Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے سہارا لوگوں کےلئے پناہ گاہیں

***احمد آزاد۔فیصل آباد***
پاکستان کے بڑے شہروںمیں لوگوں کی بڑی تعدادایسی بھی ہوتی ہے جو رات کھلے آسمان تلے گزار دیتی ہے ۔اپنا گھر ہرکسی کا خواب ہوتا ہے ۔اگر دیارغیر میں بھی جایاجائے تو پہلی چیز جس کی فکردامن گیر ہوتی ہے وہ رہائش ہی ہوتی ہے ۔ایک اچھے مستقبل اور گھر کی مجبوریوں کو آسانیوں میں بدلنے کی کوشش میں مصروف یہ مردمیدان روزی کی تلاش میں اپنے گائوں، قصبوں اور شہروں سے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور پھر دن محنت مزدوری میں گزارتے اور رات کُھلے آسمان تلے یاکسی دکان کے آگے بنے چبوترے پر سونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنا گھر بار گنواچکے ہوتے ہیں اور زندگی کے دن پورے کرنے کی خاطر سڑک کے کنارے ہی جاگتے اور سوتے نظرآتے ہیں ۔بعض بوڑھے افراد کو ان کی ناخلف اولاد گھر سے نکال دیتی ہے اور دربدر ٹھوکریں کھاتے لاہور جیسے شہر میں پہنچ کر اپنی پہچان گم کرلیتے ہیں کچھ قسمت کے مارے نشے جیسی لت میں مبتلا ہوکر دنیا ومافیہ سے بے نیاز ہوکر اپنی دھن میں مگن ہوجاتے ہیں ۔بہرحال آپ پاک وہند کے بڑے شہروں میں رات کو سڑک پر نکلیں تو فٹ پاتھ پر ،دکانوں کے چبوتروں پر، پارک کے کسی کونے کھدرے میں ، مسجد ودیگر عبادت خانوں کے آگے یا پھر کسی ایسی ہی جگہ پر مخلوق خدا نیند کے مزے لیتی نظرآئے گی ۔خداخوفی اور انصاف سے دور حکمران طبقہ کی بڑھتی ہوئی خواہشیں اور امیروغریب کے بڑھتے ہوئے فرق نے جہاں امیر کو امیر تر بنادیا وہیں غریب کو غربت سے بھی نیچے دھکیل دیا ۔حکمرانوں کی عیاشیاں اس قدرزیادہ تھیں کہ آج حکومتی ادارے جس پروجیکٹ یا پروگرام پر ہاتھ ڈالتے ہیں کسی نہ کسی کونے کھدرے سے کرپشن کی خبر ملتی ہے۔بے نامی اکائونٹس کا شوروغوغا جسے ماضی کی حکومتوں نے دبائے رکھا اب اپنی پوری طاقت سے سنائی دے رہا ہے ۔منی لانڈرنگ،زمینوں پر قبضے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی داستانیں بھی زبان زدعام ہوچکی ہیں ۔ماضی قریب و بعید کی جمہوری حکومتوں میں اچھے کام بھی ہوئے ہیں جن کی تعریف نہ کرنا اور سراہا نہ جانا ناانصافی ہوگی لیکن چونکہ وہ ماضی کی بات ہے تو اسے ایک طرف رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کے ایک احسن قدم کی بات کرتے ہیں۔موجودہ پاکستانی حکومت کو جہاں ورثے میں کئی ایسے مسائل ملے ہیں جن سے فرار ہونا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ منصفانہ بات کروں تو اگر تحریک انصاف کی حکومت پوری دلجمعی اور خلوص نیت کے ساتھ بھی اپنا دور حکومت ان مسائل پر صرف کردے تو پھر بھی ان کا حل ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔سیاسی صورت حال اس کے علاوہ ہے جو کہ ہرروز اک نیا روپ دھار کر سامنے آجاتی ہے ۔سیاسی مخالف اپنی چالیں چل رہے ہیں اور حکومتی لوگ اپنی چالیں چل کر ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش میں ہیں ۔ملکی معیشت بیرونی قرضوں اور امداد پر چل رہی ہے ۔اگر بیرونی مدد اور قرضے نہ ملیں تو ملک کا کیا ہو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔درجہ چہارم سے لے کر اوپری سطح تک بلکہ جمہوری نمائندگان تک اقرباپروری اور کرپشن اندر تک سرایت کرچکی ہے ۔فی الوقت اگرچہ کرپشن کے خلاف کام ہورہا ہے لیکن کرپشن کا گند صاف کرنے میں ہمیں خاصا وقت اور دقت درپیش ہوگی۔سیاسی گرما گرمی کے ماحول میں عوامی مسائل کو حل کرنا یا ان کے متعلق سوچ رکھنا حکمرانوں کے لیے مشکل ہوتا ہے ۔ان حالات میں حکومت پاکستان کی طرف سے بے یارو مددگار سڑکوں پر گزر بسرکرتے پاکستانی عوام کے لیے پناہ گاہوں کا قیام ایک خوش آئند بات ہے ۔خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گذارتے ان بندگان خدا کو پیٹ بھر کرکھانا فراہم کرنے اورسر چھپانے کیلئے چھت کی فراہمی کے لیے پناہ گاہوں کا قیام لائق تحسین ہے ۔ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 5ہزار بچے تو صرف پشاور کی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جولاوارث اورنشہ کے عادی افراد کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس لت کا شکار ہو جاتے ہیں۔نشے کی لت لگنے کے بعد کھلے آسمان تلے سردی یا نشے کے باعث جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں۔ ان مسترد شدہ اور نظر انداز کئے گئے بے کسوں کی نگہداشت بھی ریاست کی ذمہ داری ہے ماضی میں ہماری حکومتیں اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کی مرتکب بھی ہیں۔قابل قدر ہیں وزیراعظم پاکستان کہ جنہوں نے 1956ء کے دورانیے میں صدر پاکستان سکندر مرزا کی بیگم کے بعد فقراء اور لاوارث افراد کا خیال  رکھنے کی ذمہ داری بحیثیت ریاست کے قبول کی ہے ۔اگرچہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے جو اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے لیکن چونکہ ہم ٹھہرے ذرا وکھری ٹائپ کے لوگ اس لیے ہم پر حکمران بھی ہماری ٹائپ کے ہی آتے رہے ہیں ۔اس بار ہم لوگوں نے تبدیلی کی بات کی تو حکمران بھی تبدیل ہوگئے۔ ایسے میں ان کے اچھے کام کو سراہا جانا اوربُرے کام پر ناصحانہ تنقید کرنا میانہ روی کاراستہ ہوگا ۔اب جبکہ پشاور،لاہور،راولپنڈی میں ’’پناہ گاہ/شیلٹر ہوم‘‘ جاری ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے بھی ضلعی سطح پر اس کام کو کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے تو حکومت وقت کو چاہیے کہ جہاںوہ بے سہارا افراد کو کھانا اور چھت فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھانے کی سعی کررہی ہے ۔وہیں ان افراد کومعاشرے کا فعال اور ذمہ دار شہری بنانے کیلئے مربوط منصوبہ بندی بھی کرے ۔بے روزگاروں کوروزگار فراہم کرے ۔نشے کی لت میں مبتلا افراد کو معاشرے میں واپس لانے کیلئے بھی اقدامات کرنا ہوں گے ۔نشے کی مختلف صورتوں کو سختی سے روکنا ہوگا ۔نشہ فروخت کرنے والوں اور ان کو قانون کی چھت بطور محافظ فراہم کرنے والوں کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر سختی سے کام کرنا ہوگا۔شیلٹرہوم/پناہ گاہ میں آنیوالے افراد سے عزت سے پیش آنا ہوگا ۔عملے کواپنا رویہ بہتر اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنا ہوگی۔حکومت کو پاکستان کے مخیر طبقے کوساتھ ملاکر ان پناہ گاہوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں چلانا چاہیے ۔ اس سے ایک تو حکومت پر بوجھ کم پڑے گا دوسرا معاشرہ بھی کسی مثبت کام میں جُت جائے گا ۔حکومت ان پناہ گاہوں کو قائم کرے اور پھر اسی شہر میں درد دل رکھنے والے افراد کو اس طرف لائے جو اس کا انتظام سنبھالیں۔سرکاری مداخلت کو بتدریج کم کرتے ہوئے معاشرے کے بہترین لوگوں کے ہاتھ اس کام کو لے جایا جائے تاکہ سرکاری سطح پر ہونے والی کرپشن سے یہ پروجیکٹ محفوظ رہ سکے۔سب سے اہم کام کہ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کے اقدامات اور کام کو سراہنے کی بجائے کیڑے نکال کر اسے بند کرنے کے درپے نظرآتی ہے ۔پناہ گاہوں کا یہ پروگرام ایک بہترین اور نیک کام ہے ۔حکومت وقت کو اس کارخیرمیں اپوزیشن کو ساتھ ملانا چاہیے ۔ اس حوالے سے قانون سازی کی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہے ۔پبلک پارٹنرشپ میں چلنے کی وجہ سے ایک تو مانیٹرنگ کا نظام بہتر رہے گا دوسرا کل کو سیاسی انتقام کی نظر ہونے سے یہ پروجیکٹ محفوظ ہوجائے گا ۔ایسے عوامی خدمت کے کام کو جو سیاسی جذبوں سے بالاتر ہو خدمت انسانیت کے جذبے کے تحت کرنا ہی زندہ ضمیر کی آواز ہے ۔
 

شیئر: