Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا: صارف کا طمانچہ اسے سکتے میں مبتلا کر گیا

عالم آراء نے اسے کچھ کہنے لگیںکہ دروازے پر دھماکے کی آواز آئی،وہ سب دروازے کی طرف بڑھے، یوسف صاحب فرش پر پڑے تھے، وہ سب کچھ سن چکے تھے
مسززاہدہ قمر ۔جدہ    
(گزشتہ سے پیوستہ)
’’ خاموش ہو جاو‘‘، صارف نے اس کی بات کاٹی۔ تم سرکشی کی ساری حدیں پھلانگ چکے ہو۔ نہ تمہیں گھر والوں کی عزت کا احساس ہے نہ خاندان میں جگ ہنسائی کی پروا ۔رتمہیں کسی شریف اورباحیا لڑکی کے جذبات سے کھیلنے کا حق کس نے دیا؟کیوں تم نے اسے اپنے نام سے وابستہ کیا،بولو؟ اس کا کوئی جواب ہے تمہارے پاس؟‘‘۔ صارف نے بڑے دکھ سے اسے اس کی ذمہ داری یاد دلائی   ۔’’کہا ناں، وہ میری نادانی تھی۔اب میں نرمین کے جذبات یا خاندان کی عزت کیلئے اپنے ارمانوں کا خون نہیں کر سکتا اور خاندان کی عزت بچانے کے لئے صرف میں ہی رہ گیا ہوں ؟آپ بھی تو یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں نرمین سے شادی کر کے ۔‘‘وہ سارے لحاظ اور آداب کو بالائے  طاق  رکھ کر بدتمیزی کی انتہا کو پہنچ گیا۔
’’شَٹ اَپ‘‘ صارف کا زور دار طمانچہ اسے ایک لمحہ کو سکتے میں مُبتلا کر گیا مگر پھر وہ غُصے سے پاگل ہو گیا۔ صارف نے اسے تھپڑ مارا۔یہ سوچ اسے جنون میں مُبتلا کرنے لگی مگروہ بے حد چالاک تھا۔ اندازہ تھا کہ اگر صارف سے بھڑ گیا تو مزید مار کھا سکتا ہے کیونکہ صارف اس سے زیادہ ایکٹو اور فِٹ تھا اور برائون بیلٹ حاصل کر چُکا تھا۔ وہ غُصے سے پائوں پٹختا ہوا ڈائننگ روم سے نکل گیا ۔جاتے جاتے زور دار طریقے سے کھانے کی پلیٹ زمین پر دے ماری۔اس کے جاتے ہی عالم آراء کے ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔ بچیاں کمرے میں آکر انہیں تسلی دینے لگیں اور صارف ان کے سر پر ہاتھ رکھے یہ سوچ رہا تھا کہ وہ لوگ بڑے ابو کو کیا منہ دِکھائیں گے؟ مشرف کو کیسے سمجھا یا جائے ؟ پتہ نہیں وہ نازو کے فریب سے نکل بھی پائے گایا نہیں؟ ابو کو یہ بات کیسے بتائی جائے ؟ ابھی تو وہ سو رہے تھے اور کمرے کا دروازہ بند تھا اس لئے ان کی آنکھ نہیں کھلی مگر انہیں اس سنگین مسئلے سے کیسے آگاہ کیا جائے؟
’’صارف ! تمہارے ابو کو پتا چلے گا تو ان کا کیا حال ہو گا؟ ‘‘، عالم آراء نے رو تی آنکھوں سے اس کے خیالات کو گویا ئی بخش دی۔
’’امی ! آپ فکر نہیں کریں۔ میں مشرف کو سمجھا ئوں گا ، اس کے دوستوں سے بات کروں گا ۔ آپ بے فکر رہیں ابو کو پتا بھی نہیں چلے گا اور ان شاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔‘‘ ، وہ حسبِ عادت گھر والوں کو تسلی دے رہاتھا مگر کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا یہ اسے خود نہیں معلوم تھا۔ ’’تم ایسا کرو کہ ......‘‘ ، عالم آراء نے اسے کچھ کہنے کے لئے بات شروع کی کہ دروازے پر زوردار دھماکے کی آواز آئی۔وہ سب دروازے کی طرف بڑھے۔ یوسف صاحب بے سُدھ فرش پر پڑے تھے۔ وہ سب کچھ سُن چکے تھے۔ 
آنے والے دِن بے حد صبر ٓازما تھے۔ یوسف صاحب کے گھر سے شروع ہونے والا طوفان پورے خاندان کو ہلا چُکا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ ہنگامہ کبھی نہیں تھمے گا ۔عارف صاحب عجیب گومگو کی کیفیت میں تھے ۔سکتے میں آ گئے تھے ،نرمین مہر بہ لب تھی۔
خاندان والے یوسف صاحب کی بیماری کی پرواکئے بغیر بڑھ چڑھ کر دشنام طرازیاں کر رہے تھے اور ان سب میں نمایاں تھے آصف چچا جو ایک کھلے دشمن کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اُنہیں موقع مل گیا تھا اپنی دُشمنی نکالنے گا۔ وہ کاروبار سے بیدخل کئے جانے کا پورا بدلہ لے رہے تھے، خاندان بھر میں اپنے کدورت بھرے دل کی بھڑاس یہ کہہ کر نکال رہے تھے کہ ’’یہ ہے بھائی جان کی اولاد، میرے جیسے خدمتگار اور محنتی چھوٹے بھائی کو اسی اولاد کی خاطر بھائی جان نے کاروبار سے نکالا تھا۔ مجھے پائی پائی کا محتاج کر دیا ۔آج قدرت نے ان کو کیسا سبق سِکھایاہے۔ آج یہی نافرمان اور نا خلف اولاد ان کو پورے خاندان میں رسوا اور خوار کر رہی ہے ‘‘۔ ان کی بیگم بھی ان کا ساتھ بھر پور طریقے سے دے رہی تھیں۔ مشرف کے ساتھ ساتھ صارف کو بھی بُرا بھلا کہا جا رہا تھا۔ عالم آراء کی تربیت پر انگشت نمائی کی جارہی تھی اور یوسف صاحب کو بے حس اور اولاد کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنے والا بے ضمیر و بے حمیت بھائی گر دانا جا رہا تھا۔یوسف صاحب کا پورا گھرانہ اس نازک صورتحال سے نمٹ رہا تھا۔ عالم آراء کی پوری کوشش تھی اور انہوں نے بچوں کو بھی ہدایت کر دی تھی کہ وہ یوسف صاحب کو خاندان والوں کے زہر یلے خیالات سے آگاہ نہ ہونے دیں۔ وہ بے حد کمزور اور نڈھال نظر آنے لگے تھے۔ ہر وقت کی طبی امداد نے انہیں سنگین صورتحال سے بچا تو لیا تھا مگر وہ مشرف کی حرکت پر اندر سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔
’’مُجھے کیوں بچا لیا عالی؟ ‘‘ ،وہ عالم آراء سے مُخاطب تھے۔’’مر جانے دیا ہوتا، اس ذلت اور بے بسی سے تو موت بہتر ہے ۔ کاش  میں بے ہوشی میں ہی ختم ہو جاتا‘‘۔وہ آجکل بچوں کی طرح بات بات پر رو پڑتے تھے۔ اس قدر مضبوط انسان کو اتنا بے بس اور دل گرفتہ دیکھ کر عالم آراء کا دل خون کے آنسو روتا مگر وہ خود کو مضبوط بنا لیتیں، ’’آپ فکر مت کریں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ قدرت پھر سے ہمیں ہماری خوشیاں لوٹا دے گی ۔لوگوں کی پروا مت کریں ۔ لوگوں کا کام یہی ہے، جتنا ان کا خیال کرو، وہ اتنا ہی نشتر چبھوتے ہیں ۔ یہی لوگ تھے ناں جو کل آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے ۔آج آپ کو بیمار اور کمزور پا کر کیسے سنگدلی سے بڑھ بڑھ کر لفظوں کے تیر برسا رہے ہیں۔دیکھئے گا ذرا حالات سنبھلنے دیں ، یہ لوگ پھر سے ہماری وفاداری کا دم بھریں گے۔ بس تھوڑا سا صبر کر لیں ‘‘۔
وہ لجاجت اور دلسوزی سے سمجھارہی تھیں۔ دراصل ان کی بہ حد احتیاط کے باوجود خاندان کے کچھ لوگ یوسف صاحب کی خیریت دریافت کرنے کے بہانے گھر آگئے تھے چنانچہ پھرو ہی سلسلہ چل نکلا، پہلے مشرف کا ذکر کیاگیااور اس کے بعد طنز اور تمسخر سے یوسف صاحب کا دُکھی دل مزید زخمی کر کے چلے گئے۔
درمیان میں عالم آراء نے بڑی کوشش کی کہ ان مہمانوں کو موضوع بدلنے یا یوسف صاحب کے سامنے طنز کرنے سے باز رکھا جائے مگرتمام کوششیں ناکام رہیں۔ان کو بہت آرام سے یہ کہہ کر ٹالا گیا کہ ارے! ہم کونسا آپ کو الزام دے رہے ہیں، ہم تو مشرف کی بے حسی اور بے حیائی کا ذکر کر رہے تھے۔ دراصل مشرف کی صحبت ہی بُری ہے مگر آپ لوگوں کو پہلے ہی ہوشیار ہو جانا چاہئے تھا اس کے کر توت دیکھ کر ۔ ایک صاحبہ کیک کھاتے ہوئے زہر افشانی کر رہی تھیں،’’ہائے !میں تو پارٹی میں ہی سمجھ گئی تھی ، اس بے شرم تتلی کو دیکھ کر میرے ذہن میں فوراً ہی خیال آیا کہ اب کچھ بُرا ہونے والا ہے اورآپ نے دیکھا کہ مشرف تو تتلی کے پاس سے ہل بھی نہیں رہا تھا۔
ایک اور خاتون نے پیزا کا تیسرا ٹکڑا اُٹھاتے ہوئے بڑی تمسخر انہ مُسکراہٹ سے بتایاکہ ’’بھئی ! میں تو اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھتی ہوں، ان کے دوستوں اور ملنے والوں پر ۔بھائی صاحب ! بچوں کو دیکھنا پڑتا ہے ۔ بڑی جان لگانی پڑتی ہے ، دن رات رکھوالی کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کر اولاد نیک اور سعادت مند بنتی ہے ۔ میری تو رات کی نیند اور دِن کا چین سب رُخصت ہو گیا تب اولاد کی تربیت کر پائی ہوں۔‘‘
یوسف صاحب کے بڑبولے رشتہ داروں نے اپنے اپنے محاسن گنوائے توسب ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور مہمانوں کو چائے سرو کرتی کشمالہ اور انیلہ بڑے کرب سے سوچ رہی تھیں کہ ابھی تو ان انکل کا بیٹا دو دریا کے علاقے میں نشہ آور اشیاء کے ساتھ پکڑا گیا تھا اور تین دِن حوالات میں رہ کر بڑی سفارش پر چھوٹ کر آیا تھا۔ 
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: