Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیر تعلیم ہوتی تو کتابو ں کے بارپر نہیں، تدریس کے معیار پر توجہ دیتی ، ابیہا

 زینت شکیل۔جدہ
   
خالق کائنات نے انسان کو بہترین مخلوق بنایا فہم و ادراک عطا کیا۔ذہانت کا درست استعمال کیا جانا چاہئے ۔انسان وہی ہوتا ہے جو اس کی سوچ ہوتی ہے ۔دراصل اس دنیا میں ذہانت کا ہی ہر وقت امتحان جاری و ساری ہے۔انسان اس دنیا میں اپنی وسعت میں رہ کر کیا کیا کام کر سکتا ہے اس موضوع پرمحترم جہاںزیب اور محترمہ ابیہا سے گفتگو ہوئی۔ بچپن کی تربیت میں تعلیمی ادارے کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ انسان کی خوش اخلاقی بہت سے مشکل وقت کو آسان کر دیتی ہے۔ زندگی میں مشکلات اور آسانیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔اس وقت کو سہولت سے گزارنے کے لئے ادراک ضروری ہے ۔خوش اخلاقی سے دوسروں کے دل میں جگہ بھی بنتی ہے اور انسان بدخوئی سے دور رہتا ہے۔ ذہن میں یہ بات رہے کہ اچھے عمل میں بداخلاقی کا کوئی گزر نہیں۔
    محترمہ ابیہا کی ملاقات اپنے کئی رشتہ داروں سے شاید پہلی مرتبہ اس وقت ہوئی جب ان کے بابا جان کے چچا جان کا انتقال ہوا اور سارا خاندان یکجا ہوا ۔کئی لوگ خاص طور پر دور دراز سے آئے ہوئے بزرگ رشتہ داروں کی دیکھ بھال بھی اہم تھی جو خود عمر کے آخری پڑاﺅ میں داخل ہوچکے ہیں۔سب اپنے رشتہ دار کی مغفرت کے لئے دعا کرتے رہتے بالآخر کئی دنوں کے بعد دوسرے شہروں سے آئے ہوئے رشتہ داروں کی واپسی ہوئی لیکن ان میں کچھ وہ لوگ بھی شامل تھے جو آئندہ آپس میںایک زیادہ مضبوط رشتہ جوڑنے کا ارادہ کر چکے تھے۔
    محترمہ ابیہا کی رشتہ دار نے کچھہ عرصے کے بعد ابیہا کے والدین کو اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔ اس طرح ایک نئی اور خوبصورت زندگی کا آغاز ہوا۔
     ابیہا محترمہ اپنے اسکول میں طالبہ کی حیثیت سے بہت زندہ دل مشہور تھیں۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا انہیںاچھا لگتا تھا۔ان کے دونوں بھائیوں اور دونوں بہنوں کو انکی عادت یا د ہے کہ وہ اسکول سے آتے ہی سارے دن کی روداد سناتیں اور اپنی شرارت کا ذکر تو یوںکرتیں کہ جیسے اب بھی لطف آرہا ہو۔ کہیں تقریب میں جاتیں ، خاص طور سے شادی بیاہ کی تقریبات میں تووہاں موجود لڑکیوں سے فوراً انکی دوستی ہوجاتی ۔بڑی بہن بھی ساتھ ہوتیں اور جب کسی دوسری جگہ کسی تقریب میں کوئی لڑکی آتی اور بڑی بہن سے سلام دعا کے بعد پوچھتی کہ آپ کی بہن نہیں آئیں تو وہ بتادیتیں کہ آج وہ نہیں آئی ہیں اور جب گھر واپسی پر بتاتیں کہ تمہاری کلاس فیلو وہاں ملی تھی، تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھی کہ کیوں نہیں آئیں۔ وہ بتاتیں کہ ہم کلاس فیلو نہیں ہیں۔ ہماری تو فقط ایک ہی ملاقات ہوئی تھی ۔فلاں کی شادی کی تقریب میں اور بڑی بہن سچ مچ حیرانی سے دریافت کرتیںکہ کیا واقعی، کیونکہ وہ تو میرا نام بھی جانتی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ آپ کی بہن کیوں نہیں آئیں، انہیں تو ایسی تقریب میں شرکت کا بہت شوق ہے۔ شادی بیاہ کے فلاں فلاں گیت تو پورے یاد ہیں۔ جب وہ اتنی تفصیل بتا رہی تھی تو میں نے اندازہ لگایا کہ یہ تمہاری کلاس میں ہی پڑھتی ہو گی۔ جب ہی اتنے اہتمام سے خیریت بھی دریافت کر رہی ہے اورپھرتمہارے بارے میں اسے یہ تک معلوم ہے کہ تمہیں شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کتنی بھاتی ہے اور کون کون سے گیت ازبر ہیں آخر تمہاری ایک ہی تقریب میں ایسی دوستی کیسے ہو جاتی ہے کہ وہ تمہارا نام اور تمہاری پسند و ناپسند بھی یاد رکھتی ہیں ۔اس موقع پر سب سے چھوٹی بہن یاد دلاتی کہ انہوں نے کزن کی شادی کے موقع پر ڈھولکی کی تقریب میں جو گانے گائے تھے وہی ہماری طرح انہیں بھی یاد ہو گئے ہوںگے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ”کاہے کو بیاہی بدیس رے“گیت بہت زیادہ پسند ہے۔
    ابیہا نے بتایا کہ امی جان نے ہم بہنوں کو کھانا بنانے کی طرف راغب کیا کہ باہر کا کھانا کبھی کبھا ر ہی کھانا چاہئے کیونکہ صحت
 مند رویے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جنک فوڈ سے دور رہا جائے ۔ابیہا کو کپڑے سینا اتنا ہی آتاہے کہ کٹنگ کر کے دے دیا جائے تواسے سی کر اپنا سوٹ تیار کر سکتی ہیں۔ میتھس ،اسٹیٹس اور کمپیوٹر کی طالبہ ابیہا یہ سمجھتی ہیں کہ آج پرائمری اسکول کا اسٹوڈنٹ بھی ماہر معاشیات بن گیا ہے۔ جس وقت پہلے زمانے یعنی فقط ایک عشرہ پہلے بچے کھلونے سے کھیلا کرتے تھے ،آج نیٹ کے ذریعہ خود اپنے پسند کے گیمز اپ لوڈ کر لیتے ہیں۔ اپنے لئے شاپنگ بھی اکثر آن لائن کرتے ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ اکثر چیزیں جتنی اسکرین ایڈ میں اچھی لگتی ہیں ، حقیقت میں اتنی بہتر کوالٹی کی نہیں ہو تیں۔
اسے بھی پڑھئے:سادگی میں خوشیاں زیادہ تھیں، تصنع نے بہت کچھ چھین لیا، میمونہ شاہد
    محترمہ ابیہااورمحترم جہانزیب کا خاندان ایک ہونے کی وجہ سے شادی کے رسم و رواج میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں تھی لیکن یہ بھی ہر گھر کی تھوڑی بہت الگ پہچان ہوتی ہے کہ کہیںڈھولکی وغیرہ کی تقریب زیادہ پرجوش طریقے سے منائی جاتی ہے ۔ ابیہا کا کہنا ہے کہ ان کی شادی کی تقاریب بھی بہت بارونق رہیں۔ہر ایک رشتہ دار نے بھرپور شرکت کی ۔جب رشتہ آیا تو ابیہا کی والدہ کی ایک ہی فرمائش تھی کہ انکی بڑی صاحب زادی اور گھر کے بڑے داماد جو بیرون ملک رہائش پذیر ہیں ،وہ لوگ آئیںگے،ان کی ملاقات ہو جائے گی پھر جواب دیا جائے گاچنانچہ ایسا ہی ہوا۔
    ابیہا صاحبہ کو اردو ادب کے معروف مصنف، ناول نگار راشد الخیری کا ناول ” آفتاب دمشق“ پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔ موقع ملتا ہے تو وہ یہ ناول ضرور پڑھتی ہیں۔یہ ناول مشق کی ایک خاتون سلمونیہ کے حالات زندگی کو مد نظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔ ہمارا اسکول سسٹم جب ایک دفعہ بچپن میں شروع ہوجاتا ہے تو وہی کورس پورا کرتے کرتے وقت کیسے گزرتا ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا اور سالانہ امتحان کا وقت آجاتا ہے۔ آج کل کے بچے ہم سے بھی زیادہ مصروف وقت گزارتے ہیں۔ میں اپنے گھر پر ہی بڑے بھائی کے بچوں کو دیکھتی ہوں کہ صبح سویرے بھابی انہیںاسکول کے لئے روانہ کرتی ہیں۔ چند گھنٹے کے بعد وہ اسکول سے واپس آتے ہیں، لنچ کرتے ہیں پھر ان کی ٹیوشن کا وقت ہو جاتا ہے فوراً بیگ لاد کر انہیں روانہ کیا جاتا ہے اور جب وہاں سے واپسی ہوتی ہے تو کچھ اسنیکس ابھی باقی رہ جاتے ہیں، اتنے میں مولوی صاحب کی آمد کی خبر ملتی ہے۔ شاید ہم لوگوں نے کم عمری میں ان پر پڑھائی کا حد سے زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔ بڑی بہن نے اس موقع پر کہا کہ اگرتمہیں وزیرتعلیم بنادیں تو سارا وقت کھیل کے میدان بھرے رہیں گے اور پڑھائی لکھائی کی چھٹی۔ انہوں نے ناراضی کا اظہار کئے بغیر کہاکہ ہاں، ایسا تو ضرور ہوتا کہ تمام اسکول میں کھیل کا میدان لازمی کر دیتی اور جہاں تک بھاری بھرکم اسکول بیگ کی بات ہے،جس کے بارے میں ملک کے بہترین ڈاکٹرز نے صحت کے لئے یعنی بچوں کی ریڑھ کی ہڈی کے لئے خطرناک قرار دیا ہے، اگر میں وزیر تعلیم ہوتی تو کتابو ںکے بارپر نہیں، تدریس کے معیار پو توجہ دیتی یعنی کوانٹٹی سے زیادہ کوالٹی پر فوکس کرتی ۔ اس لئے بھی کہ ایک علم وہ ہوتا ہے جس کے لئے نہ کاغذ کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی پنسل کی۔ استاد کو خود اتنا قابل ہونا چاہئے کہ کم وقت میں کلاس میں اس طرح سے مضامین پڑھائے کہ ان میں سے اکثر نکات ذہن نشین ہوجائیں۔ اس کے لئے جہاں اساتذہ ذمہ دار ہیں، وہیں طالب علموں کو بھی حصول علم میں زیادہ وقت صرف کرنا چاہئے ۔
    ابیہا صاحبہ چونکہ زیادہ تر کمپیوٹر پر کام کرتی ہیں، اس لئے احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے لیپ ٹاپ کو اکثر اپنی گود میں رکھ کر ہی کام شروع کر دیتے ہیں ۔تھوڑی سی آسانی مل جاتی ہے لیکن یہ جاننا ضروری یہ ہے کہ کسی وقت بھی اس کی برقی رو نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ضرور کچھ بریک لینا چاہئے ۔
    ہریالی یعنی سبز رنگ آنکھوں کے لئے فائدہ مند ہے تو اس کے لئے خاص خیال رکھنا چاہئے کہ گھر اور ورک پلیس میں مختصر کیاری یا بڑے مستطیل گملوں میں پودے لگا ئے جائیں اس سے ماحول میں خوبصورتی کے ساتھ صحت مند رجحان پیدا ہوگا۔
    ابیہا صاحبہ کا کہنا ہے کہ میرے شوہر جہانزیب اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار صاحبزادے ہیں چونکہ ان کے والد صاحب اب دنیا میں نہیں رہے تو اب انہیں یہی خیال رہتا ہے کہ انسان جب تک اپنے والدین کی خدمت کی سعادت حاصل کر سکتا ہے، اسے یہ موقع نہیں گنوانا چاہئے۔ اس لئے جب بھی کسی تقریب میں جانا ہوتا ہے ،وہ اپنی والدہ کو بھی بصد اصرار سے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ہر ایک ضرورت کا خیال رکھتے ہیں خود چونکہ بچپن میں اپنے والدین کے لاڈلے تھے تو اب اپنی والدہ کا بھی ایسا ہی خیال رکھنا چاہتے ہیں۔
     جہانزیب صاحب اکنامکس میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد ایک معروف کمپنی میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ابیہا میں بہت سی خوبیاں ہیں لیکن جو خوبی سب سے اہم ہے وہ انکی خوش اخلاقی ہے۔ اسی لئے کسی کو بھی ہمارے گھر پر اجنبیت محسوس نہیں ہوتی ۔مہمان داری تو بعد کی بات ہے ۔ پہلی بات تو وہ انداز گفتگو ہے کہ جس سے کسی مہمان کو اپنا آنا ایسا لگتا ہے کہ گویا انہیں میزبان نے بھرپور پذیرائی دی ہے پھر کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی کہ ان کے لئے چائے کا کیسا اہتمام اس وقت ہوسکتا ہے ۔ویسے بھی ہر دانے پر کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے ۔یہ بزرگوں سے سنا ہے۔ابیہا کی یہ عادت اچھی لگتی ہے کہ جہاں کہیں تقریب میں جانا ہو کپڑے اور جیولری سب میں میری والدہ کی پسند و نا پسند کا خیال رکھتی ہیں۔

 

شیئر: