Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تلاش

***جاوید اقبال ***
میں آج بھی موقعے کی تلاش میں ہوں۔ ایسا موقعہ جب احسن اقبال کے سامنے کھڑا ہوکر اس سے یہ سوال کرسکوں کہ جب 2007ء میں اپریل کے تیسرے ہفتے میں اسلام آباد میں وزارت تعلیم کے اس کے دفتر میں حاضر ہوکر میں نے اس سے بنام وطن ایک درخواست کی تھی تو اس نے شخصی اور جماعتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے میری التجا کو کیوں رد کردیا تھا۔ میں اس واقعے کی طرف بعد میں پلٹوں گا۔ پہلے اس ہفتے کی خبر پر نظر ڈالتے ہیں۔ سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ اس کی 23 جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے 583 پاکستانی طلباء کو وظائف دیئے جائیں گے۔  اب میں واپس احسن اقبال کی طرف آتا ہوں۔ اس سے پیشتر میں نے ضمناً اس واقعے کا تذکرہ کررکھا ہے لیکن آج چونکہ اس داستان کا ذکر برمحل ہوگا اس لیے ذرا تفصیل سے!!2006ء کے دسمبر میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود نے اس برس کے نوبل انعام یافتہ بنگلہ دیشی ماہر اقتصادیات پروفیسر محمد یونس کو خصوصی دعوت نامہ بھیج کر ریاض مدعو کیا۔ اس کا بڑا شاہانہ استقبال ہوا اور شاہ عبداللہ نے اسے شاہ عبدالعزیز تمغہ درجہ اول سے نوازا۔ اگلے دن جامعہ الملک سعود نے محمد یونس کو ایک لیکچر کے لئے مدعو کیا۔ جہاں اس نے تفصیلاً اپنے گرامین بینک کے منصوبے پر بات کی۔ اس موقعہ پر مدیرالجامعہ نے اعلان کیا کہ ڈاکٹر محمد یونس کے نام پر جامعہ میں اقتصادیات پر ایک ریسرچ چیئر قائم کی جائے گی۔ جامعہ میں کلیۃ اللغات والترجمہ کے اس وقت کے ڈین ڈاکٹر فیصل المھنا سے میرے اچھے تعلقات تھے۔ میں انہیں ملا اور شکوہ کیا کہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے نام پر ریسرچ چیئر قائم کرنے کی تو جامعہ کو توفیق نہ ہوئی اور اپنے ملک میں ایک مالی ادارہ قائم کرنے والے کو ہر طرح سے احترام دیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر المھنا پاکستان کی انتہائی قدر کرتے تھے اور ہمارے وطن کو عالم اسلام کا ستارہ سمجھتے تھے۔ بات ان کے پلے پڑ گئی۔ میں نے تجویز کیا کہ ہمارے کالج میں ہی علامہ اقبال چیئر کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے جس کے تحت تحقیقی اور تدریسی عمل کا آغاز ہوگا۔ علاوہ ازیں 50 پاکستانی طلباء کو جامعہ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف دیے جاسکتے ہیں۔ تجویز مدیر الجامعہ کو ارسال کردی گئی جنہوں نے حتمی منظوری کے لئے اسے وزیر تعلیم کو بھیج دیا۔ صرف اس میں اضافہ یہ کیا کہ ریسرچ چیئر پر تحقیقی کام کے لئے پروفیسر حکومت پاکستان مہیا کرے گی۔ اس کا مشاہرہ پاکستان دے گا جبکہ دیگر سہولیات جامعۃ الملک سعود کے ذمہ ہوں گی۔ اس دوران میں ریاض میں پاکستانی سفیر شاہد کریم اللہ کو مسلسل صورتحال سے آگاہ رکھتا رہا اور اس تجویز کا اجراء ان کے دفتر سے کرادیا۔ ایک ہفتے کے دوران وزارت تعلیم کی منظوری جامعہ کو مل گئی۔ سفارتخانے نے اسلام آباد میں وزارت تعلیم کے دفتر میں اس سنہری پیشکش کا حال لکھ دیا اور درخواست گزاری کہ اردو چیئر کے لیے مناسب امیدوار منتخب کریں اور اس کا نام ارسال کریں۔ یہ فروری 2007ء کا وسط تھا۔ انتظار ہوتا رہا۔ 4 ہفتے گزرے۔ پھر ایک اور خط شاہد کریم اللہ نے تحریر کیا۔ پھر طویل انتظار تھا۔ مارچ گزرا۔ علامہ اقبال چیئر قائم کی جاچکی تھی۔ اس پر بیٹھنے والے کا انتظار تھا۔ تیسری بار یاد دہانی کرائی گئی۔ سفیر پاکستان بے بس تھے۔ ڈاکٹر فیصل المھنا 2 بار اس بارے میں سوال کرچکے تھے۔ تب میں خود اسلام آباد پہنچا۔ اپریل کا تیسرا ہفتہ تھا۔ وزیر تعلیم احسن اقبال کے دفتر تک رسائی حاصل کی۔ موصوف اپنے انتخابی حلقے سے آئے عوام کے بکھیڑے سلجھانے میں مصروف تھے۔  میری گفتگو لاتعلقی سے سنی اور اپنے سیکرٹری کوبلاکر ماجرا ان کے حوالے کردیا۔ میں نے تفصیل دوبارہ بیان کی اور متعلقہ دستاویزات دکھائیں۔ سیکرٹری کہنے لگا کہ وزارت تعلیم کو سفارتخانہ پاکستان سے ایسے کوئی خطوط موصول نہیں ہوئے تھے۔ جب میں نے اصرار کیا تو تلاش کا آغاز ہوا۔ کوئی 20 منٹ بعد کہیں نیچے دبی فائل مل گئی۔ احسن اقبال نے سرسری نظر ڈالی اور معاملہ پھر سیکرٹری کے حوالے کردیا جس نے اعتراض کیا کہ وزارت تعلیم کی منظوری کے بغیر سفیر پاکستان کو جامعہ الملک سعود سے اس طرح کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے وزارت کسی بھی طرح کی کارروائی نہیں کرے گی۔ سیکرٹری نے میری بات تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ فائل احسن اقبال کے سامنے کھلی پڑی تھی۔ میں نے التجا کی کہ وزیر کے طور پر وہ کم از کم اس حکم کا اجراء کردیں کہ اس تجویز کو منظور کیا جاتا ہے  لیکن وزیر موصوف نے انتہائی بے اعتنائی سے فائل بند کر کے سیکرٹری کی طرف کھسکا دی۔ مہینوں کی عرق ریزی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پیشرفت کھوہ کھاتے چلی گئی۔ ایک دستخط، صرف ایک دستخط ہوجاتے تو آج سعودی جامعات میں طلباء گنگنا رہے ہوتے۔ احسن اقبال نے شخصی اور جماعتی مفاد کو ریاستی مفاد پر ترجیح دے دی تھی۔ میں گرفتہ واپس آیا۔ 11 مئی کو مسلم لیگ نے حکومت وقت کے دیے عہدے چھوڑ دیے۔ جون کے اواخر میں ڈاکٹر فیصل المھنا کینیڈا میں سعودی ثقافتی اتاشی ہوکر اوٹاوہ چلے گئے اور جولائی میں شاہد کریم اللہ کا سفیر کے طورپر عرصہ کار اختتام پذیر ہوگیا۔ اگر احسن اقبال بطور وزیر صرف اپنے دستخط، صرف ایک مہر ثبت کردیتا تو آج جامعہ الملک سعود میں قائم اقبال چیئر اردو اور عربی کے مابین حسین رشتوں پر نئے زاویوں سے تحقیق کررہی ہوتی۔ اب اس ہفتے کی خبر کی طرف! مملکت نے اپنی 23 جامعات میں اعلیٰ تعلیم کیلئے 583  طلباء و طالبات کو وظائف دینے کا اعلان کیا ہے۔ دل وحشی میں ایک خیال، ایک تجویز نے سر اٹھایا ہے کیا ایسا ممکن ہے کہ ان 23 تعلیمی اداروں میں سے کسی ایک میں اقبال چیئر کا قیام ممکن بنادیا جائے؟ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں آج بھی احسن اقبال کی تلاش میں ہوں۔چہ ارزاں فروختند!!
 

شیئر: