Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آگ لگانے والا جملہ”آپکی بات کافی ہے، آگ کی ضرورت نہیں“

مسز ربانی ۔ جدہ
    اکثر لوگوں کا رویہ ہے کہ جب ان کو کوئی بات پسند نہ آئے یا انکے مفاد میں نہ ہو اور انکی مرضی سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو ایک ”جمبلز وار“ کرتے ہیں یا یہ کہہ لیںکہ سامنے والے پر مسلح حملہ کرتے ہیں۔ آپ کی بات سے تو آگ لگ گئی یا آپ کی باتیں جلا دیتی ہیں۔آگ لگانے کے لئے یہ جملہ بھی کارگر ہوتا ہے کہ آپ کی بات ہی کافی ہے آ گ کی ضرورت نہیں یا آپ کی بات جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
    دراصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو اپنے الفاظ پر گرفت نہیں ہوتی۔ اپنی زبان پر قابو نہیں رہتا اور وہ چاہتے ہیںکہ سامنے والاانکی زبان بولے ،جو وہ چاہتے ہیں وہ کرے ،جو وہ سننا پسند کرتے ہیں وہ بولے لیکن حقیقت حال برعکس ہوتی ہے کیونکہ مد مقابل فرشتہ نہیںبلکہ انسان ہی ہوتاہے۔ جب اسکی اپنی زبان، اپنی سوچ ہے تو بھلا وہ کیونکر قاعدے کے خلاف چلے۔
    غصہ انسانی کیفیت ہے اور اس سے لگی آگ نظر تو نہیں آتی مگر خاندان کا خاندان جل کر تباہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی روح انتقاماً بدلے کی خاطر باہر آنا چاہتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے انسان کی شکل بگڑ جاتی ہے۔ چہرہ گرم سرخ ہوجاتا ہے۔رگیں پھول کر پھٹنے والی ہوجاتی ہیں۔ یہ باہر کی ٹوٹ پھوٹ ہے ۔ اندرونی بگاڑ دوسری بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لئے اگر انسان غصے کے وقت شیطان سے دور رہے تو خود کو اور دوسروں کو بھی بچا لیتا ہے۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے اور بات بات پر آگ لگانا انکا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے اس لئے شاید ان کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا مگر وہ سامنے والے کو جو اسکا عادی نہیں ہوتااوراللہ کریم کا خوف دل میںرکھتا ہے ،وہ سرد جنگ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ خصوصاً جب ایسے شخص سے واسطہ 24گھنٹے رہتا ہو۔ اگر شرعی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا دین غصے کی مذمت کرتا ہے اور سخت ممانعت ہے مگر کچھ لوگ علم نہیں رکھتے اور کچھ علم کی زیادتی سے بے قابو ہوجاتے ہیں۔
    معاشرے اور گھر دونوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں ۔ ایک دوسرے کی سنیں۔ ضروری نہیں کہ سن کر مانیں بھی۔ اختلاف رائے بھی ہو مگر سلیقے ، طریقے اور قرینے سے ہو ورنہ بگاڑ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

 

شیئر: