Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سال تو بدلتا ہے، خود کو بدلیں تو ہوگی تبدیلی

  زندگی گنتی کے چند سالوں پر محیط ہے جس میں ہم لامحدود خواہشات کے جال میں ایسے جکڑتے ہیں کہ وقتِ مرگ ہی ہوش آتا ہے
 
عاصم طاہر اعظمی ۔اعظم گڑھ،ہند

    دنیابھر میں نئے سال کے جشن مختلف طریقوں سے منائے جاتے ہیں ان جشنوں کی شروعات کے بارے میں دی ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا میں یوں بیان کیا گیا ہے:
     ’’سن64 قبلِ مسیح میں رومی قیصر جولیس نے یکم جنوری کو سال کا پہلا دن ٹھہرایااس لیے جنوری کے مہینے کا نام جانس دیوتا کے نام پر رکھا گیا۔ اس دیوتا کے دو چہرے تھے، ایک چہرے کا رْخ آگے کی طرف اور دوسرے کا پیچھے کی طرف تھا۔‘‘
    اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ نئے سال کے جشن اصل میں بت پرستی سے تعلق رکھتے ہیں۔
    اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بہت سے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی 31 دسمبر کی رات کو آتش بازی اور جشن مناتے ہیں۔ عیش و نشاط کی محفلوںسے نئے سال کا آغاز کرتے وقت یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ :
غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی
گَردوں نے گھڑی عمر کی اک اور بیتادی
    ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ دنیاوی زندگی تو فانی ہے جو گنتی کے چند سالوں پر محیط ہے جس میں ہم لامحدود خواہشات اور آرزوؤں کے جال میں ایسے جکڑتے ہیں کہ وقتِ مرگ ہی ہوش آتا ہے کہ:

عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
    اے فانی بشر! کبھی دسمبر کے آخری دنوں میں اپنے بیتے برس کا احتساب بھی کیا ہے کہ خالقِ جہاں نے ہمیں اس سال میں کن کن نعمتوں سے نوازا؟ اور پھر بھی کہاں کہاں اس کی حکم عدولی کا مرتکب ہوئے؟ ہمارا ہر آنے والا سال ہمیں ابدی منزل کے قریب لے جارہا ہے جہاں ہم سے ہر چیز کا حساب لیا جائے گا، اس جہانِ انتظار میں قدم قدم پر دفاتر ماہ و سال یوم و  ہفت کھل جائیں گے، کتابِ عمر کے ہر برس کے ورق الٹ جائیں گے تو کیا جشنِ سال نو کی محفلوں کے تذکرے ہمیں بچا پائیں گے؟نہیں ہرگز نہیں بچا پائیں گے ۔فیض لدھیانوی کہتے ہیں:
اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس، نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
    ہمارا گزشتہ سال تو گزر گیا جبکہ امت محمدیہؐ  مصائب و مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے۔ طرح طرح کے فتنوں میں مبتلا ہے۔ اسے بہکانے کی چیزیں عام ہیں۔ وہ طرح طرح کے امتحانات سے دو چار ہے اور یہ سب اشیاء افراد ِامت سے اور ابنائے اسلام سے فوری حل چاہتی ہیں کہ وہ عزم ِصادق اور پختہ ارادہ کریں کہ انفرادی طور پر بھی ، معاشروں کی سطح پر بھی اور حکام و امراء کیا اور عوام و محکوم کیا ہر سطح پر اور ہر شخص اپنی اپنی اصلاح کرے گا اور یہ اس یقین کیساتھ کہ ہم میں سے کسی کواس بات میں کوئی شک نہیں کہ امت کی ناک میں دم کر دینے والو! ان بحرانوں اور تباہ کن حالات سے نجات کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم صاف ستھرے اور حقیقی اسلام کو لیں، وہ خالص اسلام جو قرآن کی شکل میں نازل ہوا ہے، جسے پوری کائنات کے سردار نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے اور جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا۔
    جی ہاں ! صاف ستھرا اور حقیقی اسلام وہی ہے جو ہماری زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو، ہر شعبے کے لئے تعلیمات مہیا کرتا ہے، وہ شعبہ سیاسیات ہو یا اقتصادیات ، اس کا تعلق کلچر و ثقافت سے ہو یا اجتماعیات و معاشروں سے ، اسے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنایا جائے، صرف علمی طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ، حکمرانی و جہاںبانی میں بھی اور اپنے متنازعہ امور میں ثالثی و فیصلے کروانے میں بھی اور یہ مقاصد اسلام کی معرفت کی بنیاد پر ہو کہ اسلام مفید و صالح، عالی تہذیب یافتہ، و مہذب زندگی قائم کرنا چاہتا ہے جو دنیاو آخرت میں اعلیٰ ثمرات مہیا کرے اور اسلام اپنے ماننے والے کو وہ اعلیٰ زندگی مہیا کرنا چاہتا ہے جس کے بارے میں حق تعالیٰ جل مجدہ کا ارشاد صادق آتا ہے جس میں اس نے فرمایا ہے :
     "تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرورزمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُن لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو اُن سے پہلے تھے اور یقینا اُن کیلئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جمادیگا جسے ان کے لئے وہ پسند فرماچکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دیگا، وہ میری عبادت کریں گے ،میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔" ( النور  55)۔
    آج جبکہ امت محمدیہ ؐ  مختلف راستوں کے دوراہے بلکہ کئی راستوں کے جنکشن پر کھڑی ہے، اُس پر واجب ہے کہ وہ اِس بات کا یقین کامل اور علم یقین حاصل کر لے کہ اس کی عزت و قوت اس کے اپنے دین کے ساتھ گہرے ربط و تعلق اور اپنی شریعت پر مکمل عمل اور اپنے نبی کی اتباعِ سنت میں پنہاں ہے ۔یہی وہ کار آمد و فعال اسلحہ ہے جو امت سے تمام خطرات کو دور کر سکتا ہے اور یہی وہ زبردست آہنی لباس ہے جس کے ذریعے اس سخت آویزش اور ان تباہ کن حملوں سے بچا جا سکتا ہے۔    حق تعالیٰ جل مجدہ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین۔
مزید پڑھیں:- - - -  -عقیقہ ، احکام مسائل اور فضیلت

شیئر: