Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سخت سردی ، شدید گرمی ، موسمی حالات یکسر تبدیل

اُم مزمل۔جدہ
    وہ ماہر امراض زچہ و بچہ تھی ۔وہ نیوروسرجن تھا۔ وہ تازہ سبزیوں سے بنی سلاد کی ٹرے لئے چلی آئی کہ جب تک لنچ تیار ہوگا، یہ پلیٹ ہم ختم کر چکیں گے۔ وہ ایک گاجر ہاتھ میں لئے پوچھ رہا تھا کہ یہ گھر پر اگائی گئی سبزیاں اپنی افادیت رکھتی ہیں اور انکی تفصیل آپ تقریباً ہر چند دنوں کے بعد یاد دلانا نہیں بھولتیں لیکن یہ اب تک نہیں بتایا کہ اس کارآمد مکس سلاد کی پلیٹ میں گھر کے” کینو“ کب شامل کئے جائیں گے۔ وہ کہنے لگی کہ میں نے تو یونہی کہ دیا تھا کہ گھر پر اگائی جانے والی سبزیاں اور پھل سب سے پہلے خود کھانے چاہئیں پھر لوگوں کو تقسیم کرنے چاہئیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم بازار سے کوئی موسمی سبزی یا پھل نہیں خرید سکتے۔ وہ خوشدلی سے کہنے لگا یعنی جو آپ کی تقریر دلپذیر اس بات پر زور دینے کے لئے ہر ویک اینڈ پر سماعت کرنا پڑتی ہے کہ گھر پر اُگائی جانے والی سبزیوں سے نہ صرف یہ فائدہ ہے کہ تازہ توڑئیے اور دھو کر کھائیے ، یوں وقت اور مال کی بچت ہے وہیں یہ اطمینان بھی ہے کہ ہر طرح کی جراثیم کش ادویات سے بھی یہ محفوظ ہے ۔ اب ذرایہ بھی فرمادیں کہ روزانہ ناقص غذا سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی بنا پر آپ کے پاس آنے والے مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اس بات کا غصہ ہمارے اوپر تقریر کر کے اتارا جاتا ہے حالانکہ جن پر غصہ ہو، انہی پراتارا جانا چاہئے۔
     وہ لال ٹماٹر کھاتے ہوئے بول پڑی کہ غصہ تو نہیں کہہ سکتے لیکن افسوس ضرور ہوتا ہے کہ اگر ہم تھوڑی سی کوشش کے بعد اپنے گھر اورمحلے میں باغبانی کرنا شروع کردیں تو اس سے ہر فرد کو فائدہ پہنچے گا جوبالآخر اجتماعی فائدے میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس طرح ہم ملکی سطح پر نہ صرف اپنی غذائی ضرورت پوری کر سکیں گے بلکہ گھر کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرنے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے۔ اسے ایک نکتہ اور یاد آگیا کہ اس طرح بیمار پڑنے کے باعث آپ کے کلینک بھی نہیں آنا پڑے گا لیکن پھر ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے اپنا جملہ مکمل کیا کہ اس طرح تو ڈاکٹر صاحبہ کا کلینک خالی ہی ہوجائے گا۔ وہ بھی خوشگوار موڈ میں یاد دلارہی تھی کہ آج کل ہر نیا مہمان جو اس دنیا میں آتا ہے اس کے برتھہ سر ٹیفکیٹ پر کسی نہ کسی ڈاکٹر کا نام ضرور لکھا ہوتا ہے۔ وہ کھیرے کا بڑا سا ٹکڑا منہ تک پہنچاتے ہوئے اطمینا ن سے کہنے لگا کہ ”یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ آپ کے یہاں اتنے ہی لوگ آئیں گے جتنے اب آتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ وہ خون کی کمی کی شکایت لئے نہیں آئیں گے۔ وہ کہنے لگی، جی ہاں! یہی بات ہے۔
     وہ آج کچھ پریشان تھا۔ مریض کی عمر زیادہ ہوجانے کے باعت اس کا مشورہ یہی تھا کہ وہ یہ مشکل اور طویل دورانئے کا آپریشن نہ کروائے لیکن بورڈ آف ڈاکٹرز نے فیصلہ کیا کہ چونکہ وہ مریض کو اس تکلیف دہ صورتحال سے نجات اسی صورت میں دلاسکتے ہیں کہ اس کے دماغ میں موجود اس بڑھتی رسولی کا آپریشن کر دیں لیکن اس کے ساتھ یہ خدشہ بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ وہ عمر رسیدہ مریض یہ آپریشن برداشت نہ کر سکے ۔ یہ ایک ایسا نازک فیصلہ تھا کہ اکیلا ڈاکٹر اس کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا اسی لئے کئی ڈاکٹرزپر مشتمل بورڈ نے اسکی میڈیکل فائل پر غور کیا تھا۔
    روز کی طرح اپنی کلینک میں آنے والی خواتین کو وہ خوراک کی تفصیل بتا رہی تھی کہ صحت مند معاشرے کے لئے ماں کا صحت مند
 ہونا کتنا ضروری ہے۔ اس لئے ایسی ماﺅں کو خیال رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی بہترین نگہداشت کی ذمہ داری احسن طور پر ادا کر سکیں۔ وہ ابھی کچھ اس بارے میں کی باتوں کا خیال رکھنے اور اس کے ساتھ تازہ پھل و سبزیوں کی کاشت پر اپنا پسندیدہ اور کارآمد نسخہ بتانے کا ارادہ کر ہی رہی تھی کہ اسے اس کی مریضہ نے بتایا کہ اسے گھر میں تمام اقسام کی سجاوٹ کے پھول لگانا پسند ہیں اور کئی خواتین کے خاندان کی بہبود کے لئے وہ کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتی رہتی ہیں۔ ابھی تو وہ اس کی تعریف ان معنوں میں سن کر آئی ہیں کہ اس کی پسندیدہ ڈاکٹر نے اس کے کیس کو آخری لمحوں میں اس لئے انکار کردیا کہ وہ اس وقت کسی اہم کیس کے سلسلے میں بیرون ملک جارہی ہیں ۔وہ حیرا ن نہیں ہوئی تھی کیونکہ اکثر ایسا مشکل کیس آجاتا تھا اور وہ ہینڈل کرلیا کرتی تھی ۔ وہ اکثر فجر کی نمازکے بعد دعا مانگ کر ایسے مشکل کیس کو بلایا کرتی تھی۔ کئی دنوں تک ایسا ہوتا رہا کہ وہ ہر ایک پیرا میڈیکل کو الرٹ کرتی اور جب وہ تمام حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے اس کے ساتھ موجود ہوتے تو معاملہ آگے بڑھ جاتا۔
    وہ دونوں آج بہت خاموش تھے نہ اسکی چہکتی آواز تھی جس میں وہ اس کی کسی نہ کسی بات پر باغبانی کے مشغلے پر نکتہ چیںہوتا یا وہ کسی نہ کسی طرح یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتی تھی کہ یہ مشغلہ ایک صحت مند مصروفیت ہے۔ اس سے اچھی صحت کے ساتھ اچھی بچت بھی کی جاسکتی ہے۔
    ایک صبح کووہ دونوں اپنے اپنے کام پر جانے سے پہلے گپ شپ کی بجائے ایک ساتھ گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور کی موجودگی میں ایک دوسرے کو میسج کر رہے تھے۔ گاڑی میں زیادہ سردی کا اندازہ نہیں ہورہا تھا لیکن وہاں سڑک کے کنارے لوگ سردی کی رات گزارنے کے بعد بھی لکڑیوں کو جلا کر اپنے ہاتھ تاپ رہے تھے اور یہ ایک عجیب خیال دونوں کو ہی آیا کہ انسان نے اپنے آپ کو کس قدر عقل مند جان لیا کہ ہر جگہ کے جنگلات کا صفایا کرنا شروع کر دیا اور جس کی وجہ سے دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی نے انسانوں کو ایسی ہی پرشانی میں مبتلا کردیا کہ بہت شدید سردی اور بہت زیادہ گرمی نے موسمی حالات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے ۔پہلے کے لوگ زیادہ عقل مند تھے ۔ وہ انسان کی فطرت کے تحت یہ بات جانتے تھے کہ انسان مٹی سے بنا ہے اور اسے مٹی میں ہی مل جانا ہے ۔اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ اپنے بچوں کو کھلے میدانوں میں وقت گزارنے کو ضروری خیال کرتے تھے اور انکے گھر بھی ایسے تیار ہوتے تھے جن من مٹی کی ایک گز چوڑائی والی دیواریں بنائی جاتی تھیںتاکہ سردی میں گرم رہیں اور گرمی میں ٹھنڈک کا احساس دلائیں۔ اپنے کاموں میں ایسے الجھے کہ دونوں کو ہی خیال دیر سے آیا کہ آج ہم نے صبح کے ناشتے کے سوا ایک پیالی چائے بھی نہیں لی۔ اتنی ٹینشن میں رہے ۔ اب دونوں کا ایک دوسرے کو میسج ملا تھا کہ جس مریض کا وہ آپریشن کرنے سے گریز کرتا رہا تھا، آخر کار اس کی تکلیف اتنی بڑھی کہ اس کا آپریشن کرنا پڑا اور وہ مریض جانبر نہ ہوسکا ۔ وہ حیرانی سے وہ وقت دیکھ رہی تھی جو اس نے لکھا تھا اور وہی وقت تھا جب دنوں سے ٹلنے والا مرحلہ اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا۔ وہ حیران تھی کہ ایک ہی وقت میں ایک روح یہاں سے گئی تھی اور دوسری یہاں آئی تھی اور نجانے کتنے لوگ اپنا وقت پورا کرکے سفر آخرت پر روانہ ہوتے ہیں ۔ہم آخر کب اپنے اس سفرکی تیاری میں سنجیدہ ہونگے ؟
    ٭٭جاننا چاہئے کہ انسان کے اکثر معاملات اس کے اعمال کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں ۔

 

شیئر: