Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بن کھلے مرجھا گئے

***محمد مبشر انوار***
پاکستان کے2 بڑے سیاسی خاندان اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ ان پر کرپشن کے شدید ترین الزامات ہیں جس کی بنیاد ان کا رہن سہن اور آمدن کے غیر معروف ذرائع شامل ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ان خاندانوں نے برسہا برس اس ملک پر حکومت کی ہے مگر یہ اپنے اثاثوں کے ثبوت دینے سے قاصر ہیں،اور جواز کے طور پر ایک خاندان اگر قطری شہزادے کا خط پیش کرتا ہے تو دوسرا خاندان ڈھٹائی کے ساتھ قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ قانون اس کے اثاثہ جات کو غیر قانونی یا کرپشن سے حاصل کیا گیا ثابت کرے۔ ہر2 صورتوں میں قانون مجبور و بے کس نظر آتا ہے کہ کس طرح ان 2 خاندانوں سے لوٹی ہوئی ملکی دولت واپس لی جائے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شریف خاندان اثاثہ جات کی ملکیت تسلیم کرنے کے باوجود کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کرنے سے قاصرہے کہ ایساکوئی ثبوت موجود ہی نہیں،اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو ادارے وہ ثبوت پیش کریں۔شریف خاندان (جوملکیت تسلیم کرنے کے بعد، قانوناً اپنے اثاثہ جات کے شواہد پیش کرنے کا پابند ہے،منکرہے)اور ببانگ دہل یہ کہتا نظر آتا ہے کہ اگر میرے اثاثے ،معروف ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں ،تو تمہیں کیا؟ایسا طرز عمل ،ایک ملک کے 3 مرتبہ کے سابق وزیراعظم کو قطعی زیب نہیں دیتا مگر یہ پاکستان ہے جہاں عوامی لیڈر انتہائی بے شرمی و ڈھٹائی سے اس طرز عمل پر نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ ان کے اندھے مقلد اس طرز عمل پر داد و تحسین کے ڈونگڑے برساتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنے قائد محترم کے غیر قانونی اعمال پر ایسی ایسی توجیہ اور جواز پیش کرتے ہیں کہ سر پیٹنے کو دل کرتا ہے ،پانامہ کے ہنگام ،جس نے اس قماش کے بے شمار قائدین کو سر بازار ننگا کر دیا، ماسوائے پاکستان کہیں اور ایسی توجیہات یا جواز سننے یا دیکھنے کو نہیں مل رہے۔ دوسرے بڑے خاندان کی چیر ہ دستیاںبھی منظر عا م پر آج سے نہیں گذشتہ دو دہائیوں سے ہیں مگر مجال ہے کہ ماسوائے ’’شو بازی‘‘ یا ’’جنون خطابت‘‘ میں زبان کے پھسلنے کے سوا کوئی عملی اقدام ہوا ہو۔ 60ملین ڈالر کی واپسی کا نعرہ فقط انتخابی رہا جس کی گونج میں ذاتی کرپشن کی کہانی کو چھپایا جاتا رہا کہ مبادا کہیں ان کا راز فاش نہ ہوجائے،جبکہ زرداری نے اس نعرے کو کبھی بھی پرکاہ سے زیادہ اہمیت نہ دی کہ زرداری کو واضح طور پر علم تھا کہ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے،جس کا نتیجہ کبھی نہیںنکلے گا لہٰذا اطمینان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو درون خانہ دیمک کی طرح چاٹتے گئے،اور وہ عوامی پارٹی جو کبھی عوام دوست اور وفاقی جماعت ہوتی تھی،آج سمٹ کر اندرون سندھ تک محدود ہو چکی۔ پنجاب پیپلز پارٹی کی اکثریت آج پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے عمران کی ہمرکاب،شریف خاندان کے ساتھ نبرد آزما ہے اور اس کے کارکنان اپنے مقامی قائدین کے ہمراہ پی ٹی آئی کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔2015سے جاری تحقیقات کے نتیجے میں آج قانون نافذ کرنے والے اداروں کا گھیرا زرداری کے گرد بھی تنگ ہو رہاہے اور زرداری کے لب و لہجے میں کرختگی و سختی واضح محسوس ہو رہی ہے،ان کا وہ اطمینان جو گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ا ن کے مسکراتے چہرے کی رونق ہوا کرتا تھا،رخصت ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان تحقیقات کے نتیجے میں جو حقائق سامنے آ رہے ہیں،ان میں پیپلز پارٹی کی نوجوان قیادت،چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کا نام بھی سامنے آرہا ہے کہ مال غنیمت سے وہ بھی فیض یاب ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس صورت میں یقینی امر ہے کہ جہاں بلاول کے والد پر قانونی کارروائی ہو گی وہاں بلاول بھی قانون کی زد سے نہیںبچ سکیں گے اور یوں بھٹو کی پیپلز پارٹی،جو پہلے ہی زرداری خاندان کے ہتھے چڑھ چکی ہے،وہاں سے بھی فارغ ہو نے کے بعد کون اس کی قیادت سنبھالے گا یا یہ پارٹی مکمل طور پر بکھر جائے گی؟ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ نئی نسل میں بلاول بلاشبہ ایک بہتر چوائس ہوتے لیکن ان حالات میں کیا بلاول سیاست کے لئے میسر بھی ہوں گے؟یا قرعہ فال آصفہ کے نام نکلے گا؟بشرطیکہ مال غنیمت میں آصفہ بھی فیض یاب ہونے والوں کی فہرست میں شامل نہ ہوئی تب تو یہ ممکن ہے مگر آثار اس کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک ہی واضح حل نظر آتا ہے کہ بلاول،بختاور اور آصفہ اس جائیداد سے لاتعلقی کا اعلان کریں کہ یہ ممکن نہیں کہ مفادات میں تو وہ حصہ دار ہوں مگر جو قباحتیں اس جائیداد سے منسلک ہیں،ان سے بری الذمہ ہو جائیں۔ بریت کے اس اظہار کے بعد وہ براہ راست عوام کے پاس جائیں اور پیپلز پارٹی کو دوبارہ منظم کریں وگرنہ تیسرا حل یہ بھی ہے کہ صنم بھٹو پارٹی کی قیادت سنبھالیں۔مذکورہ اثاثہ جات سے بریت کے بعد،بلاول کو بعینہ وہی راہ اپنانی ہو گی جو اس کی والدہ نے میر مرتضی بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو کی الذوالفقار سے لاتعلقی اختیار کر کے اپنائی تھی،بلاول کو نئے سرے سے پارٹی کو منظم کرنا ہو گا اور اسے حقیقی معنوں میں عوامی ’’وفاقی‘‘پارٹی بنانے کی جدوجہد کرنا ہو گی۔مگر ایک بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی میدان کو بالکل خالی سمجھنا چاہئے کہ اس وقت مقابلہ ایک نہیں بلکہ2 پارٹیوں سے ہو گا۔ ایک طرف ن لیگ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس لینے کے لئے جدوجہد کرے گی تو دوسری طرف پی ٹی آئی بھی میدان کو خالی نہیں چھوڑے گی،لہٰذا مقابلہ انتہائی سخت ہوگا۔گو کہ یہ کٹھن راستہ ہے مگر بقا و بحالی کا یہی راستہ ممکن ہے اور اگر بلاول نے والد کے اثاثہ جات سے بریت کا اظہار نہ کیا توحسرت و افسوس اس بات پر ہوگا کہ یہ پھول بن کھلے مرجھا جائے گا۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں