Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساس بے حد مشفق ہیں،مجھے کچن کا سب کام سکھایا،اریج ارسلان

زینت شکیل۔جدہ
  الحئی القیوم سے ہم سب کو مغفرت کا طلبگار رہنا چاہئے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔کائنات میں موجود مٹی،ہوا، پانی اور سورج کی روشنی اجزائے انسانی ہیں۔ ان کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ زندگی ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔اس کی ایسی ہی حفاظت کرنی چاہئے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ طیب رزق سے اس خاکی پیکر کی آبیاری کرنی چاہئے۔ یوں قلب میں اپنے مالک حقیقی کی کبریائی ہر لمحہ موجود رہتی ہے۔
    روزمرہ زندگی میں انسان چھوٹے بڑے کارنامے انجام دیتا رہتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی خوشی کو محسوس بھی کرتا ہے۔ سال میں دو اسلامی تہوار عیدالفطر اور عیدالضحیٰ اپنی اہمیت میں بے مثال ہیں۔خوشی و انبساط کا عجب امتزاج ہر مومن کو بے پایاں خوشی دیتا ہے۔ اس خوشی کو حاصل کرنے کی ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے۔ عید کا لفظ ہی خوشی کی نوید دیتا ہے۔
     جمعہ کا دن تمام دنوں میں افضل ہے۔ جو لوگ جمعہ کے دن سنت طیبہ کا خاص اہتمام کرتے ہیں ان کا معاملہ بہت اچھا لکھا گیا ہے۔ اسی موضوع پر ہوا کے دوش پر ہماری گفتگو محترمہ اریج سے ہوئی۔انہوں نے سائنس کے مضامین کا انتخاب کیا اور یہی وجہ بنی کہ انہوں نے اپنا زیادہ وقت پڑھائی میں لگایا اور کچن کا رخ کم کم ہی کیا لیکن وہ یہ جانتی تھیں کہ ان کی امی بہت اچھا کھانا بنا نا جانتی ہیں چنانچہ جب بھی وہ کھانا بنانا سیکھیں گی تو اپنی امی کی طرح مزیدار ہی بنائیں گی۔
    اریج ارسلان صاحبہ اپنے بڑے بھائی اور بہن کی لاڈلی ہیں۔ گھر میں سب انکی فرمائش کی چیزوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ۔ان کے لئے سردی کے موسم میں گجریلا کئی مرتبہ بنایا جاتا ہے کیونکہ یہ اریج کو بہت پسند ہے اور سب ہی انکی فرمائش پر تیار کی جانے والی اس سویٹ ڈش کو خوب انجوائے کرتے ہیں۔
    اریج صاحبہ کی والدہ کی سہیلی کے ہمراہ ایک فیملی مکہ مکرمہ سے انکے گھر جدہ آئی۔ ان لوگوں کی پہلی ہی ملاقات تھی لیکن اس میں ہی انہوں نے اپنے صاحبزادے کا ذکر کیا اور کچھ دنوں کے بعد باقاعدہ رشتہ آگیا۔ پہلے تو بات طے ہوئی اور جیسے ہی فائنل امتحان ہوا ،شادی کی تاریخ رکھ دی گئی۔ تھوڑے دنوں میں تیاری ہوئی لیکن اس میں اکثر چیزیں پسند کے مطابق تیار ہو گئیں۔ اریج صاحبہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی امی کو بچپن سے ہی دعوتوں میں میزبان کے ساتھ ہاتھ بٹاتے دیکھا تھاکہ کہیں پہنچے اور وہاں رمضان کریم میں روزہ افطار کرنے کے بعد ڈنر کا بھی انہوں نے انتظام کیاگیا ہے لیکن فرائیڈ چیزوں کے کئی آئٹم ایسے ہیں جو فرائی ہونے سے رہ گئے ہیں تووہ فوراً دوسری کڑاہی میں ان سب کو تل لیتیں ۔ان کا انتظار کئی گھروں میں ہوتا تھا۔ وہ جلدی پہنچ جاتیں تومیزبان خوش ہوجاتے کہ وہ ضرور کچن کا رخ کریں گی اور انکے تیز رفتاری سے کام کرنے کی بدولت چند منٹوں میں کام سمٹ جاے گا ۔کوئی مہمان اگر بغیر بتائے یہ سوچ کر آجائے کہ تھوڑی دیر ملاقات کے بعد واپسی کا کہہ دیں گے لیکن اسی دوران امی کوکر کا بہترین استعمال کرتیں۔ چاول پانی میں ڈال کر پہلے سے بنے کباب تل کر سلاد، رائتہ تیار کر لیتیں اور یہی کوئی آدھ گھنٹے بعد جب ٹیبل پر مٹن پلاﺅ،چکن کڑہائی ،شامی کباب کے ساتھ تمام لوازمات اور سویٹ ڈش قرینے سے سجی دیکھتے تومہمان یہ سوال کرنا نہ بھولتے کہ کیا آج آپ کے گھر کسی فیملی کی دعوت ہے اور انکا انتظار ہے مگر وہ اس وقت حیرت زدہ رہ جاتے جب انہیں پتا چلتا کہ یہ سب کچھ اتنے کم وقت میںان کے لئے ہی تیار کیا گیا ہے۔
اسے بھی پڑھئے:شوہر افسانے کو سراہتے ہیں، میں ہواﺅں میں اڑنے لگتی ہوں، سیمیں
    محترمہ اریج نے کہاکہ امی جان کو اتنے مختصر وقت میں کھانا تیار کرتے دیکھتی تو یہی سمجھتی تھی کہ لوگوں نے خواہ مخواہ کچن ورک کو ایک مشکل کام سمجھ رکھا ہے لیکن جب سسرال آئی تو معلوم ہوا کہ کوئی چیز جب تک خود نہ تیار کریں، معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیسی بنی ہے ۔ میری ساس امی بے حد مشفق ہیں۔ انہوں نے مجھے کچن میں موجود رہ کرتمام کام سکھائے اور اب میری سمجھ میں آیا کہ دیکھ کر آپ سیکھ سکتے ہیں لیکن جب تک خود کوئی چیز تیارنہ کریں، اس وقت تک معلوم نہیں پاتا کہ پکوان کیسا بنا ۔ یہ بات تو ہر گھر پرکہی اور سنی جاتی ہے کہ آج مہمانوں کے لئے خاص اہتمام سے بنانا ہے چنانچہ پوری توجہ دی جاتی ہے۔ خاص طور سے بریانی یا پلاﺅ کے چاول بالکل نکھرے نکھرے ہوں۔اگر
 چاول میں پانی اندازے سے کچھ زیادہ ہو گیا تو سمجھیں کہ ساری محنت رائگاںگئی ۔
    اریج ارسلان نے اپنے بچپن کے بارے میں کہا کہ وقت بہت جلدی گزر جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم لوگ ایک ہفتے میں تین دنوںتک ویک اینڈ کے پروگرام بناتے تھے پھر بھی ہم بچوں کا دل آﺅٹنگ سے نہیں بھرتا تھا ۔جب بھی مکہ مکرمہ یا مدینہ شریف جانا ہوتا خوب اہتمام سے تیار ہوتے اور بڑوں کے ساتھ ساتھ رہتے۔اب تو زیادہ رش رہنے لگا ہے لیکن اُس وقت تو ہم لوگوں کو ایک جگہ پر بٹھا دیاجاتا تو سعی کے دوران ہر چکر میں ہم بچے امی اور ابو کو ہاتھ ہلاتے اور انہیں بتاتے کہ اب آپ کے اتنے چکر مکمل ہوگئے ہیں۔ ہم بھائی بہن چکرگنتے رہتے تھے۔
    محترم علی ارسلان نے کامرس کے مضامین کا انتخاب یہی سوچ کر کیا کہ آج کوئی بھی ملک اپنی مستحکم اقتصادی صورتحال ہی کی بدولت ترقی یافتہ اور طاقتور مانا جاتا ہے۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دی جائے۔ اسمال انڈسٹریز کو دوبارہ ترقی دی جائے۔ کسی ہنر کا سیکھنا طالب علم کے لئے لازمی قرار دینا چاہئے۔ اس طرح ملک ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہوسکے گا۔ اس کے لئے وہی قدیم دورکا اصول آج بھی کارآمد ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنائے اور دوسرے کے کاموں میں بے جا مداخلت نہ کرے۔ ارسلان صاحب سمجھتے ہیں کہ محنت سے انسان بہت جلد ترقی کی منزلیں طے کر لیتا ہے ۔وقت کو ضایع نہیں کرتا۔ دراصل ہر فرد اپنے رجحان کے مطابق مختلف شعبے میں دلچسپی لیتا ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہوتا ہے۔ اگر اپنے مزاج کے خلاف کام کرنا پڑے تو اس میں وہ کامیابی حاصل نہیں ہوپاتی جو ترقی کی سیڑھیاں جلد طے کرادے۔ اس لئے بچوں کے ذہنی رجحان کے مطابق انہیں پورا موقع دیاجانا چاہئے کہ وہ اپنے پسندیدہ مضامین کا انتخاب کریں اور اسی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو منوائیں۔
    علی ارسلان اپنے دونوں صاحب زادوں موسیٰ اور ہارون کے حوالے سے یہی خواہش رکھتے ہیں کہ دونوں بھائیوں میں بے حد محبت ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے ذرابڑے ہوجائیں تو وہ انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات انہیں تفصیل سے بتائیں گے جن کا ذکر ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔انہوں نے ا پنی اہلیہ اریج کے بارے میں کہا کہ وہ دھیمے لہجے میں بات کرنے والی خاتون ہیں اورہمارے گھر میں ان کی شخصیت کو سب ہی پسند کرتے ہیں ۔ کوئی بھی کام ہو ، وہ مشورہ ضرور کرتی ہیں، یہ ان کی اچھی عادت ہے۔ اس طرح بزرگوں کو اہمیت دی جاے تو انکی اچھی تجاویز بھی ملتی ہیں اور انکی دعائیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔
    محترمہ اریج کا خیال ہے کہ جہاں بہو کو بیٹی جیسا سمجھا جائے، کوئی کام نہ آتا ہو تو اپنائیت سے سکھایا جائے اور اس کے کئے کی تعریف بھی کی جائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی؟ ان کے دونوں بچے اپنے بزرگوں کے سائے میں تربیت پارہے ہیں ۔یہ خوش نصیبی کی بات ہے ۔موسیٰ اور ہارون کی کوئی فرمائش انکے بابا جان رد نہیں کرتے۔ ان کا ہر ویک اینڈ مصروف گزرتا ہے۔ کھیل کے شوقین ہیں چنانچہ انہیں مختلف جگہوں پر پلے لینڈ جانا اچھا لگتا ہے۔ اریج کا کہناہے کہ ارسلان صاحب بہت محنتی ہیں ۔دن بھر مصروف رہتے ہیں، کہتے ہیں ذاتی کاروبار میں وقت دینا ضروری ہوتا ہے۔ ملازمین پر بھروسہ کرنا چاہئے لیکن آنکھ بند کر کے نہیں۔وہ اپنے بڑے بھائی صاحب کی بہت قدر کرتے ہیں ۔ایک بہن کا سسرال پاکستان میں ہے لیکن دوسری بہن بیرون ملک رہتی ہیں ۔انکی آمد کے موقع پر سیرو تفریح کے پروگراموں میں خوب اضافہ ہوجاتا ہے۔
    اریج صاحبہ کا کہنا ہے کہ میرے شوہر ارسلان اپنے والدین کے فرمانبردار ہیں۔ انکی خدمت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ادب کی بات ہوئی تو اریج نے کہا کہ سائنس کے اسٹوڈنٹس کو ادب سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا لیکن پھر بھی کئی شاعر ایسے ہیں کہ جن کی شاعری دل کو چھو لیتی ہے۔ ان میں منیر نیازی بھی ہیں جنہوں نے اپنے عہد کے کئی پائے کے شاعروں کی طرح نظریات یا علوم سے وابستگی نہیں رکھی بلکہ انکی وابستگی اصل شاعری سے رہی۔یہ خوبی انہیں ایک الگ اور منفرد شاعر کی حیثیت میں پیش کرتی ہے۔ منیر نیازی کی ”رنگ رنگیلے پنکھوں والے پنچھی ہوتے“ ایک ایسی کاوش ہے جس سے بڑے اور چھوٹے سب ہی ایک جیسی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
 رنگ رنگیلے پنکھوں والے پنچھی ہوتے
رنگ رنگیلے پنکھوں والے پنچھی ہوتے
 جب ساون کا مہینہ آتا
کالی گھور گھٹائیں لاتا
بوندوں کے سنگ راس رچاتے
ڈال ڈال پر شور مچاتے
ہرے ہرے پتوں میں سوتے
رنگ رنگیلے پنکھوں والے پنچھی ہوتے
 پھر پھولوں کی رت آجاتی
سارے جگ میں رنگ جماتی
 کلی کلی سے نین ملاتے
پھولوں کا مکھ چومنے جاتے
خوشبوﺅں میں سدھ بدھ کھوتے
رنگ رنگیلے پنکھوں والے پنچھی ہوتے
 پھر اک ایسی رت بھی ہوتی
بجھنے لگتی جیون جوتی
 ٹھنڈی ہواﺅں میں اڑ جاتے
کسی جتن سے ہاتھ نہ آتے
دور دیس میں بیٹھ کے روتے
رنگ رنگیلے پنکھوں والے پنچھی ہوتے
    نئے سال کی مناسبت سے منیر نیازی کا ایک فن پارہ:
نیا سال آیا ہے
 ویران صبحوں کی نیلی تہوں سے ابھرتا
 خیابان و دشت و جبل کی ٹھٹھرتی خموشی میں برفیلی سیٹی بجاتا
دبے پاﺅں آیا
 یخ آلود شاموں کی خاموشیاں
اس کے قدموں کی آہٹ سمیٹے
 گزر گاہوں پر سائبانوں میں گریہ کناں ہیں
در آتی ہے شب کو دریچوں کی درزوں سے
پر شور جھونکوں کی بے مہر ٹھنڈ ک
برودت زدہ پانیوں پرپرندے
کناروں پہ ایستادہ پیڑوں کی نمناک
شاخوں کی جانب اڑے جارہے ہیں
مکیں آنگنوں میں چھتوں پر
دھڑکتے دلوں میں ہزاروں خیالوں کی شمعیں جلائے
 دبے پاﺅں آتے ہوئے سال کو دیکھتے ہیں
    نیا سال اور ہر آنے والے سال کی مبارکباد کہ ہر کا م وقت پر انجام پذیر ہو پوری دنیا میں امن اور امان ہو، آمین۔

      

 

شیئر: