Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اصغر خان کیس ہمیشہ کےلئے دفن

***٭٭٭ڈاکٹر منصور نورانی
25برس پہلے ہمارے یہاں ایک اکیلے شخص اصغر خان نے جس کا تعلق بھی ملک کے ایک مقدس ادارے سے ہی تھا سیاست اور جمہوریت میں دیگر اداروں کی بے جا مداخلت اور رخنہ اندازی کو روکنے کی غرض سے ایک مقدمہ وطن عزیز کی اعلیٰ عدالتوں کے سپرد کیاتھاکہ وہ اُسے سنکر کوئی ایسا فیصلہ صادر کردیں جس سے اِس ملک کے سیاسی معاملات میں دوسروں کی مداخلت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے مگر افسوس کہ اُس کی زندگی میں یہ مقدمہ کبھی بھی فیصلہ کن مرحلے تک پہنچا ہی نہیں۔ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے سے اُسے سرد خانے میں ڈال دیاجاتا رہا۔وہ بے چارہ اِس مقدمہ کے فیصلے کے انتظار میں دارفانی ہی سے کوچ کرگیا مگر وہ اپنی زندگی میں اُس کا منطقی انجام نہ دیکھ سکا۔ایک لحاظ سے یہ اُس کے حق میں اچھا ہی ہوا کہ وہ کوئی فیصلہ سننے سے پہلے ہی اپنی طبعی موت کے ذریعے خاموشی سے دوسری دنیا میں جابساورنہ اگر دوچار سال مزید زندہ رہ جاتا توآج اپنے اِس کیس کا حتمی انجام سنتے ہی شدت غم سے یقینا اختلاج قلب کا شکار ہوجاتا۔ملک کے سیاسی حالات و اقعات پر گہری نظر رکھنے والوں نے تو پہلے ہی اندازے اور نتائج اخذ کرلئے تھے کہ اِس کیس کا کوئی حتمی فیصلہ قطعاً ممکن نہیں ہے۔ایف آئی اے کی جانب سے جو مشورہ اِس سلسلے میں دیاگیا ہے وہ سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار احمد ا گر پہلے ہی سمجھ لیتے تو قوم اِس کشمکش اور بے یقینی کی مزید اذیت سے یقینا بچ جاتی۔2007ء کی تحریک بحالی عدلیہ کی کامیابی کے بعد اُس کے سپہ سالار چوہدری افتخار نے شاید یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ اب اِس ملک سے ساری ناانصافیاں یکدم دور کردینگے۔اُنہوں نے اپنے دور میں کئی ایک سو موٹو لئے اور کئی ایک بڑے فیصلے بھی کئے لیکن کسی ایک کو بھی نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اُن کے دور میںجوڈیشل ایکٹیوزم کامظاہرہ تو ضرور دیکھا گیا لیکن اُس کے فیصلوں سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا ۔اصغر خان کیس کے مردے کو سرد خانے سے نکال کر کمرہ عدالت میں لانے کے اُن کے عمل نے ہمارے کچھ ناسمجھ اورکم عقل دانشوروں کو اِس خوش فہمی میں مبتلا کردیا کہ جیسے اب اِس ملک کاسارا نظام ہی بدل جائے گا اور وہ روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی صحافتی بصیرت اوردانشمندی کے جوہر دکھانے لگے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اِسے نعمت غیر مترقبہ جانا اور مسلم لیگ نون دشمنی میں پرانے ادھار چکانے شروع کردئیے۔لعن و طعن کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیااور اپنے سیاسی مخالفوں کو مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا۔
خوش گمانیوں اور خوش فہمیوں کے چند ایک سال گزارنے کے بعد آج ہم پر یہ راز ایک بار پھر افشا ہوا ہے کہ یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں۔مہران بینک کے یونس حبیب اور اسد درانی کے اقبالیہ بیانوں کے باوجود یہ کہا جارہا ہے کہ طویل وقت گزرجانے کی وجہ سے پیسہ دینے والوں اور پیسہ لینے والوں سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل پارہے ۔گواہوں کے بیانات میں تضادات کی وجہ سے تحقیقاتی ادارہ کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے سے قاصر ہے لہٰذا  اِس کیس کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کی سفارش کی گئی۔اصغر خان کیس سیاست اور جمہوریت میں دوسروں کی مداخلت کاایک چھوٹا سا معمولی کیس ہے ورنہ مملکت کے معرض وجود میں آنے کے دن سے اب تک بڑے بڑے واقعات اور اسکینڈل ایسے گزرے ہیں جن پرلب کشائی کرنے سے پہلے ہی ہم سب کی زبانیں کند ہوجاتی ہیں۔سانحہ مشرقی پاکستان یاسقوط ڈھاکاکے اندوہناک واقعہ کے اصل ذمہ داروں کاتعین بھی آج تک اِسی انجانے خوف اور ڈر کی وجہ سے نہ ہوسکا اور مشہور زمانہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ بھی شاید اِسی لئے منظر عام پرلانے سے پہلے ہی ناقابل تشہیرقرار دیدی۔بیرون ملک ہمارے کئی مالدار لوگوں کی جائیداد کا واپس لانایقینا ایک مشکل اور ناممکن کام تھا ۔ملکی بینکوں سے قرضے لینے والے بہت سے بڑے بڑے ملزمان آج بھی زندہ ہیں اور سینہ تان کر سب کے سامنے گھوم پھر رہے ہیں لیکن کیامجال کہ ملک کا کوئی ادارہ یاکوئی آ ہنی ہاتھ اُن کے گریبانوں تک بھی پہنچ جائے۔یہ حال دیکھ کر ہمارے لوگ مایوس اور بددل ہوجاتے ہیں۔ 
 

شیئر: