Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرآن پر عمل ، ایک منفرد تجربہ

لوگوں کا حال یہ ہے کہ عورت کو پہلی طلاق دی جاتی ہے تو وہ میکے چلی جاتی ہے، یہ غلط ہے، اللہ کا حکم ہے کہ نہ تم انھیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود وہاں سے نکلیں
 
سمیہ رمضان ۔ قاہرہ   

انسان جب مخالف سمت میں محوِ سفر ہو تو اْس کو تھکاوٹ کے سوا کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ نہ وہ منزل کو پاسکتا ہے اور نہ منزل اْس سے قریب ہوسکتی ہے۔ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ قرآنِ مجید کا نسخہ ہدایت ہمارے گھروں کی زینت ہے۔ لائبریریوں میں موجود ہے، گاڑیوں میں رکھا ہوتا ہے، غرض یہ کہ قرآن ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ہم جدید و قدیم ہر ذریعے سے اس کو سن اور تلاوت کرسکتے ہیں۔ ہم میں سے کثیرتعداد اس کی تعلیم اس لیے حاصل کرتی ہے کہ وہ اس کو ناظرہ پڑھ سکیں، زبانی یاد کرسکیں۔ ہم اس قرآن کو نمازوں میں سنتے اور پڑھتے ہیں۔ خود بھی سال بھر بلکہ ساری زندگی اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ضروری ہے، بہت قابلِ رشک ہے… مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ قرآن کو ہم اپنے لیے وہ دستورِ حیات سمجھتے ہیں جو ہمارے خالق و مالک نے ہمارے لیے نازل کیا ہے اور اس کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کا حکم دیا ہے؟ کیا ہم واقعی دنیا اور اس کے بچھے ہوئے جال سے بچ کر خوشنودیٔ رب اور سعادتِ دارین کی خاطر ایسا کرتے ہیں؟
    قابلِ تعریف بات تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہو مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جگہ جگہ درسِ قرآن کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ لوگ ایسی آیات کے دروس سننے کے لیے ذوق و شوق سے آتے ہیں جو آیات محبتِ الٰہی پر اْبھارتی ہوں، ان میں سامعین کی دلچسپی بہت گہری ہوتی ہے لیکن جونہی آپ اْن سے کسی ایسی آیت پر گفتگو کریں جو انسانی عادات اور معاشرتی رویوں کے خلاف ہو ، تو لوگوں کے ذہن ایسی باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بیشتر معاشروں میں کسی آیت کے نفاذ کو لوگ اہمیت نہیں دیتے ، حالانکہ یہ معاشرے اسلامی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اْن کے رسوم و رواج اور عادات و اطوار تو بالکل آیاتِ قرآن سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں۔ افسوس کے ساتھ مَیں آپ کو ایک ایسے ہی واقعے سے متعارف کروانا چاہتی ہوں تاکہ ایسے معاشرتی رویوں کی خطرناکی واضح ہوسکے جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی مگر وہ ہمارے معاشروں کی اقدار، روایات، رواج اور عُرف و عادت کے طور پر فرض کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔
    ایک خاتون اچھے مشاہرے پر ملازم تھی۔ ایک طویل انتظار کے بعد اس کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اْس کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ وہ اپنے بچوں کے درمیان ایک خوش گوار احساس لیے زندگی بسر کر رہی تھی …مگرایک روز ایسا ناخوش گوار واقعہ پیش آگیا جو اکثر گھروں میں پیش آتا ہے، یعنی شوہر کے ساتھ ناچاقی کا حادثہ۔ خاتون کے خیال میں اْس کا شوہر بعض اہم گھریلو ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھا۔ اْس نے بہت سے وعدے کیے مگر کوئی ایفا نہ ہوا۔ پھر خاتون نے بھی وہی کیا جو عمومی طور پر آج کی عورتیں کرتی ہیں۔ اْس نے شوہر کا گھر چھوڑا اور میکے میں جاکر رہنا شروع کر دیا۔ جاتے ہوئے یہ تک کہہ گئی کہ تم وعدہ پورا کرو گے تو مجھے واپس لاسکو گے۔
    پھر دنوں پر دن گزرتے رہے، شوہر تنہا رہا، البتہ شیطان اْس کا ساتھی تھا۔ شیطان اس واقعے کو اْس کے لیے بہت اہم بناکر اْسے غیرت دلاتا رہا، اْس کو عدم مردانگی کا طعنہ دیتا رہا کہ وہ بیوی کی بغاوت کو بھی نہیں کچل سکا۔شوہر بیوی سے یہ کہتے ہوئے ملا کہ ’’گھر آکر اپنی تمام ذاتی اشیا لے جاؤ۔ شوہر نے اس کے لیے وقت مقر کردیا اور خود اتنا وقت گھر سے باہر رہنے کا کہا۔ آخر میں یہ کہا’’آج کے بعد تو اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتی۔ خاتون شوہر کے ساتھ جس گھر میں رہائش پذیر تھی وہ اس کے شوہر کے والد کی جائیداد تھی۔ خاتون نے ایک بار تو سوچا کہ میں اور میرے بچے اس گھر کے سوا کہاں گزارا کریں گے کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ تو میں بچوں سمیت رہ نہیں سکوں گی۔ پھر اْس نے اپنی ساس سے ملاقات کی اور اس سے شکایت کرنا چاہی مگر بدقسمتی سے وہ بھی الٹا الزام تراشی کرنے لگی کہ میرے بیٹے نے تو یہ سب کچھ تنگ آکر کیا ہے۔ خاتون کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں جو کچھ سن رہی ہوں یہ حقیقت ہے۔ خاتون کے والدین کو اس واقعے کا علم ہوا تو والد غضب ناک ہوکربولے: کیا اس کا شوہر یہ رشتہ لینے اسکے والدین کے گھر نہیں آیا تھا؟ اب ایسے اہم مسئلے میں وہ لڑکی کے والد سے رجوع کیوں نہیں کرسکتا؟ فضا خاصی ناسازگار ہوگئی تھی۔ سب کا خیال تھا کہ جو کچھ ہوا ہے یہ بڑی رْسوائی ہے، اسکا ازالہ اس مرد سے طلاق لے کر ہی ہوسکتا ہے۔ بالآخر طلاق ہوگئی۔خاتون نے وقت ضائع کیے بغیراپنی دوست سے رابطہ کیا اور آہ و بکا کے بعد ذرا پْرسکون ہوئی تو اپنی داستان سنانے لگی اور اْسے اپنے اور اپنے بچوں کے اْوپر ہونے والے ظلم کی انتہا قرار دیا۔ اُس کی ساتھی نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے اس طرح کی مشکلات کے حل کیلئے ہمیں ایک دستور عطا کیا ہے۔ تم دونوں کا یہ عمل کتاب اللہ اور سنتِ رسول پر پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت میں دیکھ سکیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ خاتون کے سانس بحال ہوئے اور وہ ہرلفظ کو بڑے غور اور توجہ سے سننے کی کوشش کررہی تھی۔ ساتھی نے کہا: تُونے اپنا گھر کیوں چھوڑا جب تُو اپنے شوہر سے ناراض تھی؟ تجھے معلوم نہیں کہ وہ ایک مشکل مرحلے میں ہے، یعنی طلاق دے چکا ہے۔ رجعی طلاق میں عورت کیلئے مناسب نہیں کہ وہ اپنا گھر چھوڑ دے۔ یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا حکم ہے، فرمایا:(زمانۂ عدت میں) نہ تم انھیں اْن کے گھروں سے نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ کسی صریح بْرائی کی مرتکب ہوں،یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اْوپر خود ظلم کریگا۔ (الطلاق1)۔
    لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب عورت کو پہلی طلاق دی جاتی ہے تو وہ فوراً اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ یہ غلط اور حرام ہے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ نہ تم انھیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود وہاں سے نکلیں۔ استثنائی صورت ہے تو صرف یہ کہ وہ عورت کسی بے حیائی کا ارتکاب کرے۔
    آیتِ مذکور میں آگے فرمایا:یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے اْوپر خود ظلم کریگا۔اسکے بعد اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے اسی آیت میں فرمایا:تم نہیں جانتے ، شاید اسکے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کرد ے ۔
    لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ حدود اللہ کا خیال رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کریں۔ شرعی اْمور و احکام کو معاشرتی اور ذاتی روایات کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اسلام اس مشکل حل کے لیے کیسے راہ نکالتا ہے۔ فرمایا:اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اْن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے(النساء 35)۔
    یہاں بات صرف شقاق (بگاڑ) کے خدشے کی ہے۔ اگر یہ خدشہ نظر آجائے تو اس سے ڈرنا چاہیے اور اْس وقت 2 حَکم (ثالث) ، ایک عورت کی طرف سے اور ایک مرد کی طرف سے مداخلت کریں۔ ان دونوں کا مقصد اصلاح ہو۔ اب میاں بیوی لازماً ایک ہی گھر میں رہیں گے۔ یہ دونوں ثالث اْن کے پاس اِصلاح اور صلح و صفائی کی غرض سے جائیں گے جہاں یہ دونوں میاں بیوی مقیم ہوں گے اور انھیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا احساس بھی ہوگا کہ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اْن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔
    یہ اس معاملے کے حل کی قرآنی صورت ہے۔ اب اس صورتحال کو پیدا کرنا مرد و عورت کو الگ الگ رکھ کر ممکن نہیں، نہ ٹیلی فون پر گفتگو کے ذریعے اس نتیجے پر انھیں پہنچایا جاسکتا ہے لیکن آج کل یہی ہوتا ہے، جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا چنانچہ ساتھی نے اْس سے کہا کہ تُوکیوں غضب ناک ہوکر اپنا گھر چھوڑ آئی؟ اْس گھر کو تیرا گھر تو اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔ عورت اپنے میکے کی طرف نہیں جاسکتی خواہ اْس کے اور شوہر کے درمیان بگاڑ کا خدشہ ہی ہوبلکہ وہ اپنے گھر میں جم کر رہے اور اصلاح کی پوری کوشش کرے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ آئیگا، یعنی اْس کی ذاتی کاوش کے بعد اگلا مرحلہ ثالثوں کی کوشش کا ہوگا۔ نہ تم نے یہ کیا ہے اور نہ تمہارے شوہر نے۔ خاتون نے بڑی انکساری سے پوچھا: تو پھر اب اس کا حل کیا ہے؟ ساتھی نے جواب دیا: اپنے گھر واپس چلی جاؤ۔ اْس نے کہا: یہ تو مشکل ہے۔ مجھے جو کچھ کہا گیا ہے میرے جانے کے بعد اب وہ کیسے مجھے برداشت کریں گے؟ میں اس صورتحال میں خود اپنی عزت کو کیسے رْسوائی سے دوچار کرسکتی ہوں ؟
    ساتھی نے کہا: سبحان اللہ، کیا تجھے شروع میں ہی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ اسی طرح کی کیفیت میں تو اللہ تعالیٰ کوئی راستہ نکالے گا۔ پھر بات یہ ہے کہ یہی ابلیس کا مسئلہ تھا۔ وہ بھی ہماری طرح جانتا تھا کہ اللہ ایک ہے۔ زمین و آسمان کی حکومت اْس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ یہ سب کچھ جانتا تھا مگر جب اللہ نے اپنی بادشاہت میں زمین پر ایک خلیفہ بنانا چاہا تو یہاں شیطان نے اعتراض کر دیا۔ آج اپنے گردوپیش میں ہم بھی یہی کچھ دیکھتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی نگہبان و نگران ہے۔ ہم اسماے حسنیٰ کا ورد کرتے ہیں، اپنے خالق و مالک کے لیے نماز ادا کرتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ کبھی صدقہ و خیرات بھی کردیتے ہیں۔ خالق اور معبود کے ساتھ اپنی محبت کا واشگاف اظہار کرتے ہیںلیکن جونہی اس خالق اور معبود کا کوئی ایسا قانون ہمارے سامنے آتا ہے جو ہماری عادات سے ٹکراتا ہو، ہماری خواہشات کے برعکس ہو، تو اس کے نفاذ کی بات ہمارے اْوپر سکتہ طاری کردیتی ہے۔ جب ہمارا عمل یہ ہے تو پھر ہم معبود کی ربوبیت اور اْلوہیت کے کیونکر قائل ہوسکتے ہیں؟ اْس کے حکم کو سن کر کیوں اس پر عمل کرنا لازمی نہیں سمجھتے؟ مَیں سمجھتی ہوں کہ آپ کے والد نیک آدمی ہیں، آپ اْن سے کہیں کہ وہ آپ کے شوہر کو بلائیں اور اْس کی بات سنیں۔ اگر وہ اْس کے ساتھ گفتگو میں کسی حل پر نہ پہنچ سکیں تو مرد کے خاندان سے کسی ثالث کو بلالیںاور اس کے ساتھ بیٹھ کر اس بکھرتے ہوئے خاندان کو یک جا کرنے کی کوئی سبیل نکالیں۔
    خاتون کے شوہر کو بلایا گیا تو اْس نے آکر خاتون کے والد سے کہا کہ یہ اب آپ کی بیٹی ہے، یعنی میں اس کو طلاق دے چکا ہوں۔ والد اس کو رسوم و رواج کے مقابلے میں قرآن کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے کہا کہ اس حالت میں تمھیں اپنی بیوی کو اپنے گھر میں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ خاتون کے والد نے اللہ کا وہ دستور اْس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جس دستور کی بنیاد پر اْس کی بیٹی اس مرد کی بیوی قرار پائی تھی۔ سورہ طلاق کی پہلی آیت اْس کے سامنے رکھی۔ نوجوان نے آیت دیکھ لی مگر کہتا رہا کہ ہم تو ایسا نہیں کریں گے۔ مطلقہ لڑکی اپنے والدین کے گھر میں ہی رہتی ہے، شوہر کے گھر میں نہیں۔ طلاق کے بعد اب وہ کیسے میرے پاس رہ سکتی ہے؟ خاتون کے والد نے مومنانہ وقار کے ساتھ کہا: ایک گھنٹہ قبل مَیں بھی تمہاری طرح ہی سوچ رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے صحیح راہ کی طرف میری رہنمائی کردی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی عمر کا اختتام اس آیت کے نفاذ پر کروں۔ تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ فیصلہ میرے لیے کوئی آسان تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اْس کے احکام ہیں جس کی ہم نے تمہارا نکاح کرتے ہوئے اطاعت کی تھی۔
    معاملہ شوہر کے ہاتھ میں چلا گیا۔ وہ بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا اور بیوی اْسکے گھر سے اپنی ذاتی اشیا اْٹھا کر واپس لانا چاہتی تھی۔ گویا معاملہ ایسا معمولی تھا کہ کچھ ہوا ہی نہیں لیکن اب مرد اپنے گھروالوں سے کیا کہے۔ اس پر اْسکی والدہ کا ردعمل کیا ہوگا۔ طلاق کے بعد وہ گھر میں کیسے رہ سکے گی؟ نوجوان نے خاتون کے والد سے کچھ مہلت مانگی کہ وہ سوچ بچار کرلے پھر جواب دیگا۔ خاتون نے ساتھی سے یہ ساری صورتحال بیان کی تو اْس نے خاتون کو اپنے گھر چلے جانے کا مشورہ دیا۔ اسکے شوہر سے بھی کہا کہ وہ بیوی کو گھر لے آئے کیونکہ بہرحال یہی خاتون کا گھر ہے۔ خاتون کے دل میں جنگ برپا تھی کہ وہ کیسے ایک بار پھر سسرال کے ہاں جائیگی؟ اْن کا ردعمل کیا ہوگا؟ ساتھی نے اْس کو کثرت کیساتھ ذکر الٰہی کرنے اور اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت’’ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنْ ‘‘پڑھنے کو کہا۔بالآخر خاتون اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھر چلی گئی۔
    پاک ہے وہ ذات جس نے فرما رکھا ہے: لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا (الطلاق1) ’’تم نہیں جانتے ، شاید اسکے بعد اللہ کوئی صورت پیدا کردے‘‘۔ جب بیوی اور شوہر باہر نکلے تو وہ اپنے ساتھ پیش آنیوالے حالات پر گفتگو کر رہے تھے۔ بیوی نے اپنے گھر سے نکل کر شریعت کیخلاف عمل پر معذرت کی۔ اْس نے دراصل اس واقعے سے ایک سبق سیکھا اور قرآنِ کریم کی ایک آیت کے اْوپر عمل اور اسکے حقیقی نفاذ کو ممکن بنایا۔ وہ ہزاروں درسِ قرآن بھی سنتی تو آیات کی ایسی تفہیم اْسے حاصل نہ ہوسکتی جو اَب ہوچکی تھی۔
    اْس کے شوہر نے سوچنے کے لیے وقت مانگا، مگر جب بیوی بچے اْس کے پاس چلے گئے تو حالات نے اْس کو عملی کیفیت میں لاکھڑا کیا۔ اْس نے اپنے بچوں کو دیکھا،بیوی پر نگاہ پڑی کہ وہ خود کو تبدیل کرنا چاہتی ہے، تو برف پگھلی اور میاں بیوی کے درمیان رحمت و مؤدت اْبھری۔اپنی ساتھی کے ساتھ آخری گفتگو میں خاتون نے بتایا کہ معاف کیجیے گا میرے پاس وقت نہیں، میرے شوہر میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے شام کے کھانے کی دعوت دی ہے۔ بچے کہاں ہیں؟ اْس نے کہا: اْنھیں اْن کی دادی کے پاس چھوڑ آئے ہیں، ہم اکیلے جارہے ہیں۔ اْس کی آواز فرحت و مسرت سے سرشار تھی۔دوست نے فون بند کیا اور وہ کہہ رہی تھی:
     ’’اے رحمن و رحیم! وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے تیری آیات پر عمل کیا‘‘۔

( ترجمہ :ارشاد الرحمن)
مزید پڑھیں:- - - - - - -وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ

شیئر: