Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے

کراچی ( صلاح الدین حیدر) اچبھنے کی بات بھی نہیں مگر ساتھ ہی حقیقت بھی۔ 90 کی دہائی میں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں نہ صرف سپریم کورٹ پر حملہ کرایا بلکہ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے جھگڑا مول لے لیا۔ دونوں ہی بیان بازی پر اتر آئے۔ بالاخر نواز شریف نے پیسے کے بل بوتے پر جسٹس تارڑ اور کئی ایک دوسرے ججوں سے مل کر اپنی مرضی کا چیف جسٹس لے لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر یہ کہانی دہرائی جارہی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس فائز عیسیٰ کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوگئی جو کہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ سبق آموز بھی کہ ایسے واقعات نہ صرف انصاف کے نظام کو تباہ و برباد کردیں گے بلکہ جگ ہنسائی کا باعث بھی بنے گا۔ کیا اعلیٰ عدالتوں کے جج آپس میں لڑتے ہیں۔ بہت عجیب لگتا ہے۔ مقدمات سننے کےلئے چیف جسٹس کا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ کیسی بنچ تشکیل دیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے ایک مقدمے میں بنائے گئے بنچ سے ایک جج کو اس لئے ہٹا دیا کہ موخرالذکر نے مقدمہ خود سے سننے کو غلط قرار دیا۔ یہ قصہ ہے مارچ 2018ءکا لیکن اتنی دیر کے بعد جسٹس عیسیٰ نے چیف جسٹس کے احکامات پر سخت تنقید کی۔ وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوشی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ جسٹس عیسیٰ نے ایک اختلافی نوٹ لکھا جس میں انہوں نے باور کرانے کی کوشش کی کہ اعلیٰ عدالتوں کا ہر جج اپنے فیصلے لکھنے اور مقدمات پر رائے دینا کا حق رکھتا ہے۔ چیف جسٹس کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی ہی بنائی ہوئی بنچ پر تنقید کرنے والے جج کو ہٹاکر 3 کے بجائے 2 ججوں کی بنچ بنادیں۔ 2 جج صاحبان حساس مقدمے کا فیصلہ اس طرح نہیں کرسکتے جس طرح کہ 3 ججز ملکر کرسکتے ہیں۔بات یہیں پر ختم ہوجاتی تو بہتر تھا لیکن عدالت عظمیٰ کے ایک اور جج سید منصور علی شاہ نے 6 صفحات پر نوٹ لکھا کہ کسی بھی جج کو بنچ سے ہٹانے سے صاف و شفاف عدالتی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ 1998ءمیں تو نواز شریف نے جج صاحبان کو لڑوایا تھا لیکن اس وقت کیا وہی صورت حال ہے؟ اسپتال سے خارج کیا ہوا فضلہ کا مقدمہ سننے کیلئے چیف جسٹس نے 3 ممبران کی بنچ بنائی تھی لیکن جسٹس فائز عیسیٰ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالت عظمیٰ کو صرف وہی مقدمات سننے چاہیے جس کا اسے اختیار ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں 1992ءمیں ایم کیو ایم کے خلاف جب آرمی ایکشن ہوا تو انہوںنے انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر خود سے مقدمات سننے شروع کیا ۔ پولیس اور آرمی کے افسران کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم سنایا۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ کوئی بھی ادارہ کتنا ہی مضبوط ہو اختیارات سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ آرمی کے افسران نے ایم کیو ایم کے لڑکوں اور کارکنوں کو رات میں گھر سے اٹھانے اور انہیں قید تنہائی میں رکھنے کے خلاف ایسا کیا تھا جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی عزت افزائی ہوئی لیکن یہاں تو ہر قسم کا کیس خود ہی سننے پر اختلافات پیدا ہوئے۔ جسٹس عیسیٰ کو تو بنچ سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن جسٹس منصور شاہ نے بنچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔ دونوں نے یہ کہا کہ وہ بنچ سے علیحدہ ہونے کےلئے ضمیر کی آواز سے مجبور ہوئے ہیں۔
 

شیئر: