Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منی بجٹ کا بار بھی عوام پر

***سید شکیل احمد***
وزیراعظم عمر ان خان نے لو ڈ شیڈنگ پر برہمی کا اظہا ر کر تے ہو ئے کا بینہ کے بعض ارکا ن کو ڈانٹ پلائی کہ وہ لوگو ں سے قر ض ما نگتے پھر رہے ہیں اور عوام کو لو ڈ شیڈنگ کے عذاب میں ڈال دیا گیا ہے ، عموما ًوزیر اعظم کی ڈانٹ ڈپٹ کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ بات بھی درست ہے کہ ہو رہا سب کچھ الٹا ہے کیو نکہ وزیراعظم نے دھر نا تحریک سے انتخابی مہم تک جو کچھ کہا تھا اب جب کہ اپنے کہے کو پر کھتے ہیں تو سب ہی الٹ نظر آتا ہے۔ قر ض لینے کے بارے میں ان کے ارشادات تھے کہ یہ بھیک ما نگنے سے بھی بدتر ہے وہ مر جائیں گے مگر قرض کسی سے نہیں ما نگیں گے۔ جو طعنہ وہ سابقہ حکومت کو دیتے تھے اس سے بھی مانگنے میں حد پار ہو گئی ہیں۔ قرضہ لینے میں موجودہ حکومت نے سابقہ حکومتو ں کا ریکا رڈ توڑ دیا ہے ، قرضہ کتنا لیا گیا ہے ، اس بارے میں میڈیا پر جو آیا ہے اس کے مطا بق حکو متوں نے ڈھا ئی ٹریلین روپے قرض لیے ہیںجو یقینی طو رپر بہت بڑی رقم ہے۔ اس کے ضیا ع پر ہر پا کستانی کو دکھ ہو گا ، چنانچہ عمر ان خان کی اپنی ٹیم کو ڈانٹ ڈپٹ درست محسو س ہو تی ہے مگر ان کو یا د رکھنا چاہیے کہ جیسا کہ بی بی بشریٰ یا د کر اتی رہتی ہیں کہ اب وہ وزیر اعظم ہیں اور حکو متی ہر اچھائی وبرائی کی ذمہ داری ان کے کند ھو ں پر ہے ۔               اتنا بھاری بوجھ عوام کے کندھو ں پر ڈالنے کے باوجو د اسد عمر کا کہنا ہے کہ ایک نیا بجٹ آرہا ہے۔ ما ضی کی حکومتیں بھی ایسا بجٹ لایا کرتی تھیں ، مگر اس کو منی بجٹ کہاجا تا تھا مگر جس بجٹ کی وہ ڈونڈ ی پیٹ رہی ہے اس بارے میں یہی سمجھایا جا رہا ہے کہ عوام کے کاندھے شل ہو کر رہ جا ئیں گے اس منی بجٹ کے بار سے ۔        حکومت کے معاشی امو ر کے ترجما ن فرخ نسیم جو 24؍دسمبر تک حکومت کے اجلا سو ں میں باقاعدگی سے شریک ہو تے رہیں جن کی تقرری کا اعلا ن وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدر ی نے بذریعہ ٹوئٹ کیا تھا اور فرخ نسیم کے منہ سے سچ پھسل جا نے سے ان کی ٹوئٹ کے ذریعے ہی چھٹی کر دی گئی ، انہی فرخ نسیم نے ایک ٹی وی پر وگر ام میں بتایا تھاکہ گردشی قرضے ما ضی کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا تیزی سے بڑ ھ رہے ہیں۔ ایسی غیر یقنی صورتحال میں کوئی کا روبار نہیںچل سکتا۔ یہ بات سچ بھی ہے کیو نکہ غیر ملکی سرمایہ کا ری تو اب عنقا نظر آرہی ہے ملکی سرمایہ کا ر بھی سرمایہ بیر ون ملک لے جارہے ہیں ۔ڈاکٹر فرخ نسیم کے مطا بق روپے کی قدر میں کمی کی حکو متی پالیسی کے نتائج نہیں ملے جبکہ مہنگائی 2 گنا بڑھ چکی ہے۔فرخ نسیم نے جو انکشافات کیے وہ ترجما ن معاشی امور برائے وزیرا عظم کی حیثیت سے کیے تھے۔ اگر اب وہ کوئی ایسی بات کر یں تو گما ن کیا جا سکتا ہے کہ عہد ہ چھن جا نے کی کیفیت ہے ،ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر آتاہے اور 16 دن میں ختم ہو جا تا ہے ۔اسی طر ح جب عمران خان  بر سراقتدار آئے تو انھو ں نے قوم کو خزانہ بالکل خالی ہو نے کا مژدہ سنا یا۔ عوام کو یقین آیا کہ کیو نکہ عوام مہنگائی اور بے روزگا ری کی چکی میں پسے جارہے تھے۔
 اسٹیٹ بینک کے اعدا دو شما ر تو یہ بتاتے ہیں کہ جب تحریک انصاف نے عنا ن حکومت سنبھا لی تو اس وقت 18ارب ڈالر کا ذخیر ہ خزانہ میں تھا جبکہ مسلم لیگ ن23 ارب ڈالر کا دعویٰ کر تی ہے آخر یہ 23ارب یا 18 ارب ڈالر کس اندھے کنو ئیں میں ڈوب گئے ، قوم جا نا چاہتی ہے تو کیا یہ غلط ہے ؟قر ضے سے معیشت کبھی بھی بہتر نہیں ہو ئی۔ اگر ایسا ممکن ہو تا تو ما ضی کی حکومتیں کر پاتیں ۔ بقول فرخ نسیم کے کہ کب تک قرضو ں سے ملک چلا یا جا ئے گا ،ملکو ں میں دوستی نہیں ہو تی مفادات ہو تے ہیں دنیا میں کہیں لنچ مفت نہیں ملتا ۔ان کے مطا بق یو ای اے سے 2.8فی صد کی شرح سود پر قرض ملا ہے ، اسی طر ح سعودی عرب سے بھی 3فی صد کی شرح سے بھی زیا دہ سود پر قرض ملا ہے ۔پی ٹی آئی سابق وزیر خزانہ اسحا ق ڈار پرقرضہ لینے پر کڑی تنقید کر تی آئی ہے مگر اب وفاقی وزیر خزانہ خود کہہ رہے ہیں کہ اسحا ق ڈار آئی ایم ایف کے پاس قر ضہ لینے چلے گئے تھے تو انھوں نے ایسا غلط نہیں کیا ۔اب تک ملک کی اقتصادیا ت اور معاشیات کو درست کر نے کے لیے حکومت کی واضح پا لیسی سامنے نہیں آئی۔ وہی سیا سی اند از میں الزام تراشیا ں اور سبز باغ کے خواب ہی دکھا ئی دے رہے ہیں۔ ارباب حل وعقد سابقہ حکو متو ں پر تبّر ا ہی بھیج رہی ہیں۔ اب ان کو احساس ہو نا چاہیے کہ عوام نے جس مشن کے لیے ان کو منتخب کیا ہے اس کا مقصد مقبول نعرے سننا نہیں ہے۔ اور نہ غیر مقبول فیصلے۔ ان کو عمر ان خا ن اور پی ٹی آئی کی تنظیم پر بھر وسہ تھا اور ہے کہ یہ ملک کو صحیح پٹری پر لے آئیں گے چنا نچہ اس وقت عوام حزب اختلاف کی تنقید پر کوئی خاص دھیا ن نہیں دے رہے ، وہ منتظر ہیں تبدیلی کے ، چنا نچہ منی بجٹ لا یا جا ئے یا آئی ایم ایف ، یا کسی دوست ملک کی طر ف رجو ع کیا جا ئے عوام اس پر معتر ض نہیں ہیں۔ وہ ملک کو اقتصادی اور معاشی طورپر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے معاونت بھی کررہے ہیں چنا نچہ تحریک انصاف کے پاس ایک سال کا بہترین وقفہ ہے کہ وہ اپنی مقبولیت برقرار رکھے کیونکہ ایک سال بعد یہ سوال شدت سے اٹھ سکتا ہے کہ وہ وعدے تیر ے کیا ہوئے ؟            نئے مالی سا ل میں حکومت کے پاس بہانہ کوئی نہ ہو گا ، چنا نچہ ما ضی کا قصہ اب بھول جا نا چاہیے اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہو نا چاہیے۔ اب تک جو سامنے آیا ہے اس میں یہی بہت بڑے صدمے کی بات ہے کہ صرف روپے کی قدر گرا نے سے پا کستان پر بیٹھے بٹھائے 9؍ارب ڈالر کا قرضہ مزید پڑ گیا۔ وہ جو کہا ہے کہ’’ کھایا پیا کچھ نہیں گلا س توڑا ایک روپیہ 6 آنے ‘‘کا ڈنٹ پڑ گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ عمر ان خان اپنے مشکل دور سے گزر رہے ہیں ، ان کو ٹیم کی جا نب سے بھی افتاد کا سامنا ہے ، مشیر و ں کی فوج ظفر مو ج کے با وجود راہ واضح نہیں ہو رہی ہے جس کا ایک ہی حل ہے کہ وہ سیا سی چھیر چھا ڑ کو چھو ڑ دیں اور اہم قومی مسائل اور پالیسوں پر قومی یکجہتی کی جانب مساعی کر یں۔ کوئی فیصلہ کر نے سے پہلے اپنے ماضی کی 5 ، 7 برسوں کی تقاریر ، تنقید ، وعدو ں پر بھی نظر ڈال لیا کر یں تو اس سے ان کو سلجھا ؤ میں کا فی معاونت حاصل ہو گی۔
روپے کی قدر میں گراوٹ سے جو 9 ارب ڈالر کے قرض کا اضا فہ ہو ا ہے یہ 9 ارب ڈالر قرضو ں کا حصہ اس طر ح بن گیا ہے کہ اس کے ساتھ سود کی رقم میں بھی اضا فہ ہو گیا ہے۔ ماضی میں پاکستان قرضوں کی اقساط اور اس پر عائد سود کی ادائیگی کیلئے قر ض پر قرض لیتا چلا گیا ہے اور روپے میں گراوٹ بھی پید ا ہو تی رہی مگر معاشی استحکام ناپید ہو گیا اس لیے پی ٹی آئی جس کے پا س اقتصادی کونسل کے ارکا ن کی فوج ہے مگر اس کی کا رکر دگی کا غذو ں میں بھی نہیں آرہی ہے۔ بہر حال ماضی سے سیکھنے والی ہی قوم نجا ت پا تی ہے۔
 

شیئر: