Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاش! گھرو ں کا شیرازہ بکھیرنے والا خلع اور طلاق کا سلسلہ ناپید ہوجائے

دور جدید میں میاں بیوی ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کو برا نہیں سمجھتے، اگر کسی بچے کی پیدائش سے قبل طلاق یا خلع کا فیصلہ ہوجائے تو اسے ’’خوش قسمتی‘‘ قرار دیا جاتا ہے
شہزاد اعظم ۔ جدہ
میاں بیوی کا رشتہ ایک کچے دھاگے سے بندھا ہے لیکن یہ دنیا کے بڑے بڑے مضبوط رشتوںسے زیادہ گہرا اور قربت کا حامل ہوتا ہے۔ اتنی گہرائی اور گیرائی شاید کسی دوسرے رشتے میں نہ پائی جاتی ہو۔ یہ وہ ناتہ ہے جو انسان کے دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ایک عمر کو پہنچنے پر قائم ہوتا ہے جبکہ باقی تمام رشتے اس کے آنکھ کھولنے سے قبل ہی قائم ہوچکے ہوتے ہیں۔
زن و شو ایک دوسرے کے لئے نہ صرف ہمسفر اور ہم نفس قرار پاتے ہیں بلکہ وہ معاشرے کی ایک ایسی اکائی مرتب کرتے ہیں جسے گھر کہا جاتا ہے۔ یہ گھر جب یکجا ہوتے ہیں تو معاشرے کی شکل اختیار کرتے ہیں اور جب کئی معاشرے باہم مربوط ہوجائیں تو ایک قوم کی تکوین کرتے ہیں۔ میاں بیوی کا ساتھ ایک ایسا بندھن ہے جو ایک دوسرے کیلئے آئینہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ رب کریم نے زن و شو کے لئے قرآن مجید میں ارشاد فرما دیا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ’’کہ میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے لباس ہیں‘‘ اب ذرا تصور فرمائیے کہ لباس کس انداز سے وجود انسانی کیلئے اہم ہے، یہ انسان کی شخصیت کیلئے زینت بنتا ہے۔  موسمی شدت سے محفوظ رکھتا ہے۔ عظمت و توقیر کا باعث بنتا ہے۔مخصوص شناخت کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہی صورتحال میاں بیوی کیلئے بھی ہے کہ وہ معاشرے میں ایک دوسرے کیلئے نہ صرف عزت  اور وقار کا باعث بنتے ہیں بلکہ زینت اور شناخت بھی عطا کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کیلئے اطمینان اور سکون کا باعث  بھی ہیں۔
زن و شو کا ناتہ انتہائی مضبوط ہونے کے باوجودصرف ایک لفظ ’’طلاق‘‘ زبان سے ادا کرنے کے باعث ٹوٹ جاتا ہے۔پھر یہ میاں بیوی  ایک دوسرے کیلئے  انجان سے زیادہ پرائے ہوجاتے ہیں۔اب انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے یا کسی قسم کا تعلق قائم کرنے سے اجنتاب کرنا پڑتا ہے۔ اتنا عظیم اور مضبوط رشتہ صرف ایک لفظ سے حرام ہوجاتا ہے۔
دور حاضر میں طلاق کو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا۔ ہمیں یاد ہے کہ آج سے چند دہائیوں قبل اگر کسی عورت کو طلاق ہوجاتی تووہ گھر پورے محلے میں مشہور ہوجاتا تھا کہ یہ وہ گھر ہے جہاں ایک عورت کو طلاق ہوئی اور وہ اسی گھر میں مقیم ہے۔ یہی نہیں بلکہ کسی باہر سے آنے والے کو پتہ سمجھانے کیلئے بھی کہا جاتا ہے کہ اس محلے میں فلاں مطلقہ کے گھر سے 2گھر چھوڑ کر ہمارا گھر ہے۔ اس طرح وہ شخص باآسانی گھر پہنچ جاتا تھا۔پرانے وقتوں میں طلاق کو برا سمجھا جاتا تھا او رطلاق یافتہ یا خلع یافتہ خاتون کی شادی بھی ایک مسئلہ بن جاتی تھی کیونکہ جو بھی نیا رشتہ آتا وہ پہلا سوال یہی کرتے تھے کہ طلاق کیوں ہوئی؟جب وہ ا س سوال کا جواب دینے سے قاصر رہتے تو رشتہ لانے والے انکار کرکے چلے جاتے۔ اس طرح یہ تصور کیا جاتاتھا کہ  طلاق کے بعد عورت کی زندگی برباد ہوجاتی ہے اور اسکے لئے سوائے میکے کی خدمت اور بھابھیوں کے کپڑے برتن دھونے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔
پھر یہ ہوا کہ معاشرتی رویوں نے کروٹ لی اور طلاق کو برا سمجھا جانے کی شدت میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی۔ اسکا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ پرانے زمانے میں مائیں اپنی بیٹیوں کو گھر گرہستی کی مکمل تربیت دیا کرتی تھیں او رانہیں ایک اچھی بیوی اور بہو بن کر رہنے کے تمام اطوار سکھایا کرتی تھیں۔ جسکا انجام یہ ہوتا تھا کہ وہ سسرال جاکر والدہ کی دی ہوئی تربیت پر عمل کرکے اپنے سسرال کو امن کا گہوارہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی تھیں۔ اگر انہیں سسرال سے کوئی شکایت ہوتی یا سسرال میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ بیٹی اپنی ماں سے تمام باتیں کرتی اور ان سے مشورہ لیتی۔ ماں بھی اپنی بیٹی کو سسرال والوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے او ربات بنائے رکھنے کے گر بتاتی تھیں۔ اسی لئے نہ صرف طلاق کی شرح کم تھی بلکہ گھرو ںمیں ماحول بھی پرسکون رہا کرتا تھا اور لوگ ببانگ دہل بصد افتخار یہ کہا کرتے تھے 
’’ہوم سویٹ ہوم‘‘
وقت نے کروٹ لی ، ہمارے وطن عزیز پاکستان میں مغربیت کے گڑھے ہوئے پنجے اور مضبوط ہوئے غیر ملکی تہذیب کی جڑیں اور گہری ہوئیں  اور ہم نے پرائی ریت کو اپنانا اپنے لئے فخر سمجھنا شروع کردیا۔ آج کل کی مائیں  بچیوں کو اگر کچھ سبق پڑھانا چاہتی ہیں تو وہ انتہائی جھنجھلاہٹ کے انداز میں  جواب دیتی ہیں کہ’’مما پلیز یہ سب پرانے زمانے کی باتیں ہیں، آج کل کی بہوئوں کو سسرال کے مطابق چلنا نہیں پڑتا بلکہ سسرال کو بہو کے مطابق گزر بسر کرنا پڑتا ہے۔ اسکی باتیں ماننا پڑتی ہیں، شوہر نامدار بھی اب پرانے زمانے کے نہیں رہے بلکہ انہیں دور جدید میں ’’ھبی ‘‘ کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ اگر وہ اپنی بیگم کا خیال رکھنے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں تو انہیں ایک لمحے  کے لئے بھی برداشت نہیں کیا جاتا اور دلہن بیگم ان سے خلع طلب کرلیتی ہیں۔ آج کا دور پرانا نہیں رہا بلکہ طلاق یا خلع یافتہ خاتون کو برا نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی دوسرا رشتہ لیکر آنے والے اس سے اس کے خلع یا طلاق  کے بارے میں سوال کرنے کی جرأت کرتے ہیں کیونکہ انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ جس شخص سے اس خاتون نے علیحدگی اختیار کی ہے وہ ضرور کسی نہ کسی عیب کا حامل ہوگا۔ ورنہ ایسی  ’’خوبصورت اور اسمارٹ خاتون‘‘ کو بھلا کون ہوگا جو طلاق دینا چاہے گا۔
یہ بات اپنے  طور پر بہت ہی عجیب ہے کہ آج کی خواتین کو شادی کے بعد میاں کو چھوڑنے یا اس سے الگ ہوکر زندگی گزارنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اگر طلاق یا خلع بچے کی پیدائش  سے قبل ہوجائے تو اسے ’’خوش قسمتی ‘‘ شمار کیا جاتا ہے او ریہ شکر ادا کیا جاتا ہے کہ ہمارے دونوں کے درمیان کوئی تیسرا رشتہ نہیں تھا کہ جس کی وجہ سے ہم علیحدہ  ہونے کا فیصلہ ترک کرنے پر مجبور ہوتے۔ بچے ہوجانے کے بعدمیاں بیوی کا ایک دوسرے سے علیحدہ ہونا بلا شبہ بچوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے خواہ محبت ہو یا نہ ہو لیکن انہیں اپنے بچوں سے کسی نہ کسی درجے کی محبت ضرو رہوتی ہے۔ وہ انکی وجہ سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتے او رجھینکتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسلئے کسی بچے کے ہونے سے قبل طلاق یا خلع حاصل کرنا نہایت آسان او ر’’سستا سودا‘‘ سمجھا جاتا ہے۔
دور جدید میں پاکستانی میڈیا ، فلموں اور بیرونی ملکوں سے درآمد شدہ فیشن کے باعث شادی اور طلاق ایک عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے۔یہ نہیں کہ طلاق دینے یا خلع حاصل کرنے میں آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں بلکہ بعض حقوق کی تنظیموںاور خاص طور پر خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی این جی اوز نے اس  رویئے کو اتنا بڑھاوا دیا ہے کہ اب ہر شادی شدہ خاتون طلاق حاصل کرنا اپنا قانونی ’’حق‘‘ سمجھتی ہے۔
گئے وقتوں میں شادی کرنا بھی بہت مشکل کام ہوا کرتا تھا۔ طرفین کے والدین آپس میں ملاقاتیں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے گھر کا ماحول دیکھا جاتا تھا۔ لڑکے اور لڑکی کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل ہوتی تھیں۔ انکی عادات و اطوار کے بارے میں آگہی حاصل کی جاتی تھی اس کے بعد ہی بات آگے بڑھتی تھی ۔
اس کے برعکس ِآج کے دور میں ان تمام معلومات اور آگہی کو عبث قرار دیا جاچکا ہے ۔ لڑکی بھی فیس بک پر یا واٹس ایپ کے ذریعے اپنی تصویر ارسال کردیتی ہے جسے فریق ثانی پسند فرما لیتے ہیں اور پیغام ارسال کردیتے ہیں کہ مجھے یہ رشتہ منظور ہے اب آپ  اپنے والدین کو راضی کرلیجئے۔ یہ محترمہ اپنے اماں ابا کو اس امر کا قائل کرلیتی ہیں کہ میں نے لڑکا دیکھ لیا ہے، وہ مجھے پسند ہے، ایک نظر آپ بھی دیکھ لیں۔اگر والدین اس پر کوئی اعتراض کریں کہ بیٹی ہم نے تو اسکی عادتیں بھی نہیں پرکھیں، اسکے خاندان کی روایات کا بھی ہمیں علم نہیں تو پھر یہ رشتہ ہم کیسے منظور کرلیں، لڑکی اس کا جواب دیتی ہے کہ شادی مجھے کرنی ہے اس کے ساتھ مجھے رہنا ہے ، نباہ مجھے کرنا ہے آپ کو اس حوالے سے کوئی فکر نہیں ہونی چاہئے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر شادی کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ رشتہ غلط طے ہوگیا ہے تو میں اس سے ’’بائی فورس ‘‘ خلع لے لوں گی۔ آج کل ویسے بھی لڑکوں کی کمی نہیں۔
یہی وہ وجوہ ہیں جن کے باعث ہمارے معاشرے میں طلاق او رخلع کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی جیسے عروس البلاد کہلانے والے عظیم شہر کے خواندہ باسیوں میں خلع اور طلاق کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔ شہر میں قطار در قطار شادی ہال کھلے ہوئے ہیں جہاں روزانہ دولہا دلہن نظر آتے ہیں اور انہیں الوداع کہنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے لیکن افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ ان میں سے کم از کم نصف تقریبات عروسی ایسی ہوتی ہیں جو طلاق کے بعد منعقد ہورہی ہوتی ہیں۔ کاش گھروں کا شیرازہ بکھیرنے والا خلع اور طلاق کا یہ سلسلہ ناپید ہوجائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: