Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اونٹوں سے سچی دوستی کا شوق اجاگر کیا جائے

نعیم بازید پوری
    مناظر قدرتی ہوں یا غیر قدرتی ان سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے بلندی کو زیادہ ہمہ جہت دیدار مناظر کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ چاند دیکھنے کیلئے زمانہ قدیم سے لوگ پہاڑوں اور پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ اونچے ہوٹلوں اور اونچی عمارتوں وغیرہ پر چڑھنے کے عادی رہے ہیں۔ صدیوں قبل جب انسان نے بلند عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ سطح زمین پر بلند تعمیرات کی داغ بیل ڈالی۔ ایسی تعمیرات میں اہرام مصر کا شمار یقینی طو رپر کیا جاسکتا ہے۔
    علوم مصریات کے ممتاز ماہر یحییٰ بطونی کا کہناہے کہ اہرام کی تعمیر بھی فراعین کے اسی شوق کی آئینہ دار ہے کہ وہ اس پر چڑھ کر اپنی حکومت یا سلطنت کی حدود کو باآسانی دیکھ سکیں اور غالباً یہی وہ شوق تھا جس کے تحت اہل روما نے پیسا ٹاورز جیسے تعمیراتی شاہکار تیار کئے۔ آج کے دور میں بھی جو بلند بالا عمارتیں بنتی ہیں یا بلندحدیدی ڈھانچے مثلاً ایفل ٹاور، یا قطب مینار بنائے گئے وہ بھی چہار جہت کو دیکھنے میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے ۔ پھر ان اونچی عمارتوں کی تعمیر اس وجہ سے بھی ہوئی کہ دور دراز کے سفر پر نکلے ہوئے لوگ دور ہی سے ان بلند عمارتوں کو دیکھ کر اپنی منزل اور اپنے صحیح رستے کا تعین کرتے تھے۔
     دبئی کا برج خلیفہ جسے دنیا کی بلند ترین عمارت تسلیم کیا جاچکا ہے جب مکمل ہوگیاتو اسکے لئے جو اشتہاری مواد تیار ہوا اس میں اس عجوبہ روزگارعمارت کی جس خوبی کو سب سے زیادہ اجاگر کیا گیا وہ اسکی بلندی تھی۔ ملائیشیا کا مشہور جڑواں ٹاور اور جسے پیٹروناس بلڈنگ کے نام سے جانا جاتا ہے اسکی تعمیر کے بعد اسکی بالائی منزل بھی اس وجہ سے حکمراں وقت اور خواص کے لئے وقف کردی گئی جو بلندی پر پہنچ کر چاروں طرف موجود نظاروں اور چیزوں کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ تو طے یہ پایا کہ بلندی پر چڑھنا یقینی طور پر ” لطف نظارہ“ کو دوبالا کرتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انسان نے جب جانوروں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنایا او راسکی سواری بھی شروع کرنی چاہی تو سب سے پہلے اس نے زرافوںکو دیکھا مگر آخری نظر انتخاب اونٹوں اور ہاتھیوں پر پڑی۔ زرافے کو اسلئے زیادہ اہمیت نہیں دی کہ وہ لمبی گردن کے باوجود سست رفتار بھی تھا۔ماہرین حیوانات کا کہناہے کہ لمبی لمبی ٹانگوں کے حوالے سے زرافہ، اونٹوں کا مد مقابل ہی نہیں بن سکا بلکہ اسکی استقامت نے اسے زرافوں کے مقابلے میں زیادہ کارگر ثابت کیا یعنی آج صحراءکے جہاز کے نام سے بھی جانے جانے والے اونٹ اپنے پیٹ میں ہفتہ بھر کا پانی جمع کرکے سیکڑوں میل کا سفر کرلیتے ہیں۔ انہی ماہرین نے اونٹوں کی ایک خوبی یہ بھی بتائی کہ ”اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی“ جیسے فقرے گھڑ کر اونٹ سے بھاری بھر کم جسم اوراس کی ساخت کا مذاق اڑانے کی ناکام کوشش کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
    عصری تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اونٹوں میں ”استقرار“ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اونٹ کو کسی رسی کی مدد سے چھوٹی اینٹ یا پتھر سے بھی باندھ دیا جائے تو وہ بالعموم اسی جگہ موجود ملتا ہے پھر یہ کہ ایک اونٹ کی پیٹھ پر پورا کنبہ اپنے سامان کے ساتھ سفر کرسکتا ہے۔ نسل در نسل اونٹوں کی اسی خوبیوں نے اسے سواری کے لئے انسان کا پسندیدہ بنادیا پھر کیا ۔۔۔۔ صحرائی علاقوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اونٹوں کی نکیل ہاتھ میں پکڑ کر بلا خوف و خطر پھرتے اسکے دوست بنے نظر آتے ہیں۔ سیر و تفریح کیلئے اونٹوں کا استعمال شاید دنیا بھر میں ہے اسے ہاتھیوں اور گھوڑوں کی طرح شادی وغیرہ کے مواقع پر سجایا نہیں جاتا لیکن جن علاقوں میں اونٹ پائے جاتے ہیں وہاں انہیں تفریحی شکل دیدی جاتی ہے۔ اس پر سوار افراد کو کچھ جسمانی مشقت ضرور برداشت کرنا پڑتی ہے مگر پردہ دار خواتین بھی ان اونٹوں پر سفر کرتی ہیں۔ زیر نظرمیں جو سجا سجایا اونٹ نظر آرہا ہے، لوگ اس پر ساحلی علاقوں اور آس پاس کی چیزوں کو دیکھنے کیلئے سواری کرتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بچوں میں اونٹوںسے سچی دوستی کا شوق اجاگر کیا جائے۔

 

شیئر: