Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’نازیبا القاب‘‘

***شہزاد اعظم ***
لاہور کے سرکاری ٹاٹ اسکول میں جب ہم نے حصول علم کے سلسلے کا آغاز کیا تو وہاںموجو د’’سخت گیر‘‘ اساتذۂ کرام اور ’’نرم خو‘‘ استانیوں نے ہمیں پہلا سبق یہی پڑھایا کہ جیسا اپنے لئے پسند کرتے ہو،ویسا ہی دوسرے کے لئے بھی پسند کرو۔’’مس عقیلہ نے ہمیں اس حوالے سے عمل کرنا سکھایا ۔ وہ اس طرح کہ اگر آپ کو کسی ’’شخص یا شخصیت‘‘ پر اس حد تک غصہ آجائے کہ آپ اسے طمانچہ رسید کرنے کیلئے بے تاب ہو جائیں تو اس کے لئے آپ پہلے آئینے کے سامنے کھڑے ہوں اور پھر اپنے ’’تھوبڑے‘‘ پر زور دار طمانچہ رسید کریں۔ اگر آپ اس طمانچے کی کھپت، چپت برداشت نہیں کر سکتے تو دوسری مرتبہ ذرا کم توانائی کا حامل طمانچہ مار کر دیکھیں۔  جب آپ ایسا تھپڑ دریافت کر لیں کہ جس کو کھانے کے بعد آپ کوزیادہ درد و اذیت یا غصہ و طیش کا احساس نہ ہو،تو ایسے تھپڑ، طمانچے، ریپٹے یا جھاپڑکو آپ دوسرے کے گال شال پرٹِکا سکتے ہیں۔یہ ’’ ٹاٹیانہ تربیت‘‘ آج بھی ہماری طینت، طبیعت، فطرت اور شخصیت کا جزوِ لازم بنی ہوئی ہے ۔’’شازی‘‘ ہمارا انتہائی گہرا ’’ٹاٹیئن‘‘ ہے۔ اس نے ہمارے ساتھ ہی اس ارض پاکستان کے ایک چپے پربچھے ٹاٹ پربیٹھ کر علم کے حصول کی جدوجہد کی ابتدا کی تھی۔آج وہ بھی ہمارے طرح بیرون ملک محنت کر کے زرمبادلہ کی شکل میں تنخواہ وصول کر رہا ہے ۔ اتفاقاًرواں ماہ دسمبر میں شازی بھی سالانہ تعطیلات پر ہماری طرح وطن آیا ہوا تھا۔ اس نے ہم سے رابطہ کیا ۔ ہم گلے مل کر خوب روئے کیونکہ ہمیں لال اسکول کی نرم خو استانیوں’’مس شکیلہ، جمیلہ، عقیلہ‘‘تینوں کے بیوہ ہو نے کی ’’یکمشت اطلاع‘‘ ملی تھی جو ہم سے برداشت نہیں ہو پائی۔ہم ان کا غم بانٹنے کیلئے جا بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ تینوں ہی کینیڈا میں بیوہ ہوئی تھیںچنانچہ ہم اور شازی دونوں ہی اپنا دکھ بانٹ کر ہشاش بشاش ہوگئے۔ شازی نے ہم سے کہا کہ مجھے منقطع ٹیلی فون کے بقایاجاتا ادا کرنے کے لئے جانا ہے ، آپ ساتھ چلیں تو ڈھارس بھی بندھے گی اور وقت بھی اچھاگزر جائے گا۔ہم نے کہا کہ بقایا کتنا ہے ؟ شازی نے کہا کہ 25ہزار640روپے۔ خیر ہم ان کے ساتھ چلے گئے ۔متعلقہ دفتر میں داخل ہوئے۔ وہاں ایک کائونٹر پر ہمیں بصد تکریم بلایاگیا۔ہم جا کر بیٹھے۔ استفسار ہوا کہ فرمائیے کیسے آنا ہوا؟ ہم نے کہا کہ ٹیلی فون کے بل کی مد میں25ہزار640روپے کے بقایاجات ہیں۔ فون تو کٹ چکا ہے ۔ انہوں نے نمبر پوچھا، شازی نے نمبر بتایا اور آن کی آن میں سارا کچا چٹھا کمپیوٹر اسکرین پر عیاں ہو گیا۔ اس نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ تو 30مہینے سے بند پڑا ہے۔ آپ نے ادائیگی نہیں کی۔ آپ میں سے شازی کون ہے ؟ ہمارے دوست نے کہا کہ جی میں ہی ہوں۔ اب اس نے ہم سے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں، ہم نے کہا کہ ہم شازی کے دوست۔ اس نے کہا کہ شازی بلیک لسٹڈ ہے، ڈیفالٹر ہے اور آپ اس ڈیفالٹر اور بلیک لسٹر کے دوست یعنی رفیق یعنی ’’رفیقِ کار‘‘ ہیں؟ہم نے کہا کہ یہ رفیق کار کا کیا مطلب ہے ؟ہم دوست ہیں۔ جواب ملا کہ کام کاج میں کھانے پینے میں، لین دین میں، ملنے ملانے میں، ہنسنے ہنسانے میں، رونے رُلانے میںایک دوسرے کا ساتھ دینے والے ہی تو رفیق کار کہلاتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ یہ تو ہمارے اوپر بہتان ہے۔ کائونٹر افسر نے ہماری بات کو درخور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے کہا کہ فی الحال آپ 25640روپے جمع کرا دیں۔ شازی نے بٹوہ ٹٹولا تو اس میں سے 25100روپے برآمد ہوئے۔ اس نے ہم سے کہا کہ آپ مجھے 540روپے دے دیجئے میں گھر جا کر دے دوں گا۔ ہم نے بخوشی 540جیب سے نکال کر گن کر اسے تھمانے کے لئے آگے بڑھائے توتاک میں بیٹھا کائونٹر افسر فوراً بولاکہ دیکھا ناں، شازی میاں ڈیفالٹر ہیں اور آپ ان کے رفیق کار۔ہم ڈر گئے کہ شاید وہ افسر پولیس اہلکاروں کو بلانے گیا ہے کہ ایک ڈیفالٹر اور اس کا رفیق کار بازیاب ہوئے ہیں، انہیں فوراً گرفتار کر لیاجائے ۔ یہ سوچ کر شازی بھی تھر تھر کانپنے لگا۔ ہمیں خیال آ رہا تھا کہ ہم ’’باعزت زندگی کے آخری لمحات‘‘ بسر کر رہے ہیں، ابھی پولیس پکڑ لے گی جو ہمارے سروں کو استعمال شدہ دھوتیوں سے ڈھانپ کر اخبارنویسوں کے سامنے پیش کریگی ۔اتنے میں ہم نے دیکھا کہ کائونٹر افسر تنہا ہی تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جائیے سامنے والے وصولی کائونٹر پر پیسے جمع کرا دیجئے۔ ہم کائونٹر پر پہنچے، پیسے دیئے۔ اُس وصول کنندہ نے آواز لگائی کہ یہ رقم کس مد میں ہے؟ یہ وضاحت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’’ڈیفالٹرشازی‘‘ 25ہزار640روپے دیں۔ہم بھی وہیں کھڑے تھے، اس نے ہم سے پوچھا، آپ کی تعریف، دوسرے افسر نے فوراً باور کرایا کہ یہ ڈیفالٹر کے رفیق کار ہیں۔اب ہم سے نہ رہا گیا، ہم نے کہا کہ آپ بار بار ڈیفالٹر اور رفیق کار کے ’’نازیبا القاب‘‘ سے ہماری تضحیک و تذلیل کر رہے ہیں، شازی نے صرف 25640روپے کا بل جمع کروانا تھا ، وہ بھی ڈیفالٹرہے اور جس نے 200ارب ڈالر واپس نہیں کئے وہ بھی ڈیفالٹراور ملکی خزانے سے کھلواڑکرنے والوں کی سرکاری فہرست میں شامل ہے۔ یہ کون ساانصاف ہے۔ اس نے کہاکہ کھلواڑ خواہ 200پیسے کی ہو یا 200بلین ڈالر کی، دونوں مفاد پرست ، لالچی شخصیات ’’ڈیفالٹر ‘‘ ہی کہلائیں گی۔اب ہمیں خیال آیا کہ ہم اور ہمارے دوست شازی کوتاخیر سے فون کا 25ہزاربقایا ادا کرنے کے باعث کتنی تضحیک، بے عزتی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ، دل چاہ رہا تھا کہ ’’ڈیفالٹر‘‘ کا لفظ سننے کی بجائے موت آجائے، اب ذرا سوچئے کہ وہ کیا سوچتے ہوں گے جنہیں  200ارب سے کھلواڑ کرنے پر ’’ڈیفالٹر‘‘ کاطوق پہننا پڑتا ہے۔ انہیں کتنی تذلیل و تضحیک کاا حساس ہوتا ہوگا؟
 

شیئر:

متعلقہ خبریں