Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھو کر:رضا ٹوٹ کربکھر رہا تھا

دادو! آپ کی بے رخی مجھے مارڈالے گی،رضا بچوں کی مانند سسکنے لگا،دو ماہ سے ثانیہ نے اس سے بات نہیں کی تھی، ان کے درمیان گویا صدیوں کے فاصلے حائل ہو گئے تھے
ناہید طاہر۔ ریاض 
دادو کو حیدرآباد،اسپتال شفٹ کیا گیا۔ والدین کی تدفین کردی گئی۔ غم کس چڑیاکا نام ہے ،یہ رضا کو احساس نہیں تھا صحیح معنوں میں اب پتہ چل رہاتھاکہ زندگی کس قدر آزمائشوں سے پُر ہے۔طوفان اور بھنور سے بچا کر رکھنے والی شفیق ہستیاں جدا ہوگئی تھیں۔زیست کی تکلیفیں،غم کس کو کہتے ہیں،آنسوؤں میں کس قدر نمک کی آمیزش ہوتی ہے، ان ساری چیزوں کا علم اور احساس جینے نہیں دے رہا تھا اور موت دور کھڑی اس کی بے بسی پر قہقہے لگاتی محسوس ہورہی تھی۔ زندگی کو عیش وعشرت کا چشمہ لگا کر جینے والا قدرت کی اس بھیانک چوٹ پر سنبھل نہیں پارہا تھا۔
دادو بچ گئے لیکن انہیں جسمانی چوٹیں بہت آئی تھیں۔رضا پوری طرح ٹوٹ چکا تھا۔زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی کیا اہمیت ہے، اب سمجھ میںآرہا تھا۔ثانیہ ایک فرمانبردار بہو ثابت ہوئی تھی ۔اس نے دادو کو ایک پل بھی تنہا نہیں چھوڑا۔ اس کو شوکت صاحب سے کیاہوا وعدہ یاد تھا۔
"تم ہمارا خیال رکھو یانہ رکھو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،لیکن میرے ابو کا خیال ضرور رکھنا۔ابو ہماری جان ہیں۔"شاید انہیں اپنے جانے کا احساس ہوچکا تھا۔ثانیہ اس خیال کے ساتھ دوبارہ سسکیاں بھرنے لگتی۔ 
زندگی بنا والدین کے ایسی لگ رہی تھی گویابنا چھت کے ایک ویرانہ جہاں کوئی تحفظ اور سکون نہیں تھا۔دن تو گزر جاتا لیکن رات بہت زیادہ بوجھل، کربناک ثابت ہوتی کیونکہ وہ اور رضا دادو کے قریب ہی جاگتے ہوئے انہیں ایک ٹک تکنے لگتے ۔رات بھر دادو شدید تکلیف سے کراہنے لگتے ، کبھی چیخنے لگتے۔اس وقت بھی رات بہت تاریک ہوچکی تھی لیکن دادو کی کربناک کراہیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ثانیہ تم کچھ دیر آرام کرلو میں دادو کے پاس بیٹھتا ہوں۔رضا نے اسکے قریب آکر آہستگی سے کہا۔ جواب میں اسے نے اپنا چہرہ پھیر لیا۔
اس قدر نفرت تو نہ کرو۔رضا کرب سے بولا،کیونکہ اس حادثے کے بعد ثانیہ نے کبھی اس کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔میں آپ کا چہرہ دیکھتی ہوں تو امی ابو کاخون سے تر چہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ میں اپنا صبر کھو نے لگتی ہوں۔جی چاہتا ہے کہ معصوم والدین کو موت کی نیند سلانے والی اولاد کا منہ نوچ لوں،گلہ گھونٹ دوں۔کاش میں ایسا کرسکتی۔وہ بے بسی اور کرب سے ہانپنے لگی۔جواب میں رضا اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے مسلتا بالوں کو نوچنے لگااور کرسی پر ڈھے گیا۔
رضا کو ثانیہ کے اس انداز نے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ تو اس کی نرمی ،انکساری اور خلوص کا عادی تھا۔وہ خاموشی سے کمرے میں آکر بیٹھا اور دادو کے ماتھے کو پیار سے سہلانے لگا۔
"دھوکا اور دکھ اس وقت انتہائی شدید ہوتے ہیں جب وہ اس شخص کی جانب سے ملیں جس پر ہمیں بہت گہرا مان ہوتا ہے۔"یہ کہتے ہوئے وہ ہانپنے لگے اور چہرے کا رخ دوسری جانب پھیر لیا۔
ثانیہ! کیا ہم اس گھر سے کہیں دور نہیں جاسکتے؟انہوں نے تکلیف دہ انداز میں التجا کی۔ثانیہ نے آہستگی سے رضا کے ہاتھ کو دادو کی پیشانی سے ہٹا دیا۔ رضا کے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔
ثانیہ! تم اپنے شوہر سے کہہ دو، وہ ہمیں تنہا چھوڑ دے۔
دادو! آپ کی بے رخی مجھے مارڈالے گی۔رضا بچوں کی مانند سسکنے لگا۔پورے دو ماہ ہونے کو آئے تھے لیکن ثانیہ نے اس سے بات نہیں کی تھی۔ ان کے درمیان گویا صدیوں کے فاصلے حائل ہو گئے تھے۔
رضا کا وجود اس بے اعتنائی پر تنکے کی مانند ٹوٹ کربکھر رہا تھا۔ تنکوں کو جوڑنے کی چاہ میں وہ اور زیادہ بکھرجاتا۔ دل سوگوار تڑپ اٹھتا:
" کوئی ہوتا جسکو اپنا کہہ دیتے یارو"
امریکہ سے راحیلہ کے فون پر فون آرہے تھے۔راحیلہ آپ سمجھتی کیوں نہیں؟میں اسوقت اپنی فیملی کو تنہا نہیں چھوڑسکتا۔
آپ نے مجھ سے بھی کوئی وعدہ کیا تھا۔
ہاں کیا تھالیکن میںحالات کے بھنور میں پھنسا ہوا ہوں۔کچھ تو سوچو۔
آپ کے ارادے کچھ الگ رنگ اختیار کررہے ہیں۔کہیں ہوا بے وفا تو نہیں ہونے لگی؟
ذرا سوچو! میں اتنے غم میں گھرا ہوا ہوں  اورتم شک کررہی ہو؟
کیا آپ کو میری یاد نہیں آتی؟
زندگی نے اتنے زخم بخشے ہیں کہ مجھے اپنا ہوش نہیں۔اس مرتبہ اس نے تیز لہجے میں جھلاتے ہوئے فون بند کر دیا ۔قریب سے گزرتی ثانیہ کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
ہنسواور لطف لو۔ اس نے موبائل فون زمین پر پٹک دیا۔نرسوں نے سہم کر دیکھا جبکہ ثانیہ نے دادو کے وارڈ میں پہنچ کر اندر سے کمرہ بند کرلیا۔
دادو کا آپریشن کیا گیا تھا۔دائیں پیر میں اسٹیل کی راڈ ڈالی گئی۔اس عمر میں درد کی شدت سے دادو بچوں کی مانند روپڑتے تھے۔ تب رضا کا دماغ پھٹنے لگتا۔دل کاچین،سکون،ایک پل کی مسکان کے لئے ترس گیا تھا۔ثانیہ کی خاموشی ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ رضا کو آج اس بات کا شدت سے اندازاہورہا تھا کے وہ ثانیہ کے بغیربالکل ادھورا ہے۔ کسی محور کی طرح اس کے اطراف گھومنے والی لڑکی کا وہ کس قدر عادی ہوچکا تھا اس کی خاموشیاں اور نظرانداز کئے جانے پررضا کا دل غم سے پاگل ہونے لگا تھا۔
دادو کو ڈسچارج کرکے گھر شفٹ کیا گیا تھا۔اشرف چاچا نے ترکاری کا سوپ بنایا تھا آج ثانیہ کسی کام سے تحفظ نساء گئی ہوئی تھی۔ رضا نے دادو کو سوپ پلا نے کی لاکھ کوشش کی لیکن انہوں نے انکارکر دیا۔آخر وہ تھک ہار کربڑی بے بسی سے اپنی آنکھوں سے گرتے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہواوہاں سے لوٹ آیا۔وہ دادو کی نفرت برداشت نہیں کرسکتا تھا۔کمرے میں آکر اس نے دروازے کو زور سے بند کیا اور بیڈ کی سائیڈٹیبل پر رکھی والدین کی تصویر کو اٹھاکر بے اختیار سینے سے لگالیااور گویا ہوا :
"بہت نافرمان اولادثابت ہوا ہوں۔میںآپ لوگوں کوتاحیات ، غم ودکھ کے سواکچھ نہیں دے سکا۔افسوس ! آپ لوگوں کومیری ذات سے کوئی خوشی میسرنہیں ہوپائی۔"وہ رو رہا تھا بچوں کی مانند۔پتہ نہیں کب ثانیہ بند دروازہ وا کئے کمرے میں داخل ہوئی جس کا احساس رضا کو نہ ہوسکا۔
رضانے کئی ہفتوں کے بعداس کی زبان سے اپنا نام سن کر حیرت سے اپنے اشکِ رواں لئے اس کی جانب رخ کیا۔ثانیہ کی نگاہوں میں وہی سردمہری نظر آئی۔اس احساس کاکرب کافی گہراتھا۔آپ کی اس پاکستانی دوست کو میرانمبر کس نے دیا ؟وہ بے پناہ سنجیدگی اور سرد لہجے میں پوچھ رہی تھی۔
کیوں کیا ہوا؟رضا کے ملتجی لہجے پر وہ جھلائی ہوئی بولی’’صبح سے مسلسل فون کئے جارہی ہیں۔میں تنگ آچکی ہوں۔آپ اس سے بات کرلیجئے اور پلیز اس سے کہہ دیجئے کہ آئندہ مجھے فون نہ کرے۔وہ لڑکی پاگل ہوگئی ہے۔‘‘ رضا، ثانیہ سے فون لیتا ہواغصے سے جھنجھلا اٹھا۔
(باقی آئندہ، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: