Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کارکنان کا محنتانہ

علی الجھلی۔ الاقتصادیہ
سعودی حکومت کارکنان کے حقوق دلانے کے سلسلے میں جو کاوشیں کررہی ہے میں انہیں انتہائی باریک بینی سے دیکھ رہا ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ سعودی حکومت اس حوالے سے جو کچھ کررہی ہے وہ مثالی عمل ہے۔ اِس کی مثال اُس پاسبان جیسی ہے جو اپنے ماتحتوں کی سلامتی، امن اور یکجہتی کو یقینی بنانے کیلئے جملہ وسائل بروئے کار لاتا ہے۔ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں سعودی حکومت سعودی ملازمین کے حوالے سے جو کچھ کررہی ہے اسکی نظیر شاید ہی کہیں نظر آسکے۔
آج میری گفتگو کا موضوع غیر ملکی کارکنان کے حقوق ہے۔ اس حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا کہ سعودی حکومت غیر ملکی کارکنان کے حقوق کے تحفظ کیلئے بہت سارے قوانین بنائے ہوئے ہے۔ کارکنان کے حقوق کے تحفظ اور سعودی عرب کی شہرت کے تئیں بہت سارے پروگرام چل رہے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ تمام ٹھیکیداروں کے بقایا جات کی ادائیگی کو یقینی بنانے کیلئے خصوصی کمیٹی تعینات کی گئی ہے۔ یہ کمیٹی تمام سرکاری اداروں کو ایک سے زیادہ بار تحریری ہدایت دے چکی ہے کہ وہ اپنے یہاں ٹھیکیداروں کے تمام حقوق پہلی فرصت میں ادا کرنے کا اہتمام کریں۔ حتمی ہدف یہ ہے کہ سعودی عرب میں موجود ہر ملازم کو اس کا حق ملنا چاہئے اور اسکی پابندی سرکاری اور نجی اداروں کو بھرپور شکل میں کرنی چاہئے۔ 
سعودی حکومت کے اس رویے نے ٹھیکیداروں کے یہاں ذمہ داری اور فرض شناسی کا جذبہ بیدار کیا ہے۔ ٹھیکیدار اپنے زیر کفالت کارکنان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں حساس نظرآتے ہیں۔ سعودی حکومت قومی معیشت کو حرکت میں لانے والا سب سے اہم عنصر ہے۔ سعودی حکومت ٹھیکیداروں کے حقوق اس نظریہ کے تحت بھی ادا کرتی ہے تاکہ ملازمین کے حقوق کی ادائیگی میں آنا کانی کرنے والوں کے پاس کسی قسم کا کوئی عذر نہ رہے۔
اس تناظر میں جب ایک کمپنی کے ملازمین نے مکتب العمل اور لیبر کورٹ جاکر شکایت کی تو انہیں یقین تھا کہ کفیل کمپنی مکتب العمل اور لیبر کورٹ کے سامنے جھک جائیگی اور کم از کم مقدمے کی پیشی پر پیش ہونے کا اہتمام کریگی مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ کمپنی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ آنا کانی جاری رکھی۔ ملازمین کو انکے حقوق نہیں دیئے۔ یہ منظر نامہ دیکھ کر کارکنان میں بیزاری اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ وہ کمپنی کے دفتر کے سامنے دھرنا دیکر بیٹھ گئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب میں اس قسم کے مناظر ذہن اور دل پر شاک گزرتے ہیں۔ ہم ایسا کوئی منظر نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایسی ریاست جو لوگوںکے حقوق کے تحفظ کی بابت نہایت سنجیدہ ہو وہاں یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ 
سیکیورٹی اداروں نے اس حوالے سے جو کچھ کیا وہ معقول بھی تھا اور ساتھ ہی ساتھ اہم بھی۔ سوشل میڈیا کی گرفت سے بچاﺅ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم کمپنی کو ملازمین کے حقوق طلب کرنے پر انکی طلب سے تحفظ فراہم کریں۔ اس موقع پر صرف ایک ہی سفارش کرنا چاہوں گا،وہ یہ کہ کمپنی کو ملازمین کے حقوق 3ماہ کے اندر ادا کرنے کا پابند بنایا جائے ورنہ آنا کانی کرنے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جس سے متاثرین کے دلوں میں ٹھنڈک پڑ جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: