Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی معیشت کو اربوں ریال کا خسارہ

ڈاکٹر فہدمحمد بن جمعہ ۔ الریاض
خفیہ اقتصادی سرگرمیوں میں مصروف افراد ، کمپنیاں اور ادارے سعودی معیشت کو سالانہ اربوں ریال کا جھکا دے رہے ہیں۔ سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کی تجارت ، تجارتی جعلسازی، لاوارث کارکن، غیر قانونی یا غیر رسمی تجارتی سرگرمیاں ، خفیہ اقتصادی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔ بہت سارے لوگ غیر قانونی طریقے سے کمائی گئی دولت غیر قانونی شکل میں مملکت سے بھجوا رہے ہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ سالانہ 500ارب ریال سے زیادہ اس ضمن میں مملکت سے باہر بھیجے جارہے ہیں۔ یہ مملکت کی مجموعی قومی پیداوار کا 19فیصد ہے۔ اس کے سوا اس قسم کی سرگرمیوں سے قومی اقتصاد کو اور بھی کئی نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ مثال کے طورپر روزگار کے مواقع اور سعودی شہریوں کو ممکنہ طور پر سرمایہ کاری کی سہولتیں نہیں مل رہیں۔ بے روزگاری کی شرح 12.9فیصد تک پہنچی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ خفیہ اقتصادی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔
بے روزگاری کا باعث اسامیوں کی قلت نہیں۔ اسکا سبب اقتصادی کارکردگی کی کمزوری بھی نہیں۔ ایسا لاپروائی، کوتاہی اور غیر ملکیوں یا ہموطنوں کی جانب سے غیر منظم ، غیر قانونی سرگرمیاں ہیں۔ وہ سعودی شہری جو غیر ملکیوں کو مختلف شعبوں میں اپنے نام سے کاروبار کرا رہے ہیں وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اہم اقتصادی شعبوں کو قابو کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تعمیرات (87فیصد)، ریٹیل (76فیصد)، معاون صنعتیں (72فیصد) ، مالیاتی امو ر انشورنس ، املاک اور تجارتی خدمات (68فیصد) وہ شعبے ہیں جن پر غیر ملکی قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ یہ اعدادوشمار 2018ءکی دوسری سہ ماہی کے ہیں۔
یہاں میں یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ کیا متعلقہ سرکاری اداروں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ سعودی اقتصادی نظام کے تحت آنے والے ہر فرد اور ادارے پر نظررکھیں۔ انکی نگرانی کریں۔ انکی پیداوار دریافت کریں۔ انہیں حاصل ہونے والی ماہانہ آمدنی کے اعدادوشمار جمع کریں۔ سرکاری آمدنی میں اضافے اور سعودیوں کے لئے روزگار کے حوالے سے انکی کارکردگی دیکھیں۔
کیا سعودی اقتصاد کے عقبی دروازوں کی سرگرمیاں دریافت کرنے کیلئے خودمختار شہری ادارے کے قیام کا وقت نہیں آگیا ؟یہ ادارہ قائم ہو تو خفیہ سرگرمیوں کو اعلانیہ سرکاری سرگرمیوں میں تبدیل کرائے۔ مختلف پروگرام تیار کرکے پیش کرے۔ وژن 2030کے اہداف کی تکمیل کی راہ سجائے۔ مجھے اس بات میں ذرا برابر شبہ نہیں کہ ہمارے ملک میں رائج خفیہ معیشت بہت بھاری نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ اس سے ہماری آمدنی کے وسائل کا ضیاع ہورہا ہے۔ زکوٰة نہیں لی جارہی، ٹیکس ادا نہیں کیا جارہا ۔ ہماری اولاد کاروبار سے محروم ہورہی ہے۔ معیار ِمعیشت بہتر بنانے کے امکانات انکے قبضے سے باہر ہورہے ہیں۔ بے روزگاری کادورانیہ بڑھ رہا ہے۔ یہ سارے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہونگے جب تک کہ خفیہ اقتصادی سرگرمیوں کی بیخ کنی کا موثر نظام تیار نہیں ہوگا اور اسے نافذ نہیں کیا جائیگا۔
اب وقت آچکا ہے کہ اقامہ نظام اور تجارتی مراکز کے اجازت ناموں کا نیا نظام تیار کیا جائے۔ خفیہ سرگرمیوں میں سرگرم عناصر سے متعلق معلومات اور اعدادوشمار کا ریکارڈ تیار کیا جائے۔ اس بات کا اطمینان کیا جائے یہ لوگ سعودی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کررہے ۔ اسی کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گاکہ جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کی جائیں ۔ سی سی کیمرے نصب کرکے محلوں کے اندر فیلڈ کنٹرول کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ ڈیوٹی اوقات کے بعد کون کیا کررہا ہے، آیا قوانین کی خلاف ورزی کا ارتکاب تو نہیں کررہا ۔ ان سب کا پتہ لگایا جائے۔ سعودی معیشت کو غیر قانونی سرگرمیوں سے بچانے کا موثر طریقہ یہی ہوگا۔ اسی طرح ہمارے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا ہونگے۔ علاوہ ازیں گھریلو خدمات والی شراکتی کمپنیوں کا قیام اور محلوں میں دکانوں کی تعداد متعین کی جائے۔ اس سے بھی خفیہ غیر قانونی اقتصادی سرگرمیاں کنٹرول ہونگی۔ ای بزنس کے نفاذ میں بھی سختی کی جائے۔ ہر دکان پر اکاﺅنٹینٹ ہو جو ماہانہ جملہ گوشوارے چیک کرے اور سرکاری اداروں کو خلاف ورزی سے آگاہ کرے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: