بہت جلد انڈوں کا ذخیرہ ختم ہوتا اور دیر سے آنے والے اساتذہ خالی ہاتھ مایوس لوٹتے۔ میں 70ء کی دہائی کے وسطی افریقی ملک زمبیا کی بات کررہا ہوں اور یہ سب کچھ شمال مغربی شہر موینی لنگا میں واقع ٹیچرز ٹریننگ کالج میں ہوتا تھا۔ موبوٹوسیسو شیکو کے کانگو کی سرحد سے چند میل دور ہی واقع زمبیا کے اس شہر میں اشیائے خوردونوش کا حصول دودھ کی نہر کھودنے کے مترادف تھا۔ دارالحکومت موساکاسے تقریباً 200 میل دور موینی لنگا کو آنے والی یک رویہ خستہ حال سڑک بارشوں کی کثرت کی وجہ سے اکثر دلدل بنی ہوتی اور ہفتے میں 3 بار چلنے والی حکومتی بسیں کیچڑ میں دھنستی رہتیں چنانچہ سیاہ فام دیہاتی مسافر ان مصیبت میں پھنسی بسوں سے اتر کر وہیں شب بسری کے عادی ہوچکے تھے۔ جان رائس کے مہیا کردہ انڈے کالج سے کوئی 3 میل دور واقع ایک عیسائی مشن سے آتے تھے۔ پادری آئر لینڈ کے تھے اس لیے جان رائس کی ان تک رسائی تھی اور وہ ہر ہفتے مشن سے فروخت کرنے کے لئے انڈے اٹھا لاتا تھا۔ ان پادریوں نے ایک وسیع رقبے پر جنگل میں مرغی خانہ قائم کر رکھا تھا اور کچھ اراضی پر سبزیاں کاشت کرتے تھے۔ اب آپ پر Eggs - Rise کے مختصر سے اشتہار کے معانی واضح ہوگئے ہوں گے۔ لیکن ٹھہریئے! میں بات کھول کر بیان کرتا ہوں۔ وسطی اور مشرقی افریقا میں یہ روایت ہے کہ گھر کے سارے کام عورت کرتی ہے اور شوہر نکھٹو بنا ہر وقت آرام کرتا ہے۔ ایسے ماحول میں ساری بستی کے بچے آوارہ گردی کرتے لوفر ہوجاتے ہیں۔ ان کے لئے ان کے باپ مثالی شخصیتیں ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے عجز و نیاز اور اطاعت اور مامتا کا مثالی مجسمہ دیکھنا ہو تو وسطی اور مشرقی افریقا کے جنگلوں میں زندگی کا کرب مسلسل برداشت کرنے والی صنف نازک کو دیکھ لے۔ اب ہوتا یوں ہے کہ کسی صبح یا کسی دوپہر یا کسی شام ایک فرنگی اپنی چھوٹی سی گاڑی میں بستی میں داخل ہوتا ہے۔ سیاہ فام آبادی میں رگ تجسس پھڑکتی ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے سفید فام نہیں دیکھا ہوتا۔ آنے والا ماحول اور اطراف کا جائزہ لیتا ہے اور بستی کے چیف سے ملاقات کر کے ساری آبادی کو آسان تر زندگی فراہم کرنے کے لیے اپنی بلا معاوضہ خدمات پیش کرتا ہے۔ اگلے دن وہ بنیان اور نیکر میں ہوکر ایک پھاوڑا سنبھالتا ہے اور مرغی خانے کا حجر اساس رکھتا ہے۔ ڈیڑھ 2 ہفتوں کے بعد وہ اپنے ہمراہ لائے بیج بستی کے اردگرد کی زمین میں بکھیر دیتا ہے۔ بارش کثرت سے ہوتی ہے چنانچہ کونپلیں جلد ہی سر اٹھاتی ہیں۔ اس دوران میں وہ چند مرغی اور کچھ انڈوں کا انتظام کرتا ہے اور مرغی خانے میں 3 ہفتوں کے بعد روئی کے ننھے گالے چوں چوں کرتے ادھر ادھر بھاگتے رونق لگادیتے ہیں۔ پھر وہ بستی کے آوارہ پھرتے بچوں کو اپنے ہمراہ شریک کار کرتا ہے۔ مائیں سکھ کا سانس لیتی ہیں کہ گھروں میں طوفانِ بدتمیزی اٹھاتے لڑکے بالے کسی مفید مصروفیت میں لگ گئے ہیں۔ کوئی 6 ماہ گزرتے ہیں کہ مرغی خانے سے انڈوں کی پہلی کھیپ برآمد ہوکر بستی کے گھروں میں پہنچتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چھوٹی موٹی سبزیاں بھی دروازوں پر جادستک دیتی ہیں۔ سب کچھ بلامعاوضہ ملتا ہے۔ چند ماہ پیشتر گاڑی سے اترنے والے سفید فام اجنبی کا ذکر ہر کوئی احترام سے کرتا ہے۔ ساری بستی کے لئے وہ فادر پیٹر ہے۔ مائیں اسے اپنا بہت بڑا محسن تصور کرتی ہیں۔ ان کے آوارہ گرد بیکار بچے راہ راست پر آجاتے ہیں اور پھر ایک ڈیڑھ سال کے بعد فادر پیٹر وہاں ایک چھوٹا سا مدرسہ تعمیر کرتا ہے جس کے صحن میں ایک ننھا سا گرجا گھر ہوتا ہے۔ وہ کسی قریبی شہر سے درسی کتب اور انجیل کے نسخے لے آتا ہے۔ اس کی مدد کے لئے 3.2 سفید فام مرد و خواتین بھی پہنچ جاتی ہیں۔ تدریس کا آغاز ہوتا ہے۔ انڈے اور سبزیاں بستی والوں کو ابھی تک بلامعاوضہ مل رہی ہیں، اعتراض کون اور کیوں کرے؟ یوں سیاہ فام افریقہ کی ایک نیم تاریک بستی میں ایک پادری عیسائیت متعارف کرادیتا ہے۔ مرغیوں کے انڈے! سبزیاں! Eggs - Rice آہستہ آہستہ یہ مختصر گروہ اپنا حلقہ اثر پھیلاتا ہے۔ دیگر بستیوں کو بھی انڈوں سے فتح کرتا ہے اور پھر ایک بڑی اور وسیع عمارت تعمیر کرلی جاتی ہے۔ ایک بڑے مشن کا قیام عمل میں آجاتا ہے۔ مزید پادری اور راہبائیں یورپ سے آکر تبلیغ میں مصروف ہوجاتی ہیں۔  ان پادریوں کا طریقہ کار الگ سا ہے۔ وسطی افریقہ کے اندرون جنگل میں بستے لادین یا روح پرست لوگوں کے پاس جا اترتے ہیں۔ بنیان اور نیکر پہن کر ہاتھ میں پھاوڑا لیتے ہیں اور مرغیوں اور سبزیوں کی افزائش کا بیج بوتے ہیں۔ اس دوران میں مقامی زبان سیکھ کر لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں اور تبلیغ کا آغاز کرتے ہیں۔ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ابن آدم کے ذہن تک جانے والا رستہ پیٹ سے شروع ہوتا ہے تو جب بل گیٹس نے مرغبانی کو غربت پر قابو پانے کیلئے ایک طریقہ قرار دیا تھا تو وہ غلط نہیں کہتا تھا۔  تیسری دنیا کے ایک مقروض ملک کو اگر اس کا راہنما مرغبانی کی طرف مائل ہونے کا مشورہ دیتا ہے تو یہ ایک قابل ستائش نصیحت ہے اور میرے ذہن میں تو آئرلینڈ کے میرے اس ساتھی استاد کے نوٹس بورڈ پر لکھے صرف 2 الفاظ آتے ہیں جنہیں پڑھتے ہی ہم دیوانوں کی طرح اس کے گھر کی طرف بھاگ اٹھتے تھے۔
 

شیئر: