Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی منجد ھار میں!!

***سجاد وریاہ***
سالِ نو کا آغاز ہو چکا ہے،گُزرتے وقت کا یہی حُسن ہے ،کہ زخموں ،دکھوں ،پریشانیوں اور مصیبتوں کو بُھلا دیتا ہے ،اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وقت بہت بڑا مرہم ہے۔اس کے ساتھ وقت آنے والے زمانے کیلئے ہمیشہ اُمید،روشنی اور خوشی کی ایک کھڑکی کھولے رکھتا ہے۔اسی لیے جب بھی وقت کے بہتے دریا میں’ ’خشکی کے مقامات‘‘یعنی خو شی کے لمحات آتے ہیں لوگ اپنے دُکھوں کو بھول کر خوشی کے ان لمحات کی موجودگی کو انجوائے کرتے ہیں جو اپنے اندر کسی بھی طرح کی اُمید کا پیغام لیے ہوتے ہیں۔اس نئے سال کی آمد جہاں عام لوگوں کی خوشی کی وجہ بن رہی ہے وہاں یہ نیا سال کرپٹ اور مجرموں کے لیے ’’بھاری ‘‘ثابت ہو رہا ہے۔پاکستان کے بڑے اور طاقتور لوگوں کو قانون کے شکنجے میں کسا جا رہا ہے،جو قانون کو مکڑی کا جالا سمجھے ہوئے تھے۔نوازشر یف اور شہباز شریف زیر ِحراست ہیں اور اپنے کرپشن کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔پوری دنیا اور پوری قوم یہ جان چکی ہے کہ ن لیگ کے رہنماوٗں نے سیاست کو کرپشن کا کاروبار بنا کے رکھ دیا تھا۔اب اگلی قسط کے طور پر آصف زرداری نے بھی کرپشن کی ایک نئی داستان رقم کر دی ہے۔آصف زرداری نے تو کرپشن کے ایسے ریکارڈز قائم کیے ہیں کہ سندھ کے عوام کی بربادی اس کا ثبوت ہے۔جعلی بینک اکاوٗنٹس کی چھان بین کے لیے بنائی گئی سُپریم کورٹ کی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ہوشرُبا انکشافات سامنے آئے ہیں۔جن کی تفصیلات زبانِ زدِعام ہو چکی ہیں۔جے آئی ٹی نے بہت محنت سے ثبوت اکٹھے کیے ہیں اور کڑی سے کڑی ملا کے رکھ دی ہے۔اس رپورٹ کو عدالت کس حد تک تسلیم کرتی ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن اب تک کی صورتحال کے مطابق اس رپورٹ نے پیپلز پارٹی کو عین بِیچ منجدھار لا کھڑا کیا ہے۔پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی ،عوامی جماعت ہوا کرتی تھی جسکو زرداری صاحب نے ایک علاقائی جماعت میں بدل دیا ہے ،وہ نعرہ جو کبھی فخر و اطمینان کا باعث بنتا تھا کہ اِک زرداری ،سب پہ بھاری،اب جگ ہنسائی کا سامان بن گیا ہے کہ اِک زرداری ،پیپلز پارٹی پر بھاری ہو گیا ہے۔اس کا عملی مظاہرہ ہو چکا تھا جب پنجاب میں انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی کو امیدوار نہیں مل رہے تھے اگرکُچھ ملے بھی تو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران زرداری کا ذکر تک نہیں کیا اور نہ ہی انتخابی پوسٹرز پر کبھی آصف زرداری کی تصاویر لگائیں۔ان کی انتخابی مہم میں ذوالفقار علی بھٹو ،بے نظیر بُھٹو اور بلاول زرداری کی تصاویر لگائی گئیں اور انہی کے نعرے لگائے گئے۔کسی بھی پارٹی کے لیے کس قدر سُبکی اور خفت کی بات ہوتی ہے کہ اس کی قیادت کا کردار اس قابل نہ ہو کہ اس کو عوام کے سامنے قابلِ فخر انداز میں پیش کیا جا سکے۔اس کا انجام پھر پنجاب میں پیپلز پارٹی کے خاتمے کی شکل میں نظر آیا۔پنجاب ہی پیپلز پارٹی کی اُٹھان اور اُڑان کا مقام تھا ،جہاں جناب بُھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی،پنجاب نے ہی سب سے پہلے پی پی کو دیس نکالا دیاجس کا سبب ،مرکزی قیادت کی مجرمانہ خاموشی اور خود غرضی تھی۔زرداری صاحب کی عدم مقبولیت کو تمام مرکزی لیڈرز سمجھتے تھے اب بھی سمجھ رہے ہیں لیکن لمبی چُپ اور عہدوں سے چِمٹے ہوئے ہیں۔ ان کی خاموشی ایسی کہ پیپلز پارٹی کا ٹائی ٹینک ،زرداری فیملی کی کرپشن سے ٹکرا کے پاش پاش ہو رہا ہے ،زرداری ٹولے کی کرپشن کے بوجھ تلے ڈوب رہا ہے لیکن پارٹی کے بڑے جمہوری مبلغین منہ میں گھونگھنیاں ڈالے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی ایک عوامی جماعت ہے ،میری ہمدردیاں اور میرے جذبات ہمیشہ پیپلز پارٹی کے وجود کو پاکستان کی خوبصورت پہچان کا سبب مانتے ہیں لیکن کیا زرداری نے پیپلز پارٹی کا بیڑہ غرق نہیں کر دیا؟پیپلز پارٹی جو ایک ملک گیر جماعت تھی ،سُکڑ کر صرف سندھ تک محدود ہو گئی ہے ۔حالیہ جے آئی ٹی کی رپورٹ نے سندھ میں اس کو بُری طرح بے توقیر کر دیا ہے ،اس کی اخلاقی اور عوامی ساکھ کو شدید زک پہنچی ہے۔زرداری صاحب عملیت پسندی اور خریدو فروخت کی سیاست کے بے تاج بادشاہ ہیں لیکن کوئی انہیں بتائے کہ پارٹیاں ہمیشہ اخلاقی ساکھ پر قائم رہتی ہیں ،اربوں روپے اکٹھے کرنے سے کبھی عوامی طاقت اور محبت نہیں خریدی جا سکتی۔قارون کے خزانے بھی ختم ہو جاتے ہیں حکومتیں اُلٹ جاتی ہیں۔بُھٹو کی دولت نہیں بُھٹو کی اخلاقی میراث ہی پارٹی کو زندگی دیتی رہی۔
میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بُری طرح ایکسپوز ہو چکی ہے ،ان کے لیے بُری خبر یہ ہے کہ اپنے گھر کو لوٹتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔سندھ کے وسائل پر حملہ آور اومنی گروپ،بحریہ ٹاوٗن اور دیگر جتھوں کے سہولت کار اور حصے دار کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔اس طرح بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ’ ’حسرت مجھے ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مرجھا گئے‘‘۔
 بلاول کے پاس کچھ بھی نہیں بچا کہ وہ سیاست کر سکے۔پاکستانی قوم نے اسکے مرحوم نانا اور ماں کا بہت احترام کیا کہ آج تک انکی پارٹی کو عروج ملتا رہا ۔پیپلز پارٹی اگر خود کشی پر آمادہ ہے ،کرپشن کی آگ میں جلتی اپنی ساکھ کی حرارت پر بے حِسی سے اپنے ہاتھ تاپنے میں مگن ہے تو کون ہے جو اس کی مدد کو آئے گا ؟اور کیوں آئے گا ؟؟جب اسکی لوٹ مار کے قصے زبان زدِعام ہو چکے ہیں۔پیپلز پارٹی پوری طرح منجدھار میں گھر چکی ہے ، کیااس کو نکالنے کی کو ئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے؟میں سمجھتا ہوں شروع میں زرداری نے اپنے تعاون کی پیشکش کی اور معاملات سیٹل کرنے کی کوشش کی لیکن اب وہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ پکڑے گئے ہیں۔اب بلاول زرداری بھی نعرے لگا رہا ہے کہ احتساب سب کا ۔ججوں ،جرنیلوں کا بھی۔اب نئی ڈگڈگی بجائیں گے،جب آپکی حکومت تھی ،تب کیوں ایسا احتساب نہ کیا ؟جیسے جیسے ثبوت سامنے آ رہے ہیں ،بہتر ہوگا کہ پی پی عدالتوں میں ہی دفاع کرے ،پبلک میں اب جمہوریت کے بھاشن کوئی نہیں سنے گا۔
 

شیئر: