Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فاروق ستار کی کوششیں دیوانے کا خواب

کراچی ( صلاح الدین حیدر)متحدہ قومی موومنٹ کا 22 اگست 2017ءکو جس بری طرح شیرازہ بکھرا ہے۔خدا کی پناہ، آپس کی لڑائی جھگڑے اور سر عام ایک دوسرے پر تنقید کا نتیجہ برا ہی ہونا تھا سو ہوا۔ ایک ایسی پارٹی جو 37 سال تک سندھ کے شہری علاقوں میں بلا شرکت غیرے مالک تھی 2018ءکے انتخابات میں بد ترین شکست سے دو چار ہوئی۔ اب اگر اس کے سب سے سینئر قائد ڈاکٹر فاروق ستار، خاصی ٹھوکریں کھانے کے بعد صحیح راستے پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں تو راستے کی رکاوٹیں کیسے ہٹا پائیں گے۔ سمجھ سے باہر ہے، محض دیوانے کا خواب لگتا ہے۔
انہوں نے ایک ہفتہ پہلے اعلان کیا کہ وہ پارٹی کے مختلف دھڑوں کو متحد کرنے کا منصوبہ تیار کر کے نئی صورت گری کرنے چلے ہیں۔ کاش یہ ان کے بس میں ہوتا۔ ایم کیو ایم ٹوٹی انہی وجہ سے ہے۔ ایک امیر شخص کو دوست بنا کر انہوں نے پارٹی میں مخالفت کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے ڈالی۔ پارٹی بہادر آباد اور پی آئی بی کالونی کے دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ پہلے ہی اس کے 2 دھڑے بن چکے تھے لیکن نا ہی حقیقی گروپ اور نہ مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی الطاف حسین کی بنائی ہوئی تنظیم کو نقصان پہنچا سکی لیکن جب اگر گھر کے ہی چراغ سے آگ لگ جائے تو پھر تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
فاروق ستار نے عقل و دانشمندی سے کام لیا ہوتا تو وہ پارٹی کی قیادت بھی کرتے اور پارٹی کو متحد بھی رکھتے لیکن انہیں تو لیڈری کا شوق سب سے زیادہ عزیز تھا تو پھر بات جب انا پر آجائے تو نا اتفاقی تو ہوگی۔ انتخابات سے 15-20 دن پہلے تک فاروق ستار اس بات پر مصر تھے کہ ایم کیو ایم کراچی کی 21 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 15 جیت لے گی۔ اس وقت کچھ مبصرین اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے، جگہ جگہ ایک ہی بات سننے میں آتی تھی کہ اگر 4 نشستیں بھی جیت لیں تو شاید کچھ ساکھ رہ جائے، وہی ہوا عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی جس نے 2013ءمیں بھی کراچی سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی 3 نشستیں جیت لی تھیں۔ اس بار اس کے لئے میدان صاف تھا۔ اس نے 14 قومی اسمبلی اور 23 صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت کر دنیا کو حیران کردیا۔ 
جہاں ایسی صورت حال ہو وہاں پارٹی کو دوبارہ متحدہ اور منظم کرنا محال ہی نہیں بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اعلان کرنے کو تو کردیا لیکن فاروق ستار اب تک میدان عمل میں دور دور تک نظر نہیں آتے نا ہی انہوںنے حقیقی کے چیئرمین آفاق احمد اور نہ ہی پی ایس پی کے مصطفی کمال سے ملاقات کی ہے۔ ان کے دست راست کامران ٹیسوری جس کی خاطر انہوںنے پارٹی کو تقسیم دردیا آج کہیں آس پاس بھی نہیں دکھائی دیتے۔ ظاہر ہے کہ یہ دوستی نہیں، مفاد پرستی کی بنیاد پر قائم کئے گئے رشتے تھے جو وقت کے ساتھ جدا ہوگئے۔آج بھی دیکھا جائے تو بہادر آباد والی ایم کیو ایم چاروں دھڑوں میں سب سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔ شہر کی 4 کی 4 قومی اسمبلی اور حیدر آباد کی 2 نشستیں اسی نے جیتی۔ فاروق ستار تو خوداپنی نشست نہ بچا سکے۔ لیکن چڑیا تو کھیت چگ گئی تھیں، وقت ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ بہادر آباد والوں نے فاروق ستار کو ہری جھنڈی دکھا دی کہ خبردار جو ایم کیو ایم کا نام، انتخابی نشان، یا پرچم اپنانے کی کوشش کی۔ پارٹی کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ مبصرین کے خیال میں تو فاروق ستار نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے اب پچھتاوے کیا ہوت۔
 

شیئر: