Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہرمقتول شہید کہلانے کا حقدار نہیں

حقیقی   شہید وہ ہے جو اللہ کے راستے میںکافروں سے لڑتے  ہوئے  میدان جہاد میں کام آجائے اور اپنی جان قربان کردے
محمد عابد ندوی۔ جدہ
    بنی نوع انسان پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات و احسانات ہیں۔ انسان کے پاس سب سے قیمتی سرمایہ خود اس کی اپنی جان ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی  یہ متاعِ عزیز قربان کردے تو سچ یہ ہے کہ :
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
    لیکن اللہ تعالیٰ بڑا قدر دان ہے، اسی قربانی کی اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدر و قیمت ہے اور ایسے شخص کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ قرآن پاک کی بے شمار آیات اور صحیح احادیث  کا ذخیرہ اس پر شاہد ہے۔ سورۃالبقرہ آیت 154 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
     "اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں  مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم (اس زندگی کا) شعور نہیں رکھتے۔"
     اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
     "اور جو  لوگ اللہ کی راہ میں قتل کردیئے گئے آپؐ انہیں مردہ نہ سمجھیں بلکہ وہ تو اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں روزی دی جاتی ہے اور اللہ نے انہیں اپنے فضل سے  جو کچھ دیا ہے اس پر خوش ہیں اور ان لوگوں کے بارے میں بھی جو ابھی ان سے نہیں ملے (یعنی ابھی شہادت کا مرتبہ نہیں پایا) اس بات سے خوش ہورہے ہیں کہ (وہ جب شہید ہوکر آئیں گے تو) ان پر  نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم لاحق ہوگا نیز وہ اللہ کے فضل اور نعمت پر خوش ہورہے ہیں اور بے شک اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں فرماتا۔"( آل عمران 171-169 ) ۔
     جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنی جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ان سے اللہ نے مغفرت ، اجرعظیم اور جنات عدن میں عمدہ رہائش گاہوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ جنت کا یہ وعدہ نہ صرف قرآن پاک میں بلکہ پچھلی آسمانی کتابوں تورات و انجیل میں بھی بیان ہوا ہے اور اللہ سے بڑھ کر سچا  وعدہ کس کا ہوسکتا ہے؟(دیکھئے سورہ توبہ آیت  112 / سورہ صف آیت 13-10 )۔
    جو شخص اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کی کوششوں میں اپنی جان قربان کردے اور کافرومشرک کے ہاتھوں مارا جائے اس کو شریعت کی اصطلاح میں "شہید" کہتے ہیں۔ اس کے لغوی معنیٰ حاضر و موجود اور گواہ کے ہیں۔ گواہی کو شہادت اور گواہی دینے والے کو "شاہد" اسی بنا پر کہتے ہیں کہ وہ کسی معاملہ  اور واقعہ کے وقت موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے گواہی دیتا ہے۔ اصطلاحی شہید کو شہید کہنے کی مختلف وجوہ علماء نے بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ وہ قرآن کی شہادت کے مطابق مرنے کے بعد بھی زندہ (اور موجود) ہے گرچہ اس زندگی کا صحیح ادراک اس دنیا میں ہم نہیں کرسکتے یا پھر  اس وجہ سے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں جنت  میں سیر وتفریح کررہی ہیں(جیسا کہ ایک حدیث سے ثابت ہے) جبکہ دیگر مومنین کی ارواح جنت میں روز قیامت داخل ہوں گی اور بعض نے یہ وجہ بیان کی کہ شہید، روح پرواز کرتے وقت ہی آئندہ ہونے والے اعزازواکرام اور اجروثواب کا مشاہدہ کرلیتا ہے۔ ایک صحیح  حدیث میں رسول  اللہ کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ کے نزدیک شہید کیلئے 6 خوبیاں ہیں:
     1)خون کے پہلے قطرہ کے ساتھ ہی  اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اور وہ جنت میں اپنا مقام دیکھ لیتا ہے۔
     2)عذاب قبر سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔
     3 ) وہ بڑی گھبراہٹ سے بھی محفوظ ہوگا  (جو لوگوں کو دوسری بار صور  پھونکے جانے اور قبروں سے اٹھائے جانے کے وقت لاحق ہوگی )۔
     4) اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا و  مافیہا سے بہتر ہوگا۔
     5) بڑی آنکھوں والی  72 حوروں سے اس کا نکاح کردیا جائے گا۔
     6) اس کے  70 رشتہ داروں کے حق میں اس کی سفارش سنی جائے گی (ترمذی  )
     رسول اللہ سے ایک مرتبہ دریافت کیا گیا کہ لوگوں میں کونسا شخص افضل ہے؟ آپنے جواب میں ارشاد فرمایا:
     "وہ مومن جو اللہ کے راستہ میں اپنی جان اور اپنے مال سے جہاد کرے "  (  بخاری  ) ۔
    اللہ کے راستہ میں جو قدم گرد آلود ہوں ان کیلئے یہ بشارت  ہے کہ جہنم کی آگ انہیں نہ چھو سکے گی  (  بخاری    ) ۔
    اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح بیان کی گئی جو دن میں روزہ رکھے اور رات میں قیام (اللہ کی عبادت) کرے نیز ایسے مجاہد کیلئے اللہ کی طرف سے یہ ضمانت ہے کہ اسے وفات دے کر (شہادت سے سرفراز کرکے)، جنت میں داخل فرمائے گا یا صحیح سالم واپس لوٹائے گا لیکن اجروثواب کے ساتھ یا مال غنیمت کے ساتھ (  بخاری   ) ۔
    ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوجائے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا۔ رنگ تو خون کا ہوگالیکن اس سے مشک کی خوشبو مہک رہی ہوگی(   بخاری  ) ۔
    ایک حدیث مبارکہ میں یہ بات بیان کی گئی کہ کوئی شخص بھی جنت میں داخل ہونے کے بعد دنیا میں واپسی کی تمنا نہ کرے گا  کیونکہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کر اور بدر جہا بہتر اس کو جنت میں میسر ہوگا لیکن شہید جس اعزاز و اکرام سے نوازا جائے گا اور شہادت کا جو فضل و مرتبہ دیکھ  لے گا تو تمنا کرے گا کہ کاش میں دنیا میںجاؤں اور دوبارہ بلکہ دسیوں مرتبہ اللہ کے راستہ میں مارا جاؤں یعنی زندہ کیاجاؤں  پھر اللہ کے راستہ میں قتل کیاجاؤں   پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں(  بخاری  )۔
     الغرض شہادت کی فضیلت اور اللہ کے ہاں شہید کے مقام و مرتبہ  پر دلالت کرنے والی بے شمار احادیث نبیسے منقول ہیں اور کتب احادیث میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ بطور نمونہ اور مثال  چند احادیث یہاں بیان کی گئی ہیں۔
    اب یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی شہید کون ہے؟ یہ اجروثواب اور یہ بلندمقام و مرتبہ کن شہداء کیلئے ہے؟ شہید ایک خالص دینی  اصطلاح اور اللہ کی طرف سے انعام یافتہ بندوں کی ایک قسم ہے جیسا کہ سورۃا لنساء آیت 69 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
     "اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء  اور صالحین (نیک لوگ) اور یہی لوگ بہترین رفیق ہیں۔"
    لیکن آجکل شہید کی اصطلاح اتنی ارزاں ہوگئی ہے کہ ہر کس و ناکس کو شہید کے لقب سے نواز ا جاتا ہے اور اس کا وہ مقام و مرتبہ سمجھا جاتا ہے جو قرآن و حدیث میں شہید کا بیان کیا گیا جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ حقیقی شہید کون ہے، اس کا علم اللہ ہی کو ہے کیونکہ ہر عمل اور نیکی کی طرح شہادت کی قبولیت  میںبھی اخلاص و للہیت اور نیت کو بڑا دخل ہے ۔ صحیح بخاری کی پہلی اور مشہور حدیث ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے۔ شہادت یعنی اپنی جان قربان کرنے کی قیمت بھی اللہ کے ہاں اسی وقت ہے جب وہ اللہ کی رضا کیلئے اور  اللہ کے راستہ میں ہو۔ اس سلسلے میں کئی صحیح اور صریح روایات موجود ہیں۔ ایک طویل حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  رسول اللہ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں میں فیصلے کیلئے سب سے پہلے جس شخص کو بلایا جائے گا وہ شہید ہوگا۔  اسے اللہ کی نعمتیں گنائی جائیں گی وہ پہچان لے گا اور اعتراف کرے گا پھر اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ تم نے اس کا حق ادا کرنے کیلئے کیا کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے تیرے راستہ  میںجہاد کیا اور اپنی جان قربان کردی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم جھوٹ کہتے ہو، تمہارا مقصد تو یہ تھا کہ لوگ تم کو بہادر کہیں پس ، یہ مقصد تو (دنیا میں) پورا ہوگیا پھر اس کے بار ے میں حکم ہوگا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے ( مسلم )۔
     گویا سب سے پہلے جہنم میں داخل ہونے والا "ریاکار شہید " ہوگا جو  نیت کے کھوٹ کی وجہ سے بجائے اعزاز و اکرام کے جہنم رسید ہوگا۔ اسی طرح سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ(!) ایک آدمی مال غنیمت (دنیاوی فائدہ) حاصل کرنے کیلئے لڑتا ہے اور ایک شخص اسلئے لڑتا ہے کہ اس کا چرچا ہو اور اس کی بہادری دیکھی جائے تو اللہ کے راستہ میں لڑنے والا کون ہے؟ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا "جو اس لئے لڑے کہ  اللہ کا  کلمہ بلند ہو وہ اللہ کے راستہ میں لڑنے والا ہے۔" (  بخاری  )۔
    شہادت کی فضیلت اور شہید کے مقام و مرتبہ کا تعلق خلوص و للہیت اور  نیت سے جڑا ہوا ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ نیت دل کا عمل ہے جسے اللہ  ہی بہتر جانتا ہے یعنی کوئی شخص ظاہری طور پر کتنا ہی اچھا کام کرے لیکن اس کے پیچھے کیا جذبہ اور کیا نیت کا رفرما ہے؟ یہ اللہ ہی جان سکتا ہے چنانچہ ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ اللہ کے رسول نے مجاہد فی سبیل اللہ کی مثال بیان فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا "اور اللہ زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ میں جہاد کررہا ہے؟۔" ( بخاری  ) ۔
    اسی طرح ایک دوسری روایت میں اللہ کے راستہ میں زخمی ہونے والے کا  اجروثواب اور مقام بیان کرتے  ہوئے آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا "اور اللہ  زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ میں زخمی ہوا؟۔" (  بخاری  )۔
     اسی طرح ایک روایت اس طرح مروی ہے کہ ایک غزوہ میں ایک شخص کے بارے میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا   "وہ  دوزخیوں میں سے ہے۔" صحابہ کرام ؓ  کو اس پر تعجب ہوا کیونکہ وہ شخص مسلمانوں کی صف میں کافروں سے بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا۔ ایک صحابی نے ارادہ کیا کہ  میں اسکی خبرگیری کرتا ہوں پھر وہ دوسرے دن اس شخص کے پیچھے ہولئے۔ دیکھا کہ وہ کافروں سے خوب شجاعت و دلیری سے لڑ رہا ہے لیکن اچانک شدید زخمی ہوگیا پھر تکلیف کی تاب نہ  لاکر اپنی تلوار سے اپنے کو ختم کرلیا۔ یہ دیکھنا تھا کہ وہ صحابی رسول اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ  (!) میں گواہی دیتا ہو ں کہ آپ اللہ کے رسولؐ ہیں کیونکہ آپ نے جس شخص کے بارے میں کہا تھا کہ وہ جہنمی ہے میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے اس طرح (خودکشی) کرتے دیکھا ہے۔  (   بخاری ، مسلم )۔
    کبھی آدمی مقتول ہونے کے باوجود نیت و ارادہ کی وجہ سے  "قاتل" کے حکم میں ہوکر جہنمی ہوجاتا ہے۔ یہ حدیث ملاحظہ کیجئے  رسول اللہنے ارشاد فرمایا "جب2  مسلمان اپنی تلواروں سے باہم مدمقابل ہوں پھر ایک دوسرے کو قتل کردے تو قاتل اور مقتول دونو ں جہنمی ہیں۔" صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ  (!) قاتل تو سمجھ میں آتا ہے، مقتول کیوں جہنم  میںجائے گا؟ فرمایا" وہ بھی  دراصل اپنے ساتھی کے قتل کے در پے تھا یعنی اس کا ارادہ بھی دوسرے کو قتل کرنے کا تھا۔"(  مسند احمد  )۔
    حقیقی  اور کامل درجہ کا شہید تو وہ ہے جو اللہ کے راستے میں دین کی سربلندی کیلئے کافروں سے لڑتے  ہوئے  میدان جہاد میں کام آجائے اور اپنی جان قربان کردے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معنوی طور پر اور بھی بہت سے لوگ اللہ کے یہاں شہادت کا مرتبہ پائیں گے اور وہ شہید کے درجہ میں ہوں گے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ ان کی تعداد بے شمار ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے  ایک حدیث اس طرح مروی ہے کہ رسول اللہنے ایک مرتبہ دریافت فرمایا" تم لوگ شہید کس کو سمجھتے ہو؟ ۔"صحابہؓ نے عرض کیا  یا رسول اللہ(!) جو اللہ کے راستہ میں قتل کردیا جائے وہ شہید ہے۔ آپ نے فرمایا" پھر تو میری امت کے شہید بہت کم ہیں۔" صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ (!) پھر شہداء کون ہیں؟ آپ نے فرمایا "جو اللہ کے راستہ میں قتل کردیا جائے وہ شہید ہے اور جو اللہ کے راستہ میں انتقال کرجائے(طبعی موت مرجائے) وہ شہید ہے اور جو طاعون میں انتقال کرجائے وہ شہید ہے اور جو پیٹ کی بیماری میں مر جائے وہ شہید ہے۔"(  مسلم  )۔
    اسی طرح  احادیث کی روشنی میں وہ شخص بھی شہید ہے جو ظلماً  ناحق کسی کے ہاتھوں ماراجائے یا ناگہانی حادثہ میں کسی عمارت کے منہدم ہونے سے یا ڈوبنے سے مر جائے (  بخاری  ) یا جو اپنی جان و مال ، آبرو اور اپنے اہل و عیال کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے(  بخاری ، مسلم  ،نسائی حدیث  ) ۔
     مزید جو لوگ حکماً شہید ہیں اور اجروثواب کے لحاظ سے اللہ کے ہاں شہادت کا مرتبہ پائیں گے وہ  یہ ہیں:
    (1) نمونیہ کی بیماری میں مرنے والا (2)درد زہ میں انتقال کرنے والی عورت (3) جو سانپ کے کاٹنے سے مر جائے (4) اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرتے  ہوئے مر جائے (5) نظر لگنے سے انتقال کرجائے (6) مسافرت کی حالت میں مر جائے (7) درندہ شکار کرلے (8) شہادت کی سچی تمنا لئے طبعی موت مر جائے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار لوگوں کو احادیث میں شہید کہا گیا ہے ۔ بعض اہل علم نے تقریباً  40 تک شہداء کی تعداد شمار کی ہے(دیکھئے عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری حدیث 2829 ) ،امام سیوطیؒ نے اس موضوع پر ایک رسالہ بھی "ابواب السعادۃ فی اسباب الشہادۃ" کے نام سے لکھا ہے۔
    تمام شہداء درجہ و مرتبہ میں اور اجروثواب کے لحاظ سے برابر ہوں یہ ضروری نہیں بلکہ ان کے ایمان و اخلاص اور عمل صالح کی وجہ سے ان  کے درمیان فرق بھی ممکن ہے۔ ایک روایت میں اللہ کے راستہ میں لڑ کر جان دینے والوں کی (یعنی شہداء کی ) 4  قسمیں درجہ اور مرتبہ کے لحاظ سے بیان کی گئیں (دیکھئے ترمذی حدیث 1644  / مسند احمد حدیث 150)،اسی طرح روایات کو سامنے رکھ کر اہل علم نے بنیادی طور پر شہادت اور شہید کی3 قسمیں بیان کی ہیں :
    (1) دنیا اور آخرت دونوں جگہ شہید جیسے جہاد میں کافروں کے ہاتھوں کوئی مارا جائے (دنیا وی لحاظ سے شہید کے بعض خاص احکام بھی ہیں  جیسے انہیں غسل نہیں دیا جائے گا؟ انہیں زخموں اور کپڑوں میں دفن  کیاجائے گا اور بعض کے نزدیک نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی)۔
    (2) معنوی طور پر  اخروی اعتبار سے شہید یعنی آخرت میں اجروثواب کے اعتبار سے یہ شہید کے حکم میں ہوں گے۔ یہی شہداء ہیں جن کی تعداد بے شمار ہے۔
     (3) صرف دنیاوی لحاظ سے شہید یعنی آخرت میں اجروثواب کے لحاظ سے اس کا کوئی حصہ نہیں دنیا میں صرف ظاہری اعتبار سے یہ شہید کے حکم میں ہے جیسے شہرت و نمود کیلئے لڑنے والا ریاکار شہید ، یا دنیاوی فوائد (مال غنیمت وغیرہ) حاصل کرنے کیلئے لالچ میںجان دینے والا، اسی  طرح دین کی سربلندی کے بجائے خالص عصبیت کی بنیاد پر  لسانی یا علاقائی جنگ میں مارا جانے والا وغیرہ۔ یہ اور اسی طرح کے لوگ چاہے ظاہری طور پر شہید کے حکم میں ہوں لیکن نیت کے کھوٹ کی وجہ سے اللہ کے ہاں شہادت کے مرتبہ پر فائز نہ ہوسکیں گے۔ جہاد اور اسلامی جنگوں میں مال غنیمت کا حصول یا فتح مندی و ظفر مندی اللہ کی طرف سے اہل ایمان پر انعام اور نقد دنیاوی صلہ ہے  جبکہ مومن کا مقصد اور مطمح نظر یہ نہیں ہوتا  اس کا مقصد تو اسلام اور دینِ حق کی سربلندی اور اس راہ میں جان کی بازی لگاکر اللہ کی رضا اور مرتبۂ شہادت کا حصول ہوتا ہے، بقول شاعر مشرق  :
شہادت ہے مطلوب و مقصود ِ مومن
نہ  مال  غنیمت،  نہ کشور کشائی
مزید پڑھیں:- - - -  -گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

شیئر: