Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئے سال کا تحفہ

***معصوم مرادآبادی***
سچ پوچھئے تو ہم ہندوستانیوں کیلئے نئے سال کا سب سے بڑا تحفہ وزیراعظم نریندرمودی کا وہ انٹرویو تھا، جو انہوں نے ایک خبررساں ایجنسی کو دیا ہے۔ اس انٹرویو کی پہلی خاص بات تو یہ تھی کہ اس میں وزیراعظم نریندرمودی کا چہرہ اتراہوا تھا اور وہ اپنے پچھلے کردار سے مختلف نظر آرہے تھے۔ دوسری خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے کچھ ایسے سلگتے ہوئے سوالوں کے جواب دیئے جن سے وہ اپنا دامن بچاتے رہے ہیں۔ ہم نے اس انٹرویو کو نئے سال کا تحفہ اس لئے کہا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد ان کا یہ پہلا انٹرویو تھا اور یہ سال کے پہلے ہی دن ٹی وی چینلوں پر دکھایاگیا۔ پچھلے ساڑھے 4 سال کے دور اقتدار میں وزیراعظم نے کسی صحافی کو نہ تو کوئی انٹرویو دیا ہے اور نہ ہی کوئی پریس کانفرنس کی ہے۔ یہاں تک کہ غیر ملکی دوروں میں صحافیوں کو ساتھ لے جانے کی وزیراعظم کی روایت بھی انہوں نے ختم کردی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ وزیراعظم صحافیوں سے خوف کھاتے ہیں یا پھر ان کے سوالوں کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں میڈیا سے دوری بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس دوری کا انہیں کیا فائدہ حاصل ہوا ہے، یہ تو ہمیں نہیں معلوم، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس فاصلے کے نتیجے میں بہت سے ایسے سوالات تشنہ رہ گئے ہیں جن کا جواب ایک وزیراعظم کے طور پر انہیں ملک کے عوام کو دینا چاہئے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ان کا محبوب مشغلہ عوامی جلسوں میں تقریریں کرنا ہے، جہاں وہ خوب باتیں کرتے ہیں اور ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے عوامی جلسوں میں کسی بھی لیڈر کو صرف اپنی بات کہنی ہوتی ہے اور وہاں کسی کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس پریس کانفرنس اور انٹرویو میں تیکھے سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  
سال کے پہلے دن وزیراعظم نریندرمودی نے جو انٹرویو دیا ہے۔ اس میں انہوں نے یکطرفہ طور پر صرف اپنی باتیں کہی ہیں اور صحافی کو کاؤنٹر سوال کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔ظاہر ہے کاؤنٹر سوالات کے بغیر کوئی بھی انٹرویو مکمل نہیں ہوتا۔ سوال وجواب کے سادہ سلسلے کے لئے صحافی کا موجود ہونا بھی ضروری نہیں چونکہ اس قسم کے سیدھے سادے سوالات وزیراعظم کو لکھ کر بھی دیئے جاسکتے ہیں جن کا جواب وہ اپنے کسی سکریٹری سے لکھواکر بھجوادیتے لیکن نہ جانے کیوں انہوں نے ایک صحافی کے سامنے بیٹھ کر تقریری انٹرویو کی زحمت گوارا کی۔ ہوسکتا ہے کہ حالیہ 5 ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں کراری شکست کے بعد انہیں یہ احساس ہوا ہو کہ عوام سے ان کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ ظاہر ہے میڈیا عوامی رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، لہٰذا انہوں نے بادل نخواستہ ہی سہی ایک انٹرویو دینے کی زحمت برداشت کی حالانکہ انٹرویو کرنے والی خاتون صحافی نے ان تمام سلگتے ہوئے موضوعات کو چھیڑا جو اس وقت ملک وقوم کو درپیش ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک سوال کا بھی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
 اس انٹرویو کے جس حصے کو میڈیا نے سب سے زیادہ نمایاں کیا ہے، وہ دراصل رام مندر پر آرڈیننس لانے سے متعلق ایک سوال کا جواب تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہاکہ ’’سرکار اس معاملے میں آرڈیننس نہیں لائے گی اور عدالت کے فیصلے کے بعد سرکار کی جو بھی ذمہ داری ہوگی اسے پورا کیاجائے گا۔ ‘‘ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ عدالت میں ایودھیا کا تنازع حق ملکیت کے مقدمے کے طورپر زیر سماعت ہے اور اس میں رام مندر کا معاملہ زیر بحث نہیں ہے۔ اگر عدالت بابری مسجد کے حق میں فیصلہ صادر کرتی ہے تو کیا وزیراعظم اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے بابری مسجد کی تعمیر نو کے سلسلے میں قدم اٹھائیں گے؟ یہ سوال اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ وزیراعظم جس پارٹی کی قیادت کرتے ہیں، وہ دراصل رام مندر کی حامی ہے اور اس نے اپنے انتخابی منشور میں بھی عالیشان رام مندر بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ 
وزیراعظم نے عدالت کے فیصلے کے بعد اپنی ذمہ داری نبھانے کی جو بات کہی ہے اسے میڈیا نے بڑی اہمیت کے ساتھ شائع کیا ہے اور اس کا مفہوم یہی ہے کہ وہ رام مندر کے حق میں راستہ ہموار کریں گے۔ انہوں نے یہ بیان ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے آر ایس ایس اور وشوہندو پریشد جیسی جارحیت پسند تنظیموں کے دباؤ میں ہی دیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ایودھیا تنازع ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ عدالتیں اب تک اسے حل کرنے میں پہلو تہی کرتی رہی ہیں۔ سنگھ پریوار نے طاقت کے زعم میں اس مسجد کو شہید کرکے وہاں ایک مندر کا ڈھانچہ کھڑا کردیا ہے۔ اب سنگھ پریوار کے لوگ یہاں ایک عالیشان رام مندر بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو زیر کرنا ہے اور انہیں دوئم درجے کے شہری ہونے کا احساس دلانا ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی سچا ہندو ایسے مندر میں پوجا کرنا پسند نہیں کرے گا جس کی بنیادیں ہزاروں بے گناہوں کی لاشوں پر استوار ہوں۔
 رام مندر کی تعمیر کا شور درحقیقت سیاسی مقاصد کیلئے بلند کیاجارہا ہے اور اس کا خاص مقصد رواں سال میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں لانا ہے۔ بی جے پی حکومت نے گزشتہ ساڑھے 4 سال کے دوران عوام کو بے حد مایوس کیاہے اور وہ اپنا کوئی بھی انتخابی وعدہ پورا نہیں کرپائی ہے۔ اپنی ناکامیوں کو رام مندر کے شور میں دبانے کی یہ کوشش فی الحال کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے چونکہ عوام اب بیدار ہوچکے ہیں اور بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں