Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور مکہ ایئر پورٹ

عبداللہ محمد الشہرانی ۔ مکہ
    میں آج کے کالم کی شروعات ایک سوال سے کررہا ہوں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا دبئی شہر دبئی ایئرپورٹ کے بغیر عالمی درجے کی کامیابیاں حاصل کرسکتا تھا؟ کیا دبئی شہر شارجہ ایئرپورٹ یا ابوظبی ایئرپورٹ پر انحصار کرکے عالمی سطح پر اپنی وہ حیثیت بنا سکتا تھا جو اسے فی الوقت حاصل ہے؟ان دونوں سوالوں کا جواب یقینا نفی میں ہی آئیگا۔میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ بحث کے شوقین ہوتے ہیں۔ وہ صرف بات بنانے کیلئے کہہ سکتے ہیں کہ دبئی ایک ریاست ہے اور ہر ریاست کا اپنا ایئرپورٹ ہونا چاہئے لہذا اگر دبئی نے اپنا ایئرپورٹ بنایا ہے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ اگر میں یہ فرض کروں کہ یہ نقطہ نظر درست ہے تو اس حوالے سے میں ایک اور سوال کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ دبئی میں ایک اور ایئرپورٹ ہے جو’’ آل مکتو م انٹر نیشنل ایئرپورٹ‘‘کے نام سے معروف ہے۔ میرا کہنا اور ماننا یہ ہے کہ دبئی انٹر نیشنل ایئرپورٹ دبئی شہر کے اسٹراٹیجک اہداف اور اسکیموں کے مکمل پروگرام کا انتہائی اہم اور ضروری حصہ ہے۔
    مکہ مکرمہ کیلئے نئی رائل اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس کے قیام کی اطلاع سے مقدس شہر کے باشندوں نے اچھی امیدیں باندھی ہیں۔ اہل مکہ کی آرزوہے کہ مکہ مکرمہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایسی عظیم الشان اسکیمیں نافذ کرے جن کی بدولت عمرے، حج وزیارت ، تجارت کیلئے آنیوالوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو۔یہ اضافہ اسی صورت میں ہوسکے گا جب مکہ کے قریب کوئی ایئرپورٹ ہو اور وہ کثیر تعداد میں آنیوالوں کو کھپا سکتا ہو۔یہ خواہش اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ جدہ اور طائف کے نئے اور پرانے ہوائی اڈوں کی گنجائش اتنی نہیں کہ وہ معتمرین، حجاج اور زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کھپا سکتے ہوں ۔ اس کی وضاحت مَیں آگے چل کر کرونگا۔
    دراصل میں نے یکم ذی الحجہ 1437ھ کو ایک مضمون تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’2030 مکہ ایئر پورٹ میں نئی روح پیدا کریگا‘‘۔میں نے مذکورہ مضمون میں مکہ ایئرپورٹ کی ضرورت کے اسباب و محرکات کا تفصیل سے تذکرہ کیا تھا۔اسی کے ساتھ ساتھ میں نے مکہ مکرمہ سے بیحد قریبی مقامات مکہ ہوائی اڈے کیلئے تجویز کئے تھے۔ میں نے مذکورہ مضمون میں مکہ ہوائی اڈے کی تجویز کی مخالفت میں محکمہ شہری ہوابازی کے بیان کردہ دلائل کا مدلل جواب بھی دیا تھا۔ مذکورہ مضمون تو آج میں یہاں نہیں دوہراؤنگا البتہ اعداو شمار کا تذکرہ ضرور کرونگا۔
    سب سے پہلی بات تو میں نے یہ تحریر کی تھی کہ 2030ئمیں حجاج و معتمرین کی تعداد30ملین تک پہنچ جائیگی۔جہاں تک حج پر آنیوالوں کی تعداد کا تعلق ہے ،اس حوالے سے کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی ۔ ایک تخمینہ یہ ہے کہ ان کی تعداد 40سے 60لاکھ کے لگ بھگ ہوگی۔ اوسط تعداد50لاکھ مانی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 35ملین حاجی اور معتمر ارض مقدس آئیں گے۔محکمہ شہری ہوابازی کی زبان میں یہ تعداد70ملین شمار کی جائیگی۔سعودی شہری مقیم غیر ملکی اور زائرین کی تعداد اس سے الگ ہوگی۔جدہ اور مدینہ منورہ ہوائی اڈے استعمال کرنیوالوں کی تعداد 72ملین ہوسکتی ہے۔ تیسرا نمبر سیاحوں کا آتا ہے۔ 2030ء میں مکہ اور مدینہ سیاح بھی آئیں گے ۔ ان کی تعداد 60ملین سے زیادہ فرض کی جارہی ہے۔اسکا مطلب یہ ہوا کہ 2030ء میں 202ملین افراد نئے ہوائی اڈوں سے سفر کرینگے جن کی انتہائی گنجائش126ملین ہے۔ جدہ 80ملین، مدینہ منورہ40ملین اور طائف ہوائی اڈے سے 6ملین افراد سفر کرسکیں گے۔ حاصل کلام یہ نکلا کہ 76ملین افراد جو باقی بچ رہے ہیں وہ کس ہوائی اڈے سے سفر کرینگے؟
    مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ رائل اتھارٹی کے ایگزیکٹیو چیئرمین سے میری گزارش یہ ہے کہ آپ مکہ مکرمہ میں سعودی وژن 2030کو بند گلی کا حصہ نہ بنائیے۔ مجھے یقین ہے کہ رائل اتھارٹی اس کا کوئی نہ کوئی مناسب حل نکال لے گی تاکہ 10برس بعد ہوائی اڈے کے حوالے سے کوئی نئی مشکل سر نہ ابھارے۔
مزید پڑھیں:- - - - -پرامن بقائے باہم کو راسخ کرنے کا مشن

شیئر: